ولادتِ مُصطفٰی ﷺ انسانیت کے لیے روشنی کا ظہور

دنیا کی تاریخ میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں جو انسانیت کی تقدیر بدل دیں۔ بارہ ربیع الاول کا دن ایسا ہی ایک لمحہ ہے۔ جب مکہ مکرمہ کی سر زمین پر وہ ہستی تشریف لائی جسے "رحمۃ للعالمین" کہا گیا۔ نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت نہ صرف عرب بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید، روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہے۔

  چھٹی صدی عیسوی کا زمانہ جہالت اور ظلمت کا دور تھا۔ عرب معاشرہ قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ ظلم، جاہلیت، قتل و غارت اور لڑائی جھگڑے عام تھے، عورت کو کمتر سمجھا جاتا اور بچیوں کو زندہ دفن کرنا ایک معمول تھا۔ سود اور غلامی نے انسانیت کی کمر توڑ رکھی تھی۔ اسی تاریکی میں وہ صبح طلوع ہوئی جب حضرت سیدتنا آمنہ بنت وہب کے گھر حضرت عبد اللہ کے بیٹے محمد ﷺ نے آنکھ کھولی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا میں عدل و مساوات اور انسان دوستی کا ایک نیا دور شروع ہونے والا تھا۔

  نبی کریم ﷺ کی پیدائش عام الفیل کے سال ہوئی۔ جب ابرہہ کا ہاتھیوں والا لشکر خانہ کعبہ پر حملے کے ارادے سے آیا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کر دیا۔ آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے وقت حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نور کی جھلک نظر آئی جو شام کے محلات تک روشنی پھیلا گئی۔ دنیا میں کئی ایسے آثار ظاہر ہوئے جو اس بات کا اعلان تھے کہ ہدایت کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(الانبياء:107)

نبی کریم ﷺ نے غلاموں کو عزت دی، عورتوں کو وقار دیا، یتیموں کا سہارا بنے، دشمنوں کو معاف کیا، علم کو عام کیا اور انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ انسان کو اس کے رب سے جوڑا، معاشرتی نظام کو عدل پر قائم کرنے کی تلقین کی، صدق، امانت، حلم اور صبر کو عملی نمونہ بنا کر دکھایا، مذہب، رنگ یا نسل سے بالاتر ہوکر انسانوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا۔

نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کا جشن منانے کا اصل مطلب صرف چراغاں کرنا نہیں بلکہ آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں میں نرمی لانی ہوگی، دوسروں کے حقوق ادا کرنے ہوں گے، معاشرے سے ناانصافی اور کرپشن ختم کرنی ہوگی، نوجوانوں کو علم اور کردار سے آراستہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم سیرت النبی ﷺ کو اپنائیں تو آج کی دنیا سے بھی ظلمت دور ہوسکتی ہے اور امن، بھائی چارہ اور خوشحالی آسکتی ہے۔ اس وقت امت ایک نازک موڑ سے گذر رہی ہے، اس کی عزت ذلت میں تبدیل ہوچکی ہے، دشمنوں کی یلغار ہے، عالمِ اسلام طاغوتی قوتوں کے آگے بے بس نظر آرہا ہے، دنیا کے گوشہ گوشہ میں خونِ مسلم کی ارزانی ہے۔ مسائل کے اس دلدل سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ امت مسلمہ پورے طور پر سیرتِ رسول ﷺ  سے وابستہ ہو جائے، سیرتِ رسول ﷺ  سے دوری ہی اُمت کو پستی کے غاروں میں دھکیل رہی ہے۔ سیرت رسول ﷺ  سے حقیقی وابستگی کے لیے ضرورت ہے کہ اُمت  مسلمہ رسول ﷺ  کی زندگی اور اسوہ حسنہ کو پوری طرح اپنی عملی زندگی میں رائج کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں پہلا کام یہ ہے کہ تمام تحریکیں، جماعتیں اور ادارے مسلمانوں کو سیرتِ رسول ﷺ کے عملی گوشوں سے متعارف کرنے کے لیے تعارف سیرت پر پروگراموں اور جلسوں کا انعقاد عمل میں لائیں۔ یہ کام ہمہ گیر سطح پر انجام دیا جائیں، عوام الناس میں سیرت کے جلسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ اہل علم طبقہ میں مختلف زبانوں میں سیرت کے عملی موضوعات پر مستند کتابیں عام کی جائیں۔ یہ جلسے اور پروگرام اور تعارف، سیرت کی یہ مہم صرف ماہ ربیع الاول تک ہی محدود نہ رہے بلکہ سال کے بارہ مہینے وقفہ وقفہ سے ان کا انعقاد عمل میں آتا رہے، عصری اداروں اور کالجوں میں زیر تعلیم طلباء کے لیے ایسا نصاب تیار کیا جائے جو سیرت رسول ﷺ  و سیرتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور تاریخ اسلام پر مشتمل ہو، اسی طرح چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے ابتدائی درجہ کی عام فہم کتابیں تیار کی جائیں۔

