امن کے پیغمبر سے اظہار محبت، نقضِ امن کیسے؟

آج کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی منظرنامے میں مذہبی جذبات اور آزادیٔ اظہار کے درمیان کشمکش روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ حال ہی میں ’’آئی لو محمد‘‘ جیسے جملے لکھنے پر مقدمات اورگرفتاری کے واقعات نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ’’آئی لو محمد‘‘ یعنی نبی کریم ﷺ سے محبت کو دُنیا کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی ایمان کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ’’آئی لو محمد‘‘ لکھنا اوربولنا دراصل ایک جذباتی اظہار ہے، جو کسی بھی مسلمان کے لیے بالکل فطری امر ہے۔ محبتِ رسول ﷺ کو قرآن و حدیث میں ایمان کا حصہ قرار دیا گیا۔ نعتیہ ادب اور صوفیانہ شاعری میں بھی یہ محبت صدیوں سے جاری ہے۔ اِس لیے اِس جملے کو مجرمانہ یا اشتعال انگیز قرار دینا مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ رہی بات ’’آئی لومحمد‘‘ کے بورڈ لگانے پرایف آئی آر اورگرفتاری کی، توآئین ہند:آرٹیکل 19(1) (a)کے مطابق: ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے۔ البتہ! آرٹیکل 19(2) میں اُس آزادی پر معقول پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جو عوامی نظم و نسق یا مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’آئی لو محمد‘‘ کا جملہ کس طرح نقضِ امن یا مذہبی فساد کا باعث بنتا ہے؟ اگر یہ جملہ نفرت پھیلانے یا کسی دوسرے مذہب کی توہین کے ساتھ جوڑا گیا ہوتا تومقدمات و گرفتاری کسی حد تک قابلِ بحث ہو سکتی تھی۔ لیکن محض ایک مثبت جملہ، جس میں صرف محبت کا اظہار ہے، اس پر مقدمات وگرفتاری ایک غیر متوازن اورغیرقانونی قدم معلوم پڑتا ہے۔ خیال رہے کہ اِس نوعیت کے مقدمات اور گرفتاریاں صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ پورےمعاشرے میں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ایک خاص مذہبی گروہ کے جذباتی اظہار کو جرم قراردیا جارہا ہے، جس سے اقلیتی طبقے میں عدمِ تحفظ کا احساس مزید بڑھ سکتا ہے اور اکثریتی طبقے میں یہ تأثرمستحکم ہوسکتا ہے کہ مذہبِ اسلام یا پیغمبر اسلام ﷺ کے نام کا ذکر بذات خود ایک خطرہ ہے۔

اِس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ دنیا بھر میں’’آئی لومحمد‘‘ کے جملے عام ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی مسلمان قومیں اِس قسم کے بینرز، ٹی شرٹس اور سوشل میڈیا ہیش ٹیگز اِستعمال کرتی ہیں، جہاں اُس پر گرفتاری کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ مذہبی آزادی کے دائرے میں آتا ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس پر پابندی عائد کرنا درحقیقت عالمی سطح پر ملک کی شبیہ کو خراب کرنا ہے۔ اِس لیے ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ ’’آزادیٔ اظہار‘‘ اور ’’نقضِ امن‘‘ کے درمیان فرق کوسمجھیں۔ محض سیاسی دباؤ یا اکثریتی جذبات کی بنیاد پر اقلیتوں کو نشانہ بنانا دستورِہند کی روح کے خلاف ہے۔ حکمراں طبقہ اور ایڈمنسٹریشن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جو پیغمبراِسلام ﷺ دنیا سے ہرطرح کی فرقہ پرستی کو ختم کرنے آیا تھا اُن کا نام اور اُن سے محبت کا اظہار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ لہٰذا ’’آئی لو محمد‘‘ پرمقدمات کا اندراج/ گرفتاری کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک محبت آمیز جملہ ہے، جس میں نہ کسی دوسرے مذہب کی توہین ہے، نہ کسی طرح کی اشتعال انگیزی۔ اگر اِس طرح سے مقدمات /گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھتا ہے تو یہ آزادیٔ اظہار پر کاری ضرب اور جمہوری اصولوں کی کمزوری سمجھی جائےگی۔ بلکہ یہ سراسر ہندوستانی عدلیہ کی توہین ہے، کیوں کہ عدلیہ نے ماضی میں متعدد باراِظہارِ رائے اور مذہبی جذبات کے درمیان توازن قائم کرنے کی مثالیں قائم کی ہیں، مثلاً: پرکاش سنگھ بادل بنام ریاست(1987)کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ دفعہ 295-A کا اطلاق تبھی ہوگا جب ’’دانستہ اور بدنیتی‘‘ کے ساتھ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہو۔ امیش دوبے بنام ریاستِ اتر پردیش(2023)کے قضیے میں عدالت نے کہا کہ مذہبی بحث و اظہار اُسی وقت جرم ہوگا جب اُس سے براہِ راست تشدد یا نفرت بھڑکائی جائے۔ شریا سنگھل بنام یونین آف انڈیا(2015)کے اپنے ایک فیصلے میں عدالت نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66-A منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اظہارِ رائے کو ’’مبہم خدشات‘‘ کی بنیاد پر محدود نہیں کر سکتی۔ اِن عدلیہ فرمانوں سے واضح ہوتا ہے کہ ’’آئی لو محمد‘‘ کے الفاظ پرمقدمات و گرفتاری، آئینی اور عدالتی دونوں اصولوں کے خلاف ہے، کیوں کہ اس میں نہ دانستگی وبدنیتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کی توہین۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی اخبارات نے بھی اِسے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر سوالیہ نشان قرار دیا، بالخصوص جب ملک خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔

سماجی لحاظ سے دیکھا جائے تومسلمانوں میں یہ تأثر گہرا جاتا ہے کہ اُن کے مذہبی جذبات اور اظہار کو مجرمانہ رنگ دیا جا رہا ہے اوراکثریتی طبقے میں یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اسلام یا پیغمبراِسلام ﷺ کے ذکر کو ’’تنازعہ‘‘کا ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اِس سے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کمزور ہوتی ہے بلکہ آپس میں اعتماد کا فقدان بھی بڑھتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اِس موضوع پر بھی ہندوستانی میڈیا نے محض واقعے کو اُچھالنے کا کام کیا، جب کہ اصل بحث یہ ہونی چاہیے کہ مذہبی آزادی اور اظہار کے دائرے کہاں تک ہیں۔ نیزاُن پہلوؤں پر فوکس رکھنا چاہیے کہ یہ مقدمات وگرفتاری سیاسی دباؤ اور اِنتظامی کمزوری کوظاہر کرتی ہے۔ اگر اِس رجحان کو نہ رُوکا گیا تو یہ ہندوستان کی جمہوری شناخت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ جمہوریت کش اور اَلمناک واقعہ کان پور شہر کے علاقے سید نگر، راوت پور تھانہ کے حدود میں پیش آیا، جب عید میلاد النبی ﷺ کی تقریب کے موقع پر مسلم کمیونٹی نے عام شاہراہ پر ایک بورڈ لگایا، جس پر’’آئی لو محمد‘‘ لکھا تھا۔ معاملات کی تہہ میں پہنچنے پر بنیادی باتیں جوسامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ جس شاہراہ پر یہ بورڈ لگایا گیا تھا اُسی سے قریب رام نومی جلوس کی گزرگاہ ہے، اور یہی اکثریتی طبقے کی طرف سے اعتراض کا باعث بنا۔ پولیس کے بموجب  غیرمسلم تنظیموں نے یہ اعتراض کیا کہ ’’آئی لومحمد‘‘ کا بورڈ لگانا ایک ’’نئی روایت‘‘متعارف کرانے کی کوشش ہے، اوریہ اختلافات و انتشار اور اِحتجاج کی کیفیت پیدا کر سکتی ہے۔ بالآخرپولیس نے اُس بورڈ کوہٹا دیا، جس پر’’آئی لو محمد‘‘ لکھا ہوا تھا، اوردلیل یہ پیش کی کہ اِس کی وجہ سے امن و امان کو خطرہ لاحق ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مذہبی نئی روایت کی بنیاد ڈالنا/کچھ نیا کرنا، فرقہ پرستی کوبڑھاوا دینا ہے یا کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے؟ کیا اِس سے بڑی بات بھی اور کچھ ہوسکتی ہے کہ ایک طرف ’’آئی لو محمد‘‘ کا بورڈ لگا ہواوردوسری طرف رام نومی کا جلوس نکل رہا ہو۔ یہ طرزِعمل گنگا-جمنی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ اِس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں یہ خوب صورت نظارہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک طرف عام شاہراہ کے کنارے اکثریتی کمیونٹی کے مذہبی بینرز اور بورڈ لگے ہوتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی جلوس نکل رہے ہوتے ہیں، لیکن اُس سے نہ تو کسی مسلم کمیونٹی کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خطرہ محسوس ہوتا ہے اور نہ کسی انتشار وفساد کا خدشہ، پھرغیرمسلم کمیونٹی کو مسلمانوں کے مذہبی بینرز اور بورڈ سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے؟ کیا غیرمسلموں کو دَستورِ ہند اورہندوستانی ایڈمنسٹریشن پر اِعتماد نہیں ہے؟

غرض یہ کہ ہم تمام باشندگان ہند کو اپنے دل ودماغ سے یہ بات نکالنی ہوگی کہ ایک مذہب دوسرے مذہب کے لیے خطرہ ہے یا ایک کمیونٹی دوسری کمیونٹی کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ اِس کے برعکس ہرقوم ایک دوسرے کی ضرورت ہے، اِس لیے ہمیں ہرایک کے مذہبی اُمورکی آزادی کا خیال رکھنا ہوگا، ورنہ اگریوں ہی ہم لوگ ایک دوسرے کے لیے رخنہ بنتے رہیں، توافسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا اور ہم سب کا حال یہ ہوگا کہ’نہ خداہی ملا نہ وصال صنم‘

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter