نسوانِ جِناں کی سردار: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا
سيده فاطمہ رضی اللہ عنہا پیارے نبی ﷺ کی اولاد میں سب سے چھوٹی اور چہیتی بیٹی ہے ۔ آپ رضى اللہ عنہا کی ولادت20/ جمادی الاخری کو اعلان نبوت کے پانچ سال قبل ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام ام المؤمنين سیّدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہیں۔تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔آپ عابدہ، زاہدہ،زہرا ء و بتول جیسے القابات سے ملقب اورجنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
ہجرت کے دوسرے سال ماہ رمضان میں حيدر كرار، صاحبِ سيفِ ذوالفقارحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے 400/مثقال چاندی کے درہم بطور مہر دے کر آپ سے نکاح فرمایا۔ آپ کی رخصتی ماہ ذی الحجہ میں ہوئی۔ سيدنا علی المرتضى رضی اللہ عنہ سے آپ کی چھ اولاد ہوئیں، بیٹوں میں حضرت اما م ِحسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام ِحسین رضی اللہ عنہ اورحضرت محسن رضی اللہ عنہ جو بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے۔ بیٹیوں میں زینب رضی اللہ عنہا، ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور رقیہ رضی اللہ عنہا جوبچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں۔یہ سارے نام آپ ﷺ نے ہی رکھے تھے۔ جب تک آپ رضی اللہ عنہا باحیات تھیں حضر ت علی رضی اللہ عنہا نے دوسری شادی نہیں کی۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ سے علم و عمل، عادات و اطوار، اخلاق و کردار اور شکل و صورت میں سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والی بیٹی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کی اسی عظیم خوبی نے آپ کو اہل بیت میں اور انصار ومہاجرین میں بے حد معزز اور محترم بنادیا تھا۔رسول اللہ ﷺ آپ کے ساتھ جیسا استثنائی معاملہ کرتے تھے ویسا کسی کے ساتھ نہیں کرتے تھے۔آپ کسی کی طرح نہیں تھیں، کوئی آپ کی طرح نہیں تھا، لہذا آپ کے ساتھ رسول ﷺ کا سلوک بھی مختلف تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا گویا انسانی حور تھیں، سیدہ نساء العالمین تھیں نیز آپ درجہ کمال کو پہنچنے والی کائنات کی صرف چار عورتوں میں سے ایک تھیں۔
آپ اپنے والد بزرگوار حضور اکرم ﷺ سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ جب آپ کی والده ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاوفات پاگئیں اورآپ ﷺ کے چچا ابوطالب نے بھی داعی اجل کو لبیک کہہ دیا، حضور ﷺ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ایسے نازک وقت میں آپ رضی اللہ عنہا ان کے آرام و راحت کا خیال رکھتیں اور ان کی تکلیفوں کا مداوا کرتیں۔کبھی ایسا ہوتا کہ حضور پرنور ﷺ حرم کعبہ میں محو عبادت ہوتے اورچند شرپسندعناصر آپ کے اوپر غلاظت ڈال دیتےیا بڑے پتھر رکھ دیا کرتے ، جب آپ کو معلوم ہوتا آپ دوڑی آتیں اور آپ ﷺ سے غلاظت وغیرہ دور کرتیں ۔ چنانچہ آپ کے اسی کردار کے سبب آپ کو ’ام ابیھا‘(اپنے باپ کی ماں) کے نام سے پکارا جانے لگا۔آپ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی اکلوتی باحیات اولاد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں۔
اللہ کے رسول ﷺبھی آپ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بھی کسی سفر کا ارادہ فرماتے تواپنے اہل و عیال میں سب کے بعدجس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ: فاطمۃبضعۃمنی، فمن اغضبھا فقد اغضبنی(بخاری) فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اس لیے جس نے اسے ناحق ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آتے ہوئے دیکھتے تو انہیں خوش آمدید کہتے، پھر ان کی خاطر کھڑے ہوجاتے، انہیں بوسہ دیتے، ان کاہاتھ پکڑ کر لاتے اور اپنی نشست پر بٹھا لیتے(نسائی)۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: آپ ﷺ کو سب سے محبوب کون ہے؟ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ "سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں" (ترمذی)۔
آپ رضی اللہ عنہا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی صبر و استقامت اور زہدو تقوی کا نمونہ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تب ہمارے پاس ایک مینڈھے کی جلد کے علاوہ اوڑھنے کے لیے اور کوئی بستر نہ تھا، ہم رات میں اس پر سوتے تھے اور دن میں اسی پر اپنی اونٹنی کو چارہ کھلاتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر کے تمام خودکیا کرتی کسی کو مدد کے لیے نہ بلاتی تھیں۔ ساری عمر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے شکایت نہیں کی اور نہ ان سے کوئی فرمائش کی۔نہ کام کی کثرت اور کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔کھانے کا اصول یہ تھا کہ چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلالیتیں خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا غزوہ احد میں موجود تھیں، جب آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ ہی نے ان کی تیمارداری فرمائی۔سیدہ نے فتح مکہ میں بھی شرکت فرمائی۔اس موقع پر آپ ہجرتِ مدینہ کے آٹھ سال بعد مکہ آئی تھیں، کئی ساری یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں۔ آپ کا پہلا گھر، آپ کی والدہ آپ کا بچپن سب کچھ یہیں تو تھا۔آپ تقریبا دو ماہ تک مکّہ مکرّمہ میں رہیں۔
ہجرت کے11 /گیارہویں سال جب ماہ ِربیع الاوّل میں آپ ﷺ اس دار فانی سے پردہ فرماگئے،آپ کو بڑا قلق ہوا، آپ غم سے نڈھال ہوگئیں اورگوشہ نشینی اختیار کرلی۔پھر اسی سال چھ ماہ بعد ماہ ِرمضان کی تیسری تاریخ منگل کی رات کو مغرب و عشاء کے درمیان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکا وصال ہوا۔ آپ کے جنازے میں خلیفہءِ وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمرِفاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا آپ کے آخری وقت میں آپ کے ساتھ تھیں۔آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد حضرت اسما رضی اللہ عنہا آپ کو غسل دینے اور تجہیز و تکفین میں شریک رہی۔
جیسے ہی انتقال کی خبر مدینہ میں پھیلی اہل مدینہ کے گھرو ں سے آہ و بکا کی آوازیں آنے لگی۔ لوگوں پر آنحضرت ﷺ کے یوم وصال جیسی دہشت طاری ہوگئی۔ پھر جب نماز جنازہ کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آگے کر دیا۔ آپ نے نمازجنازہ پڑھائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو رات میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر28/اٹھائیس سال تھی۔ آج آپ کا 1433 واں یوم وصال ہے۔