یحییٰ سنوار … اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی!

فلسطین میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے مقابل تحریک مزاحمت حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار بھی شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو گئے۔ یوں تو حماس نے اپنے قیام کے اول روز ہی سے قربانیوں اور شہادتوں کی ایک بے مثال داستان رقم کی ہے جس کا آغاز حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین کی شہادت سے ہوتا ہے، وہ جسمانی طور پر معذور ہونے کے باعث وھیل چیئر پر بیٹھ کر حماس کی قیادت اور رہنمائی کرتے تھے اور اسرائیل نے ان کی اس وھیل چیئر پر میزائل داغ کر انہیں شہید کیا تھا ان کے بعد حماس کے شہادت کا مرتبہ پانے والے قائدین اور کارکنوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔تاہم صرف چند ماہ میں اسرائیل کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہونے والے یحییٰ سنوار تیسرے ممتاز رہنما ہیں جنہوں نے شہادت کا مرتبہ پایا قبل ازیں حماس کے سیاسی امور کے نگران اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت تہران میں اس وقت شہید کر دیا تھا جب وہ ایران کے موجودہ صدر کے انتخاب کے بعد تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے وہاں گئے تھے، پھر ابھی چند ہفتے قبل لبنان میں کام کرنے والی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کر کے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور اب حماس کے چند ماہ قبل اسماعیل ہنیہ کی جگہ منتخب کئے گئے سربراہ یحییٰ سنوار کو بھی شہید کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے جمعرات کے روز ان کو شہید کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حماس کے سربراہ کو رفح میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک کارروائی کے دوران شہید کیا ۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے یحییٰ سنوار کو سات اکتوبر 2023ء کے اسرائیل پر حملے کا منصوبہ ساز بھی قرار دیا اور کہا کہ یحییٰ سنوار کا قتل اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے ایک اہم فوجی فتح ہے جس سے یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار ہو گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حماس سربراہ یحییٰ سنوار کو ہٹلر کے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کے بعد اپنے لوگوں یعنی صیہونیوں کے بدترین قتل عام میں ملوث فرد قرار دیا اور کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے حساب چکا دیا مگر ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا کیونکہ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو وطن واپس لانے تک یہ جنگ جاری رکھے گا…!

غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے بعد سے حماس کے شہید سربراہ یحییٰ سنوار اسرائیل کو مطلوب ترین افراد میں سے ایک تھے۔ جنہیں اسرائیل نے مارنے کا عزم کر رکھا تھا۔ غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل انہیں تلاش کرنے کی کوششیں کرتا رہا ۔ غزہ پر حملہ آور اسرائیلی فوج ڈرونز، حساس جاسوسی آلات اور انسانی انٹیلی جنس کی مدد سے سنوار کو تلاش کرتی رہی لیکن اب تک ان کا سراغ نہیں مل سکا تھا۔ ممکنہ طور پر وہ غزہ کی زیر زمین سرنگوں میں کہیں روپوش تھے۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں یحییٰ سنوار کا نام سب سے زیادہ منظر عام پر آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ تبادلہ انہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ یحییٰ سنوار برسوں سے غزہ کی پٹی میں حماس کے سرکردہ رہنما رہے، وہ حماس کے عسکری ونگ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ سنوار کو رواں سال جولائی میں حماس کے سابق سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے ایران میں قتل کے بعد حماس کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ 61 سالہ یحییٰ سنوار غزہ کے علاقے خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 1987ء میں وجود میں آنے والی حماس کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے جنہوں نے بعد ازاں گروپ کے سیکیورٹی ونگ کی قیادت کی۔ اسرائیل نے انہیں 1980ء کی دہائی کے آخر میں گرفتار کیا۔ انہوں نے 12 مشتبہ ساتھیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اسرائیل نے انہیں دو اسرائیلی فوجیوں کے قتل سمیت متعدد جرائم پر چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی۔ 2008ء میں اسرائیلی ڈاکٹروں نے یحییٰ سنوار کا علاج کیا اور وہ دماغی کینسر سے سروائیو کر گئے۔ بعد ازاں 2011ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے انہیں جیل سے رہا کر دیا۔ یحییٰ سنوار قیدیوں کے اس تبادلے کا حصہ تھے جو اسرائیلی فوجی گیلا وشالیت کے بدلے کیا گیا تھا۔ حماس نے سرحد پار ایک کارروائی میں گیلا وشالیت کو پکڑا تھا۔ غزہ واپسی کے بعد یحییٰ سنوار نے حماس کی قیادت میں تیزی سے شہرت حاصل کی۔ انہیں 2015 ء میں امریکی محکمہ خارجہ نے عالمی دہشت گرد قرار دیا۔ عالمی استعمار اور اس کے آلہ کار اسرائیل کے ظلم و ستم کے سامنے مزاحمت کے تین بڑے ستونوں کا گر جانا اگرچہ غزہ ہی نہیں دنیا بھر میں حریت فکر و عمل کے علم برداروں کے لیے ایک عظیم صدمہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کے بعد یحییٰ سنوار کی شہادت سے صیہونی ستم گروں کے حوصلے یقینا پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں جس کا اندازہ اسرائیلی وزیر اعظم، ان کی کابینہ کے ارکان اور اسرائیل کے عالمی سرپرستوں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے قائدین کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حماس قیادت جس نے پہلے یحییٰ سنوار کی شہادت پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی، اب اس کی طرف سے بھی اپنے رہنما کی شہادت کی تصدیق کر دی گئی ہے تاہم حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ اس قدر قربانیوں، تکالیف اور آزمائشوں کے باوجود حماس کی قیادت میں کسی بھی مرحلہ پر مایوسی، دل شکستگی اور کم حوصلگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یحییٰ سنوار کی شہادت کے اس نازک مرحلہ پر بھی حماس کی طرف سے جو اعلان سامنے آیا ہے اس میں ظالم و جابر صیہونی ریاست اسرائیل کی مزاحمت اور اس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار اور دیگر شہید رہنماؤں کی قربانیوں کو نوجوان فلسطینی نسل کے لیے مثال اور مشعل راہ بتایا گیا ہے جو یہ سمجھ چکی ہے کہ ؎


یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ، آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا


غزہ کے مسلمانوں نے، نہتے، مجبور اور محصور ہونے کے باوجود جرأت و بہادری، استقامت اور عزیمت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ یقینا سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ اسرائیل خطے میں پاگل بھینسے کی طرح ڈکارتا پھر رہا ہے، غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پینتالیس ہزار فلسطینیوں کی بے گور و کفن لاشوں کے جنازے پڑھائے جا چکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، اسکول، خیمہ بستیاں، مساجد، گرجے، ہسپتال اور امدادی کیمپوں سمیت کچھ بھی صیہونی ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ۔فلسطینی مسلمانوں کی استقامت اور جرأت و بہادری اپنی جگہ مگر اس سارے منظر نامے میں مسلمان حکمرانوں کا کردار انتہائی شرمناک اور امت کے لیے باعث عار ہے جو اپنے فلسطینی بھائیوں پر یہ سارا ظلم ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں جب کہ اس کے برعکس عالم کفر اسرائیل کی پشت پناہی پر یکسو اور متحد ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 2023ء سے اب تک صرف امریکہ اسرائیل کو سترہ ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ، گولہ بارود اور فوجی سازو سامان فراہم کر چکا ہے۔سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کی مکمل سرپرستی پوری ڈھٹائی سے جاری ہے اور اس کے ننگے جنگی جرائم کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مسلمان حکمران بھی خواب خرگوش سے بیدار ہوں اور ہوش کے ناخن لیں۔ ورنہ اگر موجودہ طرز عمل جاری رہا تو ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں!!!

(منقول اداریہ، روزنامہ جسارت)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter