قرآن کی روشنی میں خواتین کے حقوق
اسلام سے پیشتر عورت شدید مظالم کا شکار تھی۔ کہیں خرید و فروخت کی شے تھی، کہیں ذلت و رسوائی کا ن نقشِ سیاہ ، کہیں محض مردوں کی خواہش پوری کرنے کا ذریعہ، تو کہیں اسے نجاست و حقارت کا منبع قرار دیا جاتا، تو کہیں اسے منحوس سمجھا جاتا ۔ حتیٰ کہ بعض اقوام میں اسے زندہ درگور کرنے کا فاحشانہ رِواج تھا ۔ اُسی دوران قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی کلام ہے جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا۔ جس نے تاریک جاہلیت کے پردے کو چاک کر کے روشنی کی کرنیں بکھیریں۔ اس قرآن نے عورت کے حقوق میں دنیا کو وہ قانون عطا کیا جو عدل و اعتدال کا شاہکار ہے۔ قرآن نے نہ صرف عورت کے عزتِ نفس کو بحال کیا بلکہ اس کے معاشرتی، معاشی، مذہبی، خاندانی اور روحانی حقوق بھی اپنے نصوصِ قطعیه سے مستحکم کیے۔
مگر آج قرآن پر انگشتِ تنقید اٹھائی جا رہی ہے کہ اس نے عورتوں کے حقوق درہم برہم کر رکھے ہیں۔ ایڈورڈ ولیم لین (1801ء سے 1876ء) نے قرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ کیا اور اس ترجمے کے ساتھ ایک دیباچہ شامل تھا۔ اس دیباچے میں مترجم نے اسلامی تعلیمات کے بارے میں تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ اسلام کا تباہ کن پہلو عورتوں کو حقیر درجہ دینا ہے۔ “The fatal point in Quran is the degradation of women اسی طرح اسلام کے بارے میں ایسے بے شمار تنقیدی پہلو سامنے بارہا آتے ہیں۔
اور یہ خیال اٹھارہویں صدی سے ابتدائے تحریکِ آزادیِ نسواں (women’s liberation movement) سے ہوا۔ اس تحریک کی ابتدا برطانیہ میں ہوئی اور اس تحریک نے پہلی بار دنیا میں ذہن پیدا کیا کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اور اس تحریک نے دنیا بھر میں مسلمان عورتوں کو عطا کردہ حقوق ظلم نظر آنے لگے کیونکہ اس تحریک کا نظریہ اور اسلام کا نظریہ دور دور تک نہیں ملتا تھا ۔ اور اسی تحریک نے اسلاموفوبیا کو عروج تک پہنچایا
۔ حتیٰ کہ یہ تحریک دنیا کے چپے چپے میں جا پہنچی، خصوصاً اس تحریک کے اثرات آج مغربی دنیا میں بھرپور قوت اور وسعت کے ساتھ نمایاں ہیں ۔آخر اس تحریک کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہاں، اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ آج عورت مردوں کے شانہ بشانہ ہے اور آج کا مغربی معاشرہ عورت کی آزادی کے نام پر اسے جسمانی نمائش کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ مغرب عورتوں کو اس کے مبارک گھر اور معزز خاندان سے کاٹ کر سرمایہ دارانہ مشین کا پرزہ بنانے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ شیخی مارتا ہے کہ اس نے اسے پورا حق دیا ہے۔ درحقیقت اس نے عورتوں کو ان کی نسوانیت اور حیاداری سے محروم کر دیا اور ان کے ان حقوق کو ظلم قرار دیا جو قرآن نے عورتوں کو بخشے تھے ۔ کیونکہ ان کا ماننا ہی یہی ہے کہ اسلام انہیں مرد سے کم درجہ دیتا ہے۔
اسی کے بارے میں مولانا وحید الدین خان نے نہایت ہی بہترین انداز میں اپنی کتاب "خواتینِ اسلام" میں اس کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ عورت کے بارے میں اسلام کا کہنا یہ نہیں کہ وہ مرد سے کم ہے۔ اسلام کا کہنا صرف یہ ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابلے میں فرق کا معاملہ ہے، نہ ایک کے مقابلے میں دوسرے کو بہتر بنانا ہے ۔ اور انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ڈاکٹر کے مانند ہے جو ڈاکٹر اپنے مریض سے کہتا ہے کہ آنکھ تمہارے جسم کا نہایت نازک حصہ ہے، تم اپنی آنکھ کے ساتھ وہ معاملہ نہیں کر سکتے جو مثال کے طور پر تم اپنے ناخن کے ساتھ کرتے ہو۔ ڈاکٹر کی اس ہدایت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ناخن کے مقابلے میں آنکھ کو کم درجہ دے رہا ہے بلکہ وہ ناخن کے مقابلے میں آنکھ کا فرق بتا رہا ہے۔ اسی طرح اسلام بھی مرد اور عورت کے بیچ فرق بتا تا ہے ۔ اور قرآن نے بارہا اس فرق کا ذکر فرمایا اور اس کی وجہ بھی بیان کی۔
مثلاً جب اسلام نے قبولِ شہادت کی بات کی: وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ۖ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ’’اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنا لو) اُن گواہوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو، پھر قرآن نے یہ بتانے کے ساتھ ساتھ سبب بھی بیان فرمایا تاکہ اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔‘‘
قرآن نے ایک ایسی وجہ بتائی جس وجہ کو آج کے سائنسدانوں کی تحقیقات سے بھی تصدیق شدہ ہے۔ یہ بات بالکل حق ہے کہ عورت کی جو یادداشت ہے وہ بہت کمزور ہے۔ اس لیے قرآن نے کہا تاکہ اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔
قرآن نے عورت کو وہ تمام حقوق فراہم کیے جو اس کی ذات پر منحصر ہیں جیسے اسلام نے اسے روحانی برابری اور تخلیقِ مساوات کا تاج پہنایا ہے، اسے ازدواجی حقوق عطا فرمایا ، اور وراثت جیسی نئی چیز کو اس کے حق سے الحاق فرمایا اور تعلیم کی پوری چھوٹ فراہم کی، نیز اس کی ذمہ داریوں کو واضح کیا۔