  سیرت رسول ﷺ  سے متعلق مسلمانوں کی ایک اہم ذمہ داری دعوت دین کے لیے سیرت کا استعمال ہے۔ غیر مسلموں میں دعوت کے لیے سیرتِ رسول ﷺ  کو موثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیرت رسول ﷺ کی دعوتی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’غیر مسلم طبقہ پر اتمامِ حجت کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی عملی زندگی کو اسلام کی صداقت کا عملی نمونہ بناکر پیش کریں اور ہماری عملی زندگی میں لوگ اسلام کی برکتیں اور رحمتیں دیکھ کر اسلام کو نجات و ہدایت کا راستہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رحمت عالم ﷺ  کے اخلاقی کمالات اور آپ ﷺ کا معجزانہ کردار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ہر طبقہ کو اس کی زبان، اس کی سمجھ اور اس کی استعداد کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی جائے تاکہ رحمۃ للعالمین اور صاحب خلق عظیم رسول ﷺ  کی محبت لوگوں کے دلوں میں اتر جائے اور پھر اس محسنِ انسانیت ﷺ کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو لوگ سچا ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پانے لگیں۔ (اخلاقِ رسول اکرم ﷺ ) سیرت رسول ﷺ کے دعوتی استعمال کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں، مختلف زبانوں میں سیرت سے متعلق مؤثر لٹریچر تیار کرکے عام کیا جائے، غیر مسلموں کے سامنے سیرتِ رسول کے پہلو کو رکھا جائے، آپ ﷺ کی وہ تعلیمات جو انسانی رواداری اور امن عالم پر مبنی ہیں رائج کی جائیں، مختلف تقریبوں اور عیدوں کے موقع پر غیر مسلموں کو مدعو کرکے سیرت بیان کی جائے، اہل علم طبقہ کے لیے علمی انداز اختیار کیا جائے-

سیرت سے وابستگی پر عائد ہونے والی ایک اہم ذمہ داری تحفظِ ختم نبو ت کی ہے، بہت سے سادہ لوح مسلمان قادیانیت کا شکار ہو رہے ہیں، عام مسلمانوں میں ختم نبوت کا واضح تصور نہیں ہے، اضلاع اور دیہاتوں میں قادیانیت سرگرم ہے، شہروں میں بھی کافی سرگرمیاں جاری ہیں، ربیع الاول کے موقع پر سیرت النبی ﷺ  کے جلسوں کی بھرمار ہوتی ہے، ان جلسوں میں ختم نبوت کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے، علاوہ ازیں مختلف تحریکات کے ذمہ دار حضرات قادیانیت سے متاثرہ مقامات کا دورہ کرکے مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کریں، قادیانیت کا فتنہ جس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے، اُمت مسلمہ میں اسی قدر غفلت پائی جاتی ہے، سیرتِ رسول ﷺ  سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ ہم ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر چیز کی قربانی کے لیے تیار ہو جائیں۔ ربیع الاول کے موقع سے سیرت کے عنوان سے آج جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا تعلق صرف زبانی جمع خرچ سے ہوتا ہے جب کہ سیرت سے متعلق علمی ذمہ داریوں سے جی چرایا جاتا ہے، اس وقت اُمت کو سیرت سے وابستہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس کے لیے عملاً سرگرم ہو جائیں۔ نبی کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت انسانیت کے لیے سب سے بڑی خوش خبری تھی۔ آپ ﷺ کی زندگی رہنمائی کا ایسا چراغ ہے جو ہر دور اور ہر انسان کے لیے روشنی دیتا ہے۔ آئیے بارہ ربیع الاول کے اس مبارک موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی آپ ﷺ کی محبت کا ثبوت دیں تاکہ دنیا ایک بار پھر عدل و امن اور محبت کا گہوارہ بن سکے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter