غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی علمی جلالت
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے جس طرح اپنے برگزیدہ بندے یعنی انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجا کر بنی نوع انسان کو راہ حق پر لگایا، اسی طرح مخلوق خدا کی رہبری و رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے اولیائے کرام کو پیدا فرمایا۔ طبقہئ اولیاء کرام اللہ کے محبوب ومقبول بندوں کا گروہ ہے۔ وہ زمانے میں سب سے زیادہ تقوی کرنے والے اور خدا سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے: اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ یعنی اس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں مگر ان میں اکثر جانتے نہیں۔(محمد:34) اس آیت کریمہ سے یہ بات خوب آشکار ہوگئی کہ اللہ کے محبوب بندے متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں۔ پرہیزگار ہونے کے لیے شرط ہے کہ علم وعرفان ہو، حلال وحرام کی تمیز ہو، شریعت وطریقت کا علم ہو، احکام شرعیہ جانتا ہو، سلوک اور اہل تصوف کے اصطلاحات سے واقفیت ہو، اس کے بغیر تقوی حاصل کرنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اسی وجہ سے جو ولی ہوتا ہے وہ شریعت کے تمام احکام کا عالم ہوتا ہے۔ غیر عالم کبھی ولی ہو نہیں سکتا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: وما اتخذ اللہ ولیاً جاھلاً۔ اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا۔ یعنی بنانا چاہا توپہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا کہ جو علم ِظاہر نہیں رکھتا، علم باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر(کس طرح)پاسکتاہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/530) اسی کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے علامہ ملا علی بن سُلطان القاری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: ومااتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ولو اتخذہ لعلمہ۔ یعنی،اللہ تعالیٰ نے کسی جاہل کو ولی نہ بنایا، اور اگر ولی منتخب فرماناچاہا تو اُسے علم عطا فرمادیا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،1/427)
اس سے یہ بات صاف واضح ہو گئی کہ ہر ولی عالم ہوتا ہے۔ جاھل اور ان پڑھ کبھی اللہ کا ولی ہو نہیں سکتا۔ عالم ہونے کے لئے کسی جامعہ یا دارالعلوم سے فارغ ہونا بھی ضروری نہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جو قرآن بھی پڑھ نہیں سکتا، جو شریعت کے ظاہری احکام بھی نہیں جانتا وہ ولی ہوجائے۔ جس بندے کو بھی اللہ تعالی ولایت کے مرتبے پر فائز کرنا چاہتا ہے اسے پہلے علم لدنی سے مالا مال کرتا ہے پھر ولایت کے مدارج طے کراتا ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالی کا ولی اس زمانے کا بڑا عالم ہوتا ہے۔ علم وآگہی کے سوتے اس کی زبان سے پھوٹتے ہیں۔ تو یہ تو عام ولی کی شان ہے تو اندازہ لگائیے سرخیل اولیاء، قطب الاقطاب، شیخ المشائخ، محبوب سبحانی، قندیل رحمانی، غوث صمدانی، قطب لا ثانی، غوث اعظم شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی شان علمی اور علمی جلالت کا عالم کیا ہوگا؟
سرکار غوث اعظم کی کرامتیں تو ہم ہمیشہ سنتے ہیں اور کرامتیں ایسی کہ ان کرامتوں کے بارے میں خود علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔(سیر اعلام النبلاء 20/448) یہ کرامتوں کا عالم ہے اب یہاں سے آپ کی علمی شان بھی سنیے۔ سرکار غوث اعظم جس طرح آسمانِ طریقت کے روشن آفتاب ہیں،اِسی طرح چرخِ شریعت کے چمکتے دمکتے مہتاب بھی ہیں۔قطبیت کبری پر آپ کیسے فائز ہوئے آپ کی زبان فیض ترجمان سے سنیے! آپ قصیدہ خمریہ میں فرماتے ہیں:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ
ترجمہ:میں (ظاہری و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے آقا و مولا عزوجل کی مدد سے سعادت ابدی کوپالیا۔
علامہ ابو الحسن شطنوفی شافعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ عُلوم میں کلام فرمایا کرتے تھے اور اپنے مدرسہ میں علمِ تفسیر، حدیث، مذہب، خلافیات کا درس دیا کرتے تھے۔اور صبح و شام لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علمِ تفسیر، علمِ حدیث، مذہب،خلافیات، اُصول اور نحو پڑھاکرتے تھے۔ ظہر کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (ساتوں) قرائت میں قرآنِ مجید پڑھایا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،باب ذکر علمہ...ص 225) سرکار غوث الاعظم ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔آپ کی علمی مجلس کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ محدثین اور آئمہ سیدنا غوث اعظم کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی‘ میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔یہ آپ کی سب سے بڑی کرامت اور استقامت علی الشریعت کی بڑی دلیل ہے۔ اتنا ہی نہیں آپ کی مجلس میں فرشتے قلم اور دوات لے کر بیٹھتے اور آپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلنے والی در یتیم قلمبند کرتے تھے۔
مزید آپ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے علامہ علی بن سلطان القاری الحنفی مکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب مستطاب ’نزھۃ الخاطرالفاتر فی مناقب الشیخ عبد القادر‘ میں سید کبیر قُطب شہیر سیِّدنا اَحمد کبیرالرفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:الشیخ عبدالقادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُالحقیقۃ عن یسارہ، مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللہ تعالی عنہ۔ شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے داہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ کے فقہ و فتاویٰ کے متعلق علامہ شطنوفی شافعی فرماتے ہیں کہ شیخ سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن افراد میں سے تھے کہ عراق میں جن کی طرف علمِ فتاویٰ ان کے وقت میں سپرد کردیا گیا تھا۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)
مذکورہ بالا باتوں سے آپ کی علمی جلالت خوب ظاہر ہے۔ درس وتدریس سے لیکر فقہ وفتوی نویسی تک کی دینی ذمہ داری آپ پر تھی۔ خطابات کا یہ عالم تھا کہ ستر ہزار لوگ ایک ایک مجلس میں رہتے تھے۔ آپ کی علمی باتوں کو نوٹ کیا جاتا تھا۔ یہ سب قال والی باتیں ہیں اگر ہم یہاں حال اور باطنی علمی کیفیت بیان کریں تو کچھ لوگوں کے سر سے اوپر گزرے گا۔ بڑے بڑے جید عالم آپ کی حال والی باتیں سن کر اپنے کپڑے پھاڑ لیتے تھے۔ کئی لوگ اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے تھے۔ کچھ لوگوں پر بے ہوشی اور مدہوشی طاری رہتی تھی۔ بطور مثال ہم یہاں علامہ ابن جوزی کا وہ دل سوز واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ایک محدث جب آپ کے باطنی علم کو سن کر کپڑے پھاڑ سکتا ہے تو عوام الناس کا عالم کیا ہوگا؟ ایک مرتبہ سیدنا غوث الاعظم ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر بیان فرمارہے تھے۔ علامہ ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو علامہ ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظم نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ علامہ ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’نہ‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ علامہ ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور مستند جلیل القدر محدث ہیں۔ سیدنا غوث الاعظم چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:الآن نرجع من القال إلی الحال۔ اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں۔ جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ علامہ ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ علامہ ابن جوزی کا حال ہے۔تو اندازہ لگائیے کہ ان تفاسیر کو سننے کے بعد عوام الناس کا عالم کیا ہوگا۔ (ذیل طبقات الحنابلۃ)
اب یہاں ہم آپ چند علمی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں، تصنیفات عالم کی شان اور پہچان بھی ہیں۔ الغنیۃا لطالبین طریق الحق، فتوح الغیب،الفتح الربانی والفیض الرحمانی من کلام الگیلانی، جلاء الخاطر فی الظاہر والباطن من کلام الشیخ عبد القادر،الرسالۃ الغوثیۃ، حزب بشائر الخیرات، المواہب الرحمانیۃ والفتوحات الربانیۃ، رد الرافضۃ، یواقیت الحکم، حزب عبد القادر الکیلانی، الفیوضات الربانیۃ، تنبیہ الغبی إلی رؤیۃ النبی،رسالۃ الوصیۃ، یہ تمام آپ کی وہ خالص علمی تصنیفات ہیں جسے سمجھنے کے لیے صرف علم نہیں بلکہ اہل اللہ کی صحبت اور فیض بھی چاہیے۔ آپ کی علمی جلالت اور شان آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ علم کے ہر میدان میں آپ بے مثیل وبے عدیل نظر آتے ہیں اور بے تاج سلطان ہیں۔ درس وتدریس، فقہ وافتاء، وعظ ونصیحت، تصنیف وتالیف، امامت وخطابت ہر میدان میں آپ سپہ سالار ہیں۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ علم کا کوئی ایسا پہلو نہیں جسے آپ نے سیراب نہیں کیا بلکہ آپ علوم وفنون کے ہر فن مولی نظر آتے ہیں۔ اس لیے آپ کے مریدوں اور شیدائیوں سے ہماری اپیل ہے کہ اگر صحیح معنوں میں قادری کہلانا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو علم کے زیور سے آراستہ کرو پھر اپنے آپ کو قادری کہلاؤ، یہی سرکار غوث اعظم سے محبت وعقیدت کا تقاضا ہے۔ تصوف اور صوفیہ کو جہالت سے مت جوڑو۔ جہاں علم ومعرفت نہیں وہاں تصوف بھی نہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سرکار غوث اعظم کے علمی وروحانی فیوض سے مالا مال فرمائے اور ہماری قادری نسبت کوتاقیامت سلامت رکھے، آمین!
قادری کر قادری رکھ قادریّوں میں اٹھا
قدرِ عبدالقادرِ قدرت نُما کے واسطے!