کرسمس ڈے —مذہبی تہوار یا فکری آزمائش؟ ایک اسلامی تجزیہ

دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں بعض مخصوص ایام اور تہواروں کو غیر معمولی مذہبی، روحانی اور سماجی اہمیت حاصل رہی ہے، جن کے ذریعے ہر مذہب اپنی تاریخ، عقائد اور تہذیبی تشخص کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ ایام نہ صرف مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتے ہیں بلکہ پیروکاروں کے درمیان باہمی ربط، اتحاد اور مذہبی شعور کو بھی تقویت دیتے ہیں۔ انہی نمایاں مذہبی ایام میں سے ایک دن کرسمس ڈے ہے، جو عیسائی برادری کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت کی یاد میں ہر سال عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے، اور جسے ان کے مذہبی و ثقافتی کیلنڈر میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک عظیم المرتبت رسول، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے جلیل القدر نبی کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں آپ علیہ السلام کی ولادت کو ایک کھلے معجزے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت اور حکمت پر دلالت کرتا ہے۔ تاہم اسلام نہایت وضاحت اور قطعیت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عقیدۂ الوہیت اور ابنیت کی نفی کرتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یکتا ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی کا محتاج ہے۔ اسی عقیدۂ توحیدِ خالص کو اسلام کی اساس اور بنیاد قرار دیا گیا ہے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرسمس ڈے کو جذباتی یا تقلیدی انداز میں دیکھنے کے بجائے ایک سنجیدہ علمی رویّے کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے، اور اسے تاریخی، سماجی اور مذہبی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو دیگر مذاہب کے احترام، حسنِ سلوک اور انصاف کا درس دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اپنے بنیادی عقائد کی حفاظت اور فکری حدود کی پابندی کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔ اسی متوازن اور معتدل اسلامی نقطۂ نظر کی روشنی میں کرسمس ڈے پر غور و فکر کرنا ایک مسلمان کے لیے نہ صرف ضروری بلکہ فکری بصیرت کا تقاضا بھی ہے۔

کرسمس کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت — ایک تحقیقی و مختصر بیان

کرسمس (Christmas) دراصل Christ اور Mass کا مرکب ہے، جس کے معنیٰ ہیں “مسیح کے لیے اجتماع”، اور عیسائی عقیدے کے مطابق یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں منایا جاتا ہے، حالانکہ اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کے جلیل القدر نبی مانتا ہے، مگر انہیں اللہ کا بیٹا ماننے کے عقیدے کو صریح کفر اور شرک قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نہایت وضاحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے: ﴿لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ﴾—اللہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا (سورۂ اخلاص)، اور ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً﴾ کے ذریعے “اللہ کے بیٹے” کے دعوے کو عظیم بہتان کہا گیا (الکہف: 5)۔ اسی بنا پر کرسمس ایک خالص مذہبی و شرکیہ شعار ہے، کیونکہ یہ اسی عقیدے کی مناسبت سے منایا جاتا ہے؛ لہٰذا اس میں شرکت کرنا یا “میری کرسمس” کہہ کر مبارک باد دینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ یہ باطل عقیدے کی تائید کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ تاریخی و تحقیقی شواہد کے مطابق 25 دسمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی مستند تاریخ نہیں؛ قرآن کریم (سورۂ مریم: 23–26) میں تازہ کھجوروں کا ذکر ولادت کے موسمِ گرما کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور انجیلِ لوقا میں رات کے وقت چرواہوں کا ریوڑ چرانا بھی سردی کے بجائے معتدل موسم کی دلیل ہے۔ خود عیسائی محققین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر ایک قدیم بت پرستانہ تہوار کی تاریخ تھی جسے بعد میں کرسمس سے منسوب کر دیا گیا۔ اس پس منظر میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور عدل لازم ہے، مگر ان کے مذہبی شعائر اور شرکیہ تہواروں سے اجتناب واجب ہے؛ چنانچہ ایک مسلمان کے لیے نہ کرسمس کی مبارک باد دینا جائز ہے اور نہ اس کی کے کسی حصے میں شریک ہونا، کیونکہ ایمان کی حفاظت اور توحید کی پاسداری ہر شے پر مقدم ہے۔

بعض مؤرخین اور محققین کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی کوئی متعین تاریخ بائبل یا ابتدائی عیسائی مصادر میں مذکور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی تین صدیوں تک عیسائی دنیا میں 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے طور پر منانے کا کوئی باقاعدہ ثبوت نہیں ملتا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومی سلطنت کے دور میں، جب عیسائیت کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہوئی، تو مختلف غیر عیسائی (رومی و مشرکانہ) تہواروں کو عیسائی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ انہی میں سے ایک رومی تہوار Sol Invictus (سورج کے جنم کا دن) بھی تھا جو 25 دسمبر کو منایا جاتا تھا، بعد میں اسی تاریخ کو کرسمس سے جوڑ دیا گیا۔

اسی دور میں گرجا گھروں میں شمعیں اور موم بتیاں جلانے، اجتماعی دعاؤں اور مذہبی اجتماعات کا آغاز ہوا، جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک رسم بن گیا۔ پھر جیسے جیسے یہ تہوار مختلف علاقوں میں پھیلا، اس میں مقامی ثقافتیں شامل ہوتی چلی گئیں۔ جرمنی اور یورپ کے دیگر حصوں میں کرسمس کے موقع پر درخت کو مقدس علامت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، جو بعد میں کرسمس ٹری کہلایا۔ اس درخت کو سجانا، اس پر چراغاں کرنا اور تحائف رکھنا دراصل قدیم یورپی رسوم کا تسلسل تھا، جس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت مریم علیہا السلام کی تعلیمات سے کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں۔

اسی طرح کرسمس کارڈز، تحائف، خصوصی کھانے، موسیقی اور تقریبات کا رواج رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا، حتیٰ کہ جدید دور میں یہ تہوار ایک مکمل تجارتی ایونٹ بن چکا ہے۔ بڑی کمپنیاں، مارکیٹس اور میڈیا اس دن کو معاشی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی مذہبی حیثیت ثانوی بلکہ بعض اوقات محض علامتی رہ گئی ہے۔

بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ اس تہوار میں وہ عناصر بھی شامل ہو گئے جو نہ صرف عیسائی مذہب بلکہ عمومی اخلاقیات کے بھی منافی ہیں، جیسے بے جا اختلاط، شراب نوشی، فحاشی، اور اخلاقی بے راہ روی۔ کئی مغربی ممالک میں کرسمس اور اس کے بعد کے دنوں میں تشدد، گھریلو جھگڑوں، حادثات اور جرائم میں اضافے کے سرکاری اعداد و شمار بھی سامنے آتے رہتے ہیں، جو اس تہوار کے بگاڑ کی واضح علامت ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خود عیسائیوں کا ایک طبقہ بھی کرسمس کی موجودہ صورت سے مطمئن نہیں اور اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات کے خلاف سمجھتا ہے۔ وہ اسے مذہب سے زیادہ ثقافتی اور تجارتی تہوار قرار دیتا ہے۔

ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید میں ایسے تہواروں میں شریک ہوں، جن کی نہ تو اسلامی تعلیمات اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی ان کی مذہبی بنیادیں واضح اور مستند ہیں۔ اسلام ہمیں ہر قوم کے ساتھ حسنِ سلوک، عدل اور احترام کا درس دیتا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتا ہے کہ مذہبی رسوم و شعائر میں مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں۔

مسلمانوں کے لیے کرسمس ڈے منانا، اس کی تقریبات میں شریک ہونا یا اس موقع پر خصوصی مبارک باد دینا، اسلامی تہذیب اور دینی غیرت کے خلاف ہے، خصوصاً جب یہ تہوار خود اپنے مذہبی اصولوں سے ہٹ کر عیاشی اور تجارتی مفاد کا ذریعہ بن چکا ہو۔ یہی بات نیو ایئر جیسی رسومات پر بھی صادق آتی ہے، بلکہ بعض اہلِ علم کے نزدیک کرسمس میں شرکت اس سے بھی زیادہ قابلِ اعتراض ہے کیونکہ یہ ایک مخصوص مذہبی پس منظر رکھتا ہے۔

اسی تناظر میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ مسلم حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری عہدے داروں کا کرسمس کے موقع پر سرکاری طور پر مبارک باد دینا کس حد تک درست ہے؟ اگر کرسمس عیسائی مذہب میں بھی متنازع اور مشکوک حیثیت رکھتا ہے، تو پھر مسلمانوں کی جانب سے اس کی تائید یا تشہیر کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے عیسائی مذہب کا جائز تہوار مان بھی لیا جائے، تب بھی مسلمانوں پر اس کی مبارک باد دینا یا اس میں شرکت کرنا کوئی دینی تقاضا نہیں۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی دینی شناخت، فکری خودداری اور تہذیبی وقار کو پہچانیں، دوسروں کے عقائد کا احترام ضرور کریں، مگر اپنی مذہبی حدود کو پامال کیے بغیر۔ یہی اعتدال، یہی بصیرت اور یہی اسلامی طرزِ فکر ہے۔

کرسمس ڈے کی شرعی حیثیت

علماء نے واضح فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تعظیم کے مقصد سے کرسمس کی مبارکبادی دیتا ہے یا اس کے پروگرام میں شریک ہوتا ہے تو یہ کفر کے زمرے میں آتا ہے اور ایمان ضائع ہو جاتا ہے، جیسا کہ فتاویٰ تار تارخانیہ میں بیان ہوا: "حکی عن ابی حفص الکبیر لو ان رجلا عبد اللہ خمسین سنۃ ثم جاء یوم النیروز فاہدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید بہ تعظیم ذلک الیوم فقد کفر باللہ واحبط عملہ" (احکام المرتدین، جلد ۵، صفحہ ۳۵۴)، اور اگر تعظیم کے بغیر بھی دیا جائے تو یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں مشرکین کے ساتھ تشبہ اور باطل عقائد کی بالواسطہ تائید شامل ہے۔ فقہاء نے مداراة اور مداهنة میں فرق واضح کیا ہے، مداراة وہ ہے جو نرمی اور حکمت سے دین کے مقصد کے لیے ہو، جبکہ مداهنة دین کو چھوڑ کر دنیا کے لیے ہو، اور کرسمس کی مبارکبادی دینا مداهنة کے زمرے میں آتا ہے (عمدة القاری، 22/171؛ فتح الباری، 10/454)۔ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک، عدل اور بھلائی کر سکتے ہیں، تحائف دے سکتے ہیں اور دین کی طرف مائل کر سکتے ہیں، لیکن ان کے مذہبی تہواروں میں شریک ہونا یا مبارکبادی دینا جائز نہیں، کیونکہ یہ دین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کریں، کفار کے مذہبی شعائر سے اجتناب کریں، اور حکمت، نرمی اور حسنِ اخلاق کے ساتھ اسلام کی دعوت دیں، بغیر اپنے دین کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیے، تاکہ ایمان محفوظ رہے، دین کی حرمت قائم رہے اور وہ اللہ کی رضا کے قریب رہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دنیوی تعلقات اور بھلائی کے لیے کسی غیر مسلم کے ساتھ تعلق رکھنا جائز ہے، لیکن دین کو نقصان پہنچانے والا عمل ہرگز درست نہیں۔ یوں کرسمس کی مبارکبادی دینا نہ صرف ناجائز اور حرام ہے بلکہ ایمان اور اعمال کے لیے نقصان دہ بھی ہے، اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہر حالت میں توحید کی حفاظت کریں اور مشرکانہ عقائد کی تعظیم سے دور رہیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter