مرضیات رب پر خواہشاتِ نفس کو قربان کرنے والا محسن بن جاتا ہے
فنا و زوال اور ضعف و اضمحلال پر مبنی دنیا کی حقیقت کو کماحقہ وہی سمجھ سکتے ہیں جس پر اللہ کی خاص نظر عنایت ہوورنہ دنیا میں بے عقل اور طفلان بے شعور کی ایسی کثرت پائی جاتی ہے جو دنیا اور دنیاوی لذات پر فریفتہ ہوئی جاتی ہے ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا سرائے فانی ہے یہاں سے ہر شخص کو ایک متعین و مقررہ وقت پر یقینی و قطعی طور پر کوچ کرنا ہے ۔ نتیجتاً شیدایان حیاۃ دنیااپنی دنیا و عقبی دونوں تباہ و برباد کرلیتے ہیں اس کے برعکس جن پر لوگوں پر دنیا کی حقیقت کھل جاتی ہے وہ جانتے ہیں کہ دنیا ایسی چیز نہیں ہے جس میں دل لگایا جائے اسی لیے ایسی مبارک ہستیاں زندگی کے ہرمرحلہ پر اخلاص کے ساتھ سخت ریاضت و مجاہدات کرتے ہیں ،ہر لمحہ خواہشاتِ نفس کی خلاف ورزی کرتے ہیں، مرضیات رب کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں ،ہر قسم کے تکدر سے پاک اور منزہ آخرت کی زندگی کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کو آخرت سنوارنے کا محض وسیلہ و ذریعہ بناتے ہیں۔
لیکن جب ہمارے منہج فکر میں خلل واقع ہوجاتا ہے توپھر ہم دنیا کے اسیر ہوکر قعر تذلل میں گھر جاتے ہیں۔ کل تک ہر محاذ پر دنیا کی رہنمائی و امامت کرنے والا مسلمان تہذیب و ثقافت اور کلچر و قوانین کے لیے غیروں کی طرف دست نیاز دراز کرنے پر اسی لیے مجبور ہوگیا ہے چونکہ آج ہم نے خواہشات نفس پر مرضیات رب کو قربان کرنا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اورپوری دنیا تماش بین بنی ہوئی ہے۔ اگر کوئی جانور کے حقوق کو تلف کرتا ہے تو اس پر فوراً مقدمات درج ہوجاتے ہیں ان کو سزائیں سنائی جاتی ہیں لیکن اسرائیل جو معصوم خواتین ، بچوں اور ضعیف العمر حضرات کو اپنی درندگی کا شکار بنارہا ہے ، مسلمانوں کی جان و مال کو مسلسل نقصان پہنچارہا ہے اس کے باوجود اسلامی ممالک کے صاحبان اقتدار اور رہنمایان قوم کی مجبوری و بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل کو اس کے کیے کی سزاء دلانے کی بجائے اس کے ساتھ معاہدات کررہے ہیں اور اس کے ناپاک وجود کو تسلیم کررہے ہیں۔ایسے حال اور ماحول میں مایوسیوں کو امید ، ناکامی کو سربلندی، انتشار کو وحدت سے بدلنے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے مسلمان پر لازم ہے کہ ہر میدان میں پسماندگی کو دور کرنے کے لیے مرضیات رب کو حرز جاں بنالے جس کا حصول نفسانی خواہشات کی مکمل خلاف ورزی کرے بغیر ممکن نہیں۔ ابتدائً نفس کی مخالفت کرنا اور نفسانی خواہشات کی خلاف ورزی کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے لیکن جب بندہ مومن پورے عزم مصمم اور رب کائنات کی قدر کاملہ پر کامل توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اس کٹھن راہ میں پہلا قدم اٹھالیتا ہے تو رب ذو الجلال کی رحمتیں اسے اپنی آغوش میں لیکر اس کی نصرت و اعانت کرتی ہیں اور انسان کو شیطانی وساوس، نفسانی خواہشات اور دنیا پرستی سے محفوظ رکھتی ہے اس طرح بندہ کے لیے نفسانی خواہشات کے خلاف جدو جہد کرنے کا ہر کٹھن مرحلہ آسان بن جاتا ہے اور بندہ مومن دنیا و آخرت کی ہر بلا اور ہر عذاب سے محفوظ ومامون ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید نے مجاہدہ نفس کرنے والوں (یعنی اولیاء اللہ )کو مختلف ناموں سے یاد فرمایا ہے منجملہ ان میں سے ایک محسن ہے ۔ سورۃ العنکبوت میں مذکور ہے کہ جو مبارک ہستیاں راہ خدا میں طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں اور ظاہری و باطنی جد و جہد کرتے ہوئے مرضیات رب پر خواہشاتِ نفس کو قربان کردیتے ہیں اللہ تعالی ایسے محسنین کے لیے مختلف راہیں کھول دیتا ہے اور اپنی معیت و قرب سے نوازتا ہے ۔ علم الشرائع و الاحسان میں ید طولی رکھنے والے اور عملی طور پر نفسانی خواہشات کی خلاف ورزی کرنے والے کوقرآن مجید نے محسن کہا ہے اس کی مختلف وجوہ ہیں۔ چونکہ مجاہدہ نفس کرنے والا اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے محفوظ اور جنت کا مستحق بناکر اپنے آپ پر احسان کرتا ہے اسی لیے اسے محسن کہا گیا ہے۔
مجاہدہ نفس کی فوائد و برکات سے اللہ تعالی مجاہد کی آل و اولاد کو مستفید و مستفیض ہونے کا موقع عنایت فرماتا ہے اور اس پاک باز ہستی کے خاندان کی نگہبانی فرماتا ہے بلکہ جہاں یہ مبارک ہستیاں سکونت پذیر ہوتی ہیں اللہ تعالی ان کے وجود بابرکت کے صدقہ و طفیل پڑوسیوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالی مجاہدہ نفس کرنے والے (یعنی نیک بندوں) کی سات پشتوں کی حفاظت کرتا ہے۔اس طرح مجاہدہ نفس کرنے والا اپنے اہل و عیال اور اطراف و اکناف رہنے والوں پر احسان کرنے والا بن جا تا ہے اسی لیے مجاہدہ نفس کرنے والے کو محسن کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔اسی طرح مجاہدہ نفس کرنے والاجذبات سے مغلوب و مشتعل ہوکر کوئی ایسی انتقامی کارروائی نہیں کرتا ہے جس سے انسان اور انسانیت کو ٹھیس پہنچتی ہو بلکہ وہ اپنے جائز مطالبات و حقوق کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے صبرو استقامت کے دامن کو ہمیشہ تھامے ہوئے دنیا کے سامنے اپنا اعلی کردار پیش کرتا ہے جس پر پوری انسانیت کو ناز و فخر ہوتا ہے ۔عوام الناس ہر حالت میں اللہ تعالی کی یاد میں محو رہنے والی ایسی عظیم ہستی کے کردار سے متاثرہوکر اپنی نفس کی اصلاح کرنے، اخلاقی پستیوں سے نجات پانے، خودستائی و خودپسندی اور دیگر کوتاہیوں کا علاج کروانے، سخت کوشی سے تلخ زندگانی کو انگبین و معنی خیز بنانے کی غرض سے اہل دل و نظر کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور اپنے کردار کو اس کامل مجاہد کے ارشادات کے مطابق ڈھالنے میں مصروف و منہمک ہوجاتے ہیں۔ صحبت پیر کامل کے فیضان سے رفتہ رفتہ مریدین و متوسلین اور عقیدت مندوںکی کتاب حیات صداقت، عدالت، سخاوت، شجاعت، ایثار، اخلاص اور تقوی شعاری جیسے اوصاف جلیلہ سے جگمگانے لگتی ہے۔
نفس کی سرکش خواہشات کے خلاف جہاد کرنے والایہ حقیقی مجاہدانسانی معاشرہ کو نفس کی شرارتوں اور نحوستوں سے محفوظ و مامون کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس طرح وہ انسانی معاشرے پر احسان کرنے والا بن جاتا ہے اسی لیے قرآن مجید نے مجاہدہ نفس کرنے والے کو محسن کہا ہے۔ صدحیف کہ ایسی پارسا ، پاکباز اور مبارک ہستیوں سے وابستہ اکثر خانقاہوں پر آج ایسے نام نہاد جعلی پیروں اور مجاوروں کا قبضہ ہوگیا ہے جو عوام الناس کو نفس کے مکائد سے واقف کروانے کی بجائے خود نفس کے مکر و فریب کا شکار ہیں۔ دنیا کا کوئی پیشہ یا ملازمت ایسی نہیں ہے جس میں انسان کو اپنے آرام و آسائش کے خلاف جاکر جد و جہد نہ کرنی پڑتی ہوبلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس شعبہ میں انسان زیادہ جدو جہد اور محنت و مشقت کرتا ہے اس شعبہ میں اسے نہ صرف کمال حاصل ہوتا ہے بلکہ بہتر روزگار کے مواقع اس کے منتظر رہتے ہیں۔اور جو لوگ صلاحیت و توانائی رکھنے کے باوجود جستجو و لگن سے کام نہیں کرتے وہ بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں بلکہ بسا اقات روزگار سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی چاہت انسان کو تمام آرام و ٓآسائش سے بیگانہ کردیتی ہے۔ پروفیشنل کورسس میں داخلہ لینے کے لیے طلبا نہ صرف طویل مدتی تربیت حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی طبیعت کے خلاف جاکر خوشیاں اور خاص طور پر پیاری و مٹھی نیند کو تک قربان کردیتے ہیں۔ اور جو طلباء ایسے کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں پھر انہیں جرمانہ کے طور پر کثیر رقم دیکر مینجمنٹ کے تحت اپنی سیٹ لینی پڑتی ہے۔
سوال یہ ہوتا ہے کہ دنیا جس کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں اس کے حصول کے لیے راحت و آرام کو چھوڑا جاسکتا ہے تو اس رب کریم کی رضا و خوشنودی کے لیے کیا ہم اپنی نفسانی خواہشات کو ترک نہیں کرسکتے جس نے ہمیں معتدل اعضا عطا فرمائے ، شعور وآگاہی بخشی، عقل و تمیز سے نوازااور تمام چیزوں کو ہمارے لیے مسخر کردیا۔جب انسان کوئی مقصد و ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے عیش و عشرت کو قربان کرتے ہوئے مسلسل جد و جہد میں مصروف رہے تب ہی اسے کامیابی ملتی ہے۔ورنہ انسان کے مقاصد و اہداف کی اہمیت خام خیالی اور خواب سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں سخت جد و جہد مشقت کرتے ہیںعموماً ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ مابقی زندگی انتہائی پرسکون و پر لطف گزرتی ہے اس کے برعکس جو لوگ ابتدائی سالوں میں جدو جہد کے راستہ کو ترک کردیتے ہیں لہو و لعب کا شکار ہوجاتے ہیں پھر ان کی پوری زندگی سخت جد و جہد کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ تقریباً یہی حال ہماری آخرت کا بھی ہے جو لوگ دنیا میں اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرتے ہوئے سخت ریاضت و مجاہدات کرتے ہیں ان کی عقبی سنورجاتی ہے اور جو لوگ دنیا میں نفسانی خواہشات کے اسیر ہوجاتے ہیں اور دنیا کو پرسکون و پر لطف بنانے میں پوری توانائیاں صرف کردیتے ہیںان کی آخرت کی تباہی یقینی ہے۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ دنیا چونکہ دار المحن یعنی امتحان و آزمائش کی جگہ ہے یہاں پر سکون حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے آخرت کو سنوارنے کی فکر کریں۔ دنیا اور دنیا کی تمام نعائم موقتی ہیں جبکہ جنت اور جنت کی تمام نعمتیں ابدی ہیں۔ قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ اس دنیا میں جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف مسلسل جد وجہد کرتے رہتے ہیں اللہ تعالی انہیں نہ صرف دنیا میں اپنی معیت سے سرفراز فرمائے گا جس کی برکتوں سے انسان فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کے علاوہ نوافل کو بھی خشوع و خضوع اور ادب و احترام کے ساتھ کرنے لگتا ہے، بلکہ آخرت میں جنت کا مستحق بنائے گا جہاں ہر خواہش سے پہلے اہل جنت کی تمام تمنائوں اور آرزوئوں کو پورا کردیا جائے گا۔