اپنے قیمتی ووٹوں کو تقسیم ہونے نہ دیں!

جمہوریت کے تحفظ اور ملک کی سالمیت کے لیے جس طرح دستور اور آئین ضروری ہے کچھ یوں ہی ووٹنگ کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔ اسی چناؤ کے ذریعے ظالم وجابر حکمرانوں کو حکومت سے سبکدوش کیا جاتا ہے۔ اگر یہ ووٹنگ نہ ہو تو ملک میں جارحیت اور تاناشاہی کا دور دوراں رہے گا۔ جس کی ایک جھلک ہم ہمارے   ملک میں دس سے دیکھ رہے ہیں۔ دس سال میں ہم نے بہت کچھ برداشت کیا۔ جہاں قانون کی بالادستی ہونی چاہیے وہاں فرقہ پرستی کا قہر برس رہی ہے۔ کتنے معصوم وبے گناہ نوجوان کو گئو رکشا کے نام پر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔ کتنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کسی ایک فرقہ کی خوشنودی کے خاطر کتنی عبادت گاہیں مسمار کردی گئیں۔ سادہ لوح ہندو عوام کے ذہن میں ہندوتوا کا زہر بھردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں آئے دن دنگے  فسادات ہونے لگے۔ دس سال میں ترقی تو ہوئی نہیں لیکن ہندوتوائی فکر اور زعفرانی سوچ کو پنپنے کا خوب موقع ملا۔ سیاست ایک صاف ستھری چیز کا نام ہے جو خدمت خلق سے عبارت ہے۔ اسی کو کچھ بدنام سیاست دان جھوٹ، دھوکہ دہی، مکاری، لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنادیا۔ اچھے دن کے انتظار میں برے دن دیکھنے پڑے۔ کالا دھن باہر آئے گا، باہر آئے گا کہہ کر غریب عوام کو غربت وافلاس کے اتھاہ گہرائیوں میں ڈھکیل دیا گیا، چھوٹے چھوٹے تاجروں کو جی یس ٹی کے ذریعے ختم کرکے انہیں تجارت سے بے دخل کردیا گیا۔ غریب ولاچار کسانوں پر ٹیکس کے نام پر لاکھوں روپے کا بھاری بھرکم بوجھ لادا گیا۔ اتنا ہی نہیں ان کسانوں کے پریوار کو بے گھر کردیا گیا۔ کتنے معصوم وبے گناہ کسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بے دردی سے پراشاسن کا غلط استعمال کرکے قتلِ عام کیا گیا۔

یکساں سیول کوڈ اور رام مندر کے نام پر ہندو عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ مندر اور سیاست کا کوئی رشتہ نہیں لیکن اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کے خاطر اقلیتی طبقوں کے حقوق کی پامالی کی گئی۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب برسرِ اقتدار پارٹی پر ہم الزام تراشی کررہے ہیں۔ بلکہ یہ سینہ کا وہ درد ہے جس پر آج تک مرہم نہیں لگایا گیا۔کیا خوب کہا علامہ اقبال نے

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

جو کچھ بیان کیا گیا وہ سب مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ اگر دس سال کی درد بھری داستان سنانے پر آئیں تو آپ کے آنکھوں میں آنسو نہیں خون جاری ہوگا۔ کتنا ہم نے برداشت کیا وہ کم نہیں ہے۔ مزید برداشت کرنے کی طاقت وسکت بھی نہیں۔ اس لیے اس الیکشن کو غنیمت سمجھیں۔ خدا کی طرف سے ملی عظیم نعمت سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال کریں۔ ووٹ کے صحیح استعمال کے متعلق مشہور ادیب وافسانہ نگار احمد کمال حشمی کا چھوٹا سا افسانہ بھی سن لیجئے جو ظریفانہ انداز میں لکھا ہے۔ پڑھ کر صرف ہنسئے مت غور و فکر بھی کیجئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھر کی صفائی کرتے ہوئے بیگم نے میرے ہاتھ میں ایک بہت پرانا چراغ تھماتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ یہ الہ دین کے زمانے کا چراغ گھر میں کیوں رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ پھینکئے اسے، میں نے کہا "شاید یہ الہ دین کا ہی چراغ ہو" یہ کہتے ہوئے میں نے چراغ کو رگڑا تو سچ مچ ایک جن نمودار ہوگیا۔ کیا حکم ہے میرے آقا اس نے کہا۔ "میرے ملک کا حکمران بہت ظالم ہے۔ اسے تخت سے ہٹا دو" میں نے حکم دیا۔ سوری میرے آقا۔ اتنا معمولی کام میرے شایانِ شان نہیں۔ یہ کام آپ خود کرسکتے ہیں۔ کیسے؟؟ سوچ سمجھ کر ووٹ دیا کریں۔ جن نے کہا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

اس افسانچہ سے آپ خوب محظوظ ہوئے ہونگے۔ محظوظ ہونا بھی چاہیے کیونکہ بات ظریفانہ انداز میں پیش کی گئی ہے۔ مگر حقیقت ہے کیونکہ ووٹ کے ذریعے ہی جابر حکمران کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ ورنہ پہلے کی طرح غفلت میں گزار دئیے تو زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔ اگر یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر اس بار نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ اس لیے حق رائے دہی کا صحیح استعمال کریں۔ ووٹ تقسیم ہونے سے بھی پرہیز کریں۔ قوم کی فلاح وبہبود پیش نظر رہیں۔ ایسے ہی امیدوار کو ووٹ دیں جو قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ان امیدواروں میں ایسے بھی لوگ رہتے ہیں جن کو ہار جیت سے کوئی سروکار نہیں رہتا انہیں صرف ووٹ کاٹنا مقصد رہتاہے۔پیسوں کے لئے اپنی نششت بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی ضمیر فروش سیاست دان قوم کو بیچ ڈالتے ہیں۔ نہ انہیں اپنی غیرت کی فکر رہتی ہے نہ قوم کی فلاح وبہبود۔ ایسے ضمیر فروش سے دور رہیں۔ انہیں اپنا قیمتی ووٹ نہ دیں۔ جن علاقوں میں ایک سے زائد مسلم امیدوار انتخاب لڑتے ہوں وہاں انہیں امیدوار کو ووٹ دیں جو قوم اور ملک کی فکر کرتے ہوں۔ ووٹ دینے میں رشتہ داری، یا اقربا نوازی نہ دیکھیں۔ ملک کی بہتری اور جمہوریت کے تحفظ کے پاسبانوں کو حکومت کی باگ ڈور سونپیں۔ تو ملک بھی سلامت اور عوام بھی نفرت سے نجات پائنگے ان شاء اللہ۔ ملت فروش اور فرقہ پرستوں سے بچیں اور ان کی بری نظروں سے ملک کی حفاظت کریں۔ آپ تمام لوگوں سے مخلصانہ ودرد مندانہ اپیل ہے کہ اس بار اپنے ووٹ کو ضائع نہ کریں۔ ایک ایک ووٹ کو بااثر سمجھیں، ووٹنگ کے وقت کہیں نہ جائیں۔ انتخابی بیداری مہم ہر محلے میں زور وشور کے ساتھ چلائیں۔ خدا  فرقہ پرستوں اور نفرت پھیلانے والوں سے ہمارے کی حفاظت فرمائے۔ جابر وظالم حکمرانوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter