آمد مصطفیٰ ﷺ اور آدابِ جلوس محمدی ﷺ

قافلہ رشد و ہدایت کا وہ نورانی و روحانی سفر جس کی ابتداء بنی نوع انسان کے جد امجد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی آفرینش سے ہوئی، یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانوں سے گزرتا ہوا بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا۔ لیکن گمراہی و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تاریخ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا، ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی انسانیت شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی۔ جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی تو قانونِ قدرت کے مطابق ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اجالوں کی نقیب بن گئی۔ بلادِ حجاز کی مقدس فضائیں نعرہ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادی مکہ میں اس نادر روزگار ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدائے آفرینش سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے سرورِ کائنات ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات نے اِس خاک دان کا مقدر بدل ڈالا، انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ محسنِ اِنسانیت ﷺ کے وجودِ اقدس میں حسن وجمال ایزدی کے جملہ مظاہر اپنی تمام تر دل آویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوئے کہ تمام حسینانِ عالم کے سراپے ماند پڑگئے۔ میلاد مصطفیٰ ﷺ کی اس صبحِ اولیں سے اب تک پندرہ سو سال کا عرصہ بیت چکا لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پردہ عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماہِ ربیع الاول کا یہ مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے۔

   ماہ ربیع الاول کی ١٢ تاریخ وہ ساعت ہے جس میں، آفتاب رسالت، مہتاب نبوت، سید عالم، نور مجسم، سرور کائنات، مختار دوعالم حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے صحنِ عالم میں قدم رنجہ فرمایا۔ یہ مقدس ساعت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایسی خوشی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ ہر سال جب بھی ربیع الاول شریف کا مبارک مہینہ آتا ہے پورے عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اہل ایمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق نبی کریم ﷺ کی آمد پر اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کے لیے نصیحت و ہدایت لانے والی عظیم ہستی کی اس عالم میں تشریف آوری کوئی معمولی بات نہیں۔ وہ اعظم و اعلیٰ شخصیت جو تمام انسانوں اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ان کی ولادت باسعادت کا دن بلاشبہ عظیم اور یادگار دن ہے جس کی یاد منانا تمام مسلمانوں کے لیے لازم و ضروری ہے۔ محسن انسانیت ﷺ جنہوں نے اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر و شرک کی مہیب تاریکیوں کو دور کیا بلکہ لہو و لعب، خرافات و رسومات سے بگڑی ہوئی انسانیت کو اخلاق و شرافت، شان و شوکت اور سنت و شریعت کے زیور سے آراستہ کیا۔ آج ان کی محفل میلاد کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔ عید میلادالنبی ﷺ کا جلوس نکالتے وقت ادب و احترام کے حدود و قیود کا احترام نہیں کیا جارہا ہے۔ آج لوگ دربارِ مصطفیٰ ﷺ کے آداب بھول بیٹھے ہیں، مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکائے جلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں۔ جلوس نکال کر حصولِ اجر و ثواب کے بجائے رب العالمین کے عذاب کو دعوت دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ کوئی معمولی ساعت نہیں بلکہ سلاطین اسلام بھی سرکاری سطح پر جشنِ میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ اس میں سب سے نمایاں نام ابو سعید المظفر کا ہے جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی تھے۔ ان کے تفصیلی احوال شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی نے اپنی کتاب ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ میں رقم کیے ہیں۔ مزید برآں شیخ ابو مظفر یوسف جو سبط ابن جوزی کے نام سے معروف ہیں، نے اپنی کتاب ’’مرآۃ الزمان فی تاریخ الأعیان‘‘ میں سلطان کے حوالہ سے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے شاہی اِہتمام کی تفصیلات و جزئیات نقل کی ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو نعمتوں پر شکر بجا لانے کا حکم صرف امت محمدیہ ﷺ ہی کو نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی دیا جاتا رہا۔

تاریخ کے آئینے میں سابقہ اور موجودہ اقوام کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ایک ناقابلِ تردید حقیقت نظر آتی ہے کہ ہر دور کے لوگ اپنے مشاہیر کے ایام بڑی دھوم دھام سے ایک جشن کی صورت میں مناتے چلے آئے ہیں۔ آج بھی اقوامِ عالم اپنے قومی و روحانی پیشواؤں اور بانیانِ مملکت کا یومِ ولادت سرکاری سطح پر مناتی ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا یوم ولادت باسعادت ایک ایسا ہی عظیم دن ہے جس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہار مسرت ہوتا آرہا ہے اور اسے یوم عید کے طور پر منانے کی روایت قائم ہے اور اس کی اصل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اس پر اعتراض کی وجوہات کا تعلق نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالہ سے بعض لوگوں کی مخصوص قلبی کیفیت سے ہے ورنہ ان خوشیوں کی تقریبات پر کوئی اعتراض سراسر بلاجواز ہے۔ نبی کریم ﷺ پوری دنیائے انسانیت کے لیے ایک ایسا انقلاب لے کر آئے جس کی عالم گیریت اور آفاقیت پر کبھی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ آپ ﷺ کے پیرو کاروں نے اپنے عظیم ہادی ﷺ کی غیر فانی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر انسانی تہذیب و تمدن کے ایسے مینار روشن کئے اور ہمہ گیر معاشی و معاشرتی ترقی کی وہ مثالیں قائم کیں جس کی نظیر پوری تاریخِ عالم پیش نہیں کر سکتی۔ اس لئے امت مسلمہ پر بہ درجہ اولی لازم ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کا میلاد مبارک منانے میں اقوامِ عالم میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔

جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے: اگر یومِ وطن منانا ثقافتی نقطہ نظر سے درست ہے تو نبی کریم ﷺ کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے وہ بھی منانا درست ہے۔ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر بھی چراغاں ہو سکتا ہے، اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو نبی کریم ﷺ کی ولادت کے دن بھی اپنی عزت و افتخار کو نما یا کرنے کے لیے اس کو بھی امت کی سطح پر منایا جا سکتا ہے جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں اسی طرح میلاد النبی ﷺ کے جلوس کے جواز پر بھی کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی فی زمانہ ثقافت کا حصہ بن گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے میلاد پر اگر جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ وسلام کا اہتمام کیاجاتا ہے تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

آج کے دور میں اگر اہل عرب جلوس نہیں نکالتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ عرب کی ثقافت میں جلوس نہیں جبکہ عجم کی ثقافت میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے ثقافت میں بھی نہیں جبکہ یہاں تو ہاکی، فٹبال اور کرکٹ کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے کہ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ لہٰذا! جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور ان کا اصل مقصد نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش و ضرورت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی آمد پر جلوس نکالنا صحابہ کرام کی سنت ہے اور اسی سنت صحابہ کرام کی بنیاد پر امت مسلمہ کے اولین دور میں بھی آپ ﷺ کی ولادت پر جلوس نکالے جاتے تھے اور اب بھی آپ ﷺ کی محبت و مودت میں اہل اسلام جوش و خروش سے اس میں شامل ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کی نعت خوانی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی آمد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور باری تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کے ملنے پر رب تبارک وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اس میں تمام شامل چیزیں شرعاً جائز ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت یا ممانعت نہیں ہے۔

آدابِ جلوس محمدی ﷺ: جلوس محمدی ﷺ میں شامل ہونے والے حضرات یہ نیت کریں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے نام پر نکالے جانے والے جلوس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ اس لیے اس میں اپنا لمحہ لمحہ نیکیوں میں گزاریں گے، میلاد کی خوشی کا اظہار کریں گے، نعتیں سنیں گے، نعرے لگائیں گے اور ہر وقت لبوں پر درود و سلام کے گجرے سجائے رہیں گے۔ شرکائے جلوس محمدی ﷺ کو چاہیے کہ پہلے غسل کریں، پھر نئے یا صاف ستھرے خوب صورت کپڑے پہنیں، سفید ہوں تو کیا کہنے! عمامہ ہو تو عمامہ ورنہ ٹوپی ضرور لگائیں اور پھر کپڑے بدن کو خوشبوؤں میں بسائیں، ہوسکے تو عطر ساتھ لے لیں اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی لگاتے رہیں تاکہ پورا جلوس ظاہری وباطنی ہر قسم کی خوشبوؤں سے مہک مہک اٹھے۔ جہاں تک ہو سکے پورے جلوس میں باوضو رہنے کی کوشش کریں، نگاہیں نیچی رکھیں اور باوقار طریقے سے چلیں۔ جلوس محمدی ﷺ میں شرکت نام و نمود یا دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ صرف اور صرف محبت رسول کا جذبہ دل میں کار فرما ہو۔ جلوس محمدی ﷺ میں شرکت سے مقصود جلوس اور صاحبِ جلوس ﷺ کی برکات و فتوحات کا حصول ہو کچھ اور نہیں۔ جلوس کشادہ اور بڑی سڑکوں پر نکالے جائیں تاکہ راہ گیروں کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہاں اگر چھوٹے راستوں اور گلیوں سے گزارنا ہی ہو تو راستہ بالکل جام نہ کریں اور گزرنے والوں کو گزرنے کا پورا موقع دیں۔ چھوٹوں پر شفقت کریں اور بڑوں کا بے حد احترام کریں کہ یہی صاحبِ جلوس ﷺ کی تعلیمات و ہدایات ہیں۔ دوران جلوس پان پکار، سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات سے مکمل پرہیز کریں۔ نعرہ لگاتے وقت بہت زیادہ اچھل کود اور ہلڑ بازی کرنا غیر اسلامی طریقہ ہے۔ اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔ ہمارا نعرہ متوسط آواز میں، باوقار طریقے سے اور اچھے کلمات پر مشتمل ہونا چاہیے، بھڑکاؤ قسم کے نعروں سے بچیں۔ لاوڈ اسپیکر نارمل آواز میں بجائیں۔ نبی کریم ﷺ سے منسوب جلوس کو کسی کے لیے زحمت نہ بننے دیں۔ مٹھائی اور تبرکات کی تقسیم کے وقت اَدب واحترام کا پورا پورا لحاظ رکھیں اور چھینا جھپٹی سے بچیں۔ دورانِ جلوس اگر نماز کا وقت آجائے تو پہلے نماز ادا کرلیں، اس میں ہرگز غفلت نہ برتیں کیوں کہ نماز فرض ہے اور جلوس نکالنا امر مستحسن اور کارِ ثواب ہے۔ تو ایک مستحسن کام کی وجہ سے فرض کو چھوڑنا کوئی عقلمندی نہیں۔ جلوس کو نبی کریم ﷺ سے نسبت کی وجہ سے قابلِ احترام سمجھیں، اس میں ہنسی مذاق، گالی گلوج اور ہرقسم کی بیہودہ حرکتوں سے بچیں، نیز اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچے تو عفو و درگزر اور صبر و تحمل سے کام لیں۔ راستے میں بڑے سلیقے سے ترتیب وار ہلکے ہلکے قدموں کے ساتھ چلیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری سلیقہ مندی اور طور طریقہ ایسا دلکش ہوکہ دیکھنے والا اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا گرویدہ ہو جائے کہ یہی اصل مقصدِ جلوس ہے۔

لمحۂ فکریہ: اگر ہم اپنے احوال پر نظر دوڑائیں تو یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ ہم میں سے اکثر نے مال و دولت، مکانات، کاروبار، تجارت، سرمایہ اپنے ماں باپ سے پایا اور اب اِس کوشش میں ہیں کہ اپنی اولادوں کو اس سے کئی گنا زیادہ منتقل کر کے دنیا سے جائیں۔ کتنے دکھ کی بات ہوگی کہ ایمان اور محبتِ رسول ﷺ کی وہ دولت جو ہم نے اپنے آباء و اجداد سے زیادہ لی اور اولاد کو کم منتقل کر کے اس دنیا سے رخصت ہوں اور جب ہماری اولاد اپنی اگلی نسل کے لیے مؤخر الذکر ورثہ میں اور بھی کمی کردے گی تو ان کا کیا حشر ہوگا؟ کیا ان کے پاس ایمان کی کوئی دولت رہے گی؟ آج مسلم دنیا کی دگرگوں صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ عالمِ کفر و اِلحاد اور باطل کی یلغار مسلم نسلوں کو ایمان کی دولت سے محروم کرنے کی اِنتہائی کوشش کر رہی ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے اور ایمان کی دولت محفوظ کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا اور آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی پیروی کرنا از بس ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم شعوری طور پر یہ کوشش کریں کہ سینوں میں نبی کریم ﷺ کی محبت کی شمع روشن رہے اور ہم اگلی نسلوں کو محبتِ رسول ﷺ کی لازوال دولت منتقل کر سکیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter