ماہ شعبان المعظم:فضائل و معمولات

        ماہ شعبان المعظم بڑی برکتوں اور رحمتوں والا ہے بنی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: ماہ شعبان المعظم کو تمام مہینوں پر ایسی فوقیت حاصل ہے جیسے مجھے تمام انبیاء پر حاصل ہے- ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے- ( غنیتہ الطالبین اُردو/صفحہ/341) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں: حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے پیارا ماہ شعبان تھا اس لیے آپ اس ماہِ مبارک میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے- ماہ شعبان المعظم کی پندرھویں رات کو ،،شب برآت،، کہتے ہیں اس رات بندوں پر الله رب العزت کی لاتعداد رحمتیں نازل ہوتی ہیں- مختصر یہ کہ اس مبارک رات کا ہر لمحہ اپنے اندر کروڑوں انوار و برکات رکھتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ اگر ماہ شعبان المعظم کی اہمیت اور فضیلت کی اور کوئی وجہ نہ ہوتی تو صرف یہ رات ہی اس کے فضائل اور خوبیوں کے لیے کافی تھی- یہ رات مسلمانوں کے لیے الله رب العزت نے ایک انعام کے طور پر دی ہے- پہلے کسی قوم کو یہ رات نصیب نہیں ہوئی- پوری امتِ محمدی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم قیامت تک شکریہ کے طور پر سجدہ ریز ہو تب بھی الله رب العزت کے اس احسان کا حق ادا نہیں ہوسکتا- مگر بعض جگہ لوگ اس مقدس رات میں عبادت وریاضت تسبیح و تہلیل میں مشغول ہونے کے بجائے آتش بازی اور غیر اسلامی حرکتوں میں مصروف نظر آتے ہیں- 

     ماہ شعبان المعظم کے فضائل :
   شعبان ،،شعب،، سے مشتق ہے جس کے معنیٰ ہیں گھاٹی وغیرہ- کیونکہ اس ماہِ مبارک میں خیر وبرکت کا عمومی نزول ہوتا ہے اس لیے اسے شعبان کہا جاتا ہے- جس طرح کھاٹی پہاڑ کا راستہ ہوتا ہے اسی طرح یہ مقدس مہینہ خیر وبرکت کی راہ ہوتی ہے- 
    حضرتِ ابو امامہ باہلی رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: جب ماہ شعبان المعظم آئے تو اپنے جسموں کو پاکیزہ رکھو اور اس ماہِ مبارک میں اپنی نیتیں اچھی رکھو انہیں حسین بناؤ-            حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اس ماہِ مبارک کو بڑی عبادت وریاضت میں گزارتے تھے- حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: حضور سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم اس ماہ اکثر روزے رکھا کرتے تھے- (مشکوٰۃ شریف/صفحہ نمبر 178/میں ہے) 
      ،،قالت كان يصوم شعبان كله وكان يصوم شعبان قليلا،،
وہ فرماتیں ہیں: حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سارے شعبان کے روزے رکھتے سوائے تھوڑے دنوں کے- ،،ماثبت بالسنہ،، میں شیخ محقق شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: سرکارِ دوعالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان الله رب العزت کا مہینہ ہے-
 حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا محبوب مہینہ شعبان المعظم عظمت و برکات والا ہے ہم اس کو شعبان المعظم اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو بڑی برکت والی ہے جسے شب برآت کہا جاتا ہے اس کے بارے میں الله رب العزت کا ارشادِ مبارک ہے: ترجمہ: اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام- (پارہ 25/ رکوع/15)
      صاحبِ تفسیر روح البیان اس آیتِ مقدسہ کے تحت لکھتے ہیں: الله رب العزت اس رات میں روزی و رزق کا پروگرام حضرت میکائیل علیہ السلام کے سپرد فرما دیتا ہے اور اعمال و افعال کا پروگرام آسمان اول کے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے حوالے کر دیا جاتا ہے- مصائب و آلام کا پروگرام حضرت عزرائیل علیہ السلام کے سپرد کیا جاتا ہے-
                                  (روح البیان/جلد 3/صفحہ/ 598)
ایک اور روایت میں ہے: حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا! ماہ شعبان المعظم میں آپ کے روزہ رہنے کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ماہ شعبان سے شعبان تک مرنے والوں کی اجل لکھی جاتی ہے تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں روزے دار ہوں-  (الترغیب والترہیب/صفحہ/209)
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوا ،،شبِ برآت،، وہ رات ہے جس میں سارے سال میں واقع ہونے والے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم الله رب العزت کی بارگاہِ عالیہ سے بخشش حاصل کرنے کے لیے اس رات کو عبادت وریاضت میں، توبہ و استغفار میں گزاریں-
    شیخ محقق شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ اپنی کتاب مدارج النبوہ میں حدیث نقل فرماتے ہیں: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: حضورِ  اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے پندرہ شعبان کی رات کو قیام فرمایا پھر اس قدر دراز سجدہ فرمایا کہ میں یہ گمان کرنے لگی شاید آپ کی روح مبارک پرواز کر گئی ہے چنانچہ جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں آپ کے پاس پہنچی اور پائے اقدس کے انگوٹھا مبارک کو ہلایا تو حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے سر اقدس کو جنبش دی اور اپنے سر انور کو سجدہ سے اٹھایا پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے اے عائشہ! تم نے گمان کیا ہے کہ رسولِ خدا نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے؟ میں نے عرض کیا یارسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم یہ بات نہیں- بلکہ میں نے آپ کے سجدے کی درازی سے یہ گمان کیا کہ شاید آپ کی روح پرواز کر گئی ہے- اس پر حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نہیں جانتیں یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کیا خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے- فرمایا اے عائشہ! پندرہ شعبان المعظم کی رات ہے اس رات میں الله رب العزت اپنے بندوں پر خاص توجہ فرماتا ہے اور ایک روایت میں ہے: غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک مطلب یہ کہ اور راتوں سے زیادہ اس رات میں زیادہ توجہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے- طالبانِ رحمت پر اپنی رحمت فرماکر بخش دیتا ہے- ( مدارج النبوہ)
   سید الاولیاء سند الاصفیاء قطب الاقطاب غوث صمدانی حضرتِ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله تعالیٰ عنہ اپنی کتاب ،،غنیتہ الطالبین،، میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں-
    ترجمہ: یہ وہ رات ہے جس میں الله رب العزت تین سو رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جو مشرک نہ ہو اس رات میں بخش دیتا ہے مگر جادو گر، کاہن، ہمیشہ شراب پینے والا اور سود خور کو اس رات میں نہیں بخشتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے-
                                     (غنیتہ الطالبین/صفحہ/577) 
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا یہ رات بڑی عظمت والی رات ہے اسے عبادت وریاضت میں گذارنا چاہئے- اس رات قبرستان میں بھی حاضری دینی چاہئے اس لیے کہ یہ وہ پیاری رات ہے جس میں خداوند کریم اپنی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے- اب ان لوگوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے جو اس مقدس رات میں طلب بخشش کے بجائے ساری ساری رات آتش بازی کرکے الله رب العزت کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اور اس کے پیارے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو ناراض کرتے ہیں- آئیے ہم عہد کریں کہ ان افعال بد سے پرہیز کریں گے اسی طرح ان لوگوں کو بھی توبہ کرکے اس رات کے فیضانِ رحمت کو حاصل کرنا چاہئے جن کے بارے میں ہے کہ وہ اس رات عطائے خداوندی سے محروم رہتے ہیں یعنی مشرک، شرابی، سودخور-

          شبِ برآت کے فضائل و برکات :
       شب برات کے فضائل و برکات قرآن کریم سے ثابت ہیں محدثین اور مفسرین کی بھی رائے یہی ہے جس کے فضائل و برکات کا انکار گویا دن کے اُجالے میں سورج کے وجود سے انحراف ہے- الله رب العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے- ترجمہ: قسم اس روشن کتاب کی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام، ہمارے پاس کے حکم سے بیشک ہم بھیجنے والے ہیں تہمارے رب کی طرف سے رحمت بیشک وہی سنتا جانتا ہے-
     حضرتِ ابنِ عباس، قتادہ اور دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے: وہ رات لیلتہ القدر ہے- جیسا کہ سورہ قدر سے واضح ہے- لیکن حضرت عکرمہ اور ایک بڑی جماعت کا خیال یہ ہے کہ یہاں لیلتہ مبارکہ سے شعبان کی نصف شب یعنی پندرہویں کی رات مراد ہے- الله رب العزت نے شعبان المعظم کی نصف شب یعنی پندرہویں شب کو مبارک شب قرار دیا ہی ہے مگر اس رات کے علاوہ بھی اپنے بندوں کے لیے بہت سی چیزوں کو مبارک فرمایا ہے- الله رب العزت نے قرآنِ مجید کو مبارک فرمایا ہے یہ قرآنِ کریم ہی ہے کہ بندہ براہِ راست اپنے رب سے ہم کلامی کا شرف پاتا ہے تلاوتِ قرآن سے دلوں کو اطمینان میسر آتا ہے بڑے بڑے جابر و ظالم کو بھی اس کی شرینی اور حلاوت سے جبر و ظلم چھوڑنے پر مجبور ہوتا دیکھا گیاہے- وہ بڑا ہی بدنصیب اور گستاخ دل ہوگا جو اس کی شرینی کلام سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکا- راہ راست پر اپنے آپ کو گامزن نہ کرسکا دل محبت رسول میں مستغرق نہ ہوسکا-
     حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم سے مروی ہے: نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب پندرہویں شعبان کی رات ہو تو رات میں قیام کرو دن میں روزہ رکھو- اس حدیث پاک کی تشریح میں حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: بہتر یہ ہے ساری رات ہی جاگ کر عبادت کرے اور اگر نہ ہوسکے تو اول رات سوئے آخر رات میں تہجد پڑھے اور زیارت قبور کرے اور تین روزے رکھے تیرہویں، چودہویں، پندرہویں کہ ایک نفلی روزہ رکھنا بہتر نہیں-
    ( مراہ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد/2 صفحہ/ 295)
      مسلمانوں کو چاہیے وہ شعبان کی پندرہویں رات شب بیداری کریں الله تعالیٰ کے حضور سر بسجود رہیں، فرائض واجبات سے فارغ ہو کر نوافل کثرت سے پڑھیں، اپنے پیارے آقا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجیں، استغفار کریں، اپنے اور اپنے والدین اور تمام عالمِ اسلام کی فلاح و بہبود کی دعا کریں- حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں: ایک رات میں نے حضور کو اپنے بستر پر نہیں پایا تو میں حضور کی تلاش میں نکلی مین نے حضور کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور نے سر اٹھایا ہوا تھا مجھے دیکھ کر حضور نے فرمایا: الله تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اتنے ہی لوگوں کو بخش دیتا ہے- 

         چار راتوں میں خیر کے دروازے کھلے ہوتے ہیں:
 ابو نصر رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے بالاسناد ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت کی آپ نے فرمایا میں نے رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا: الله رب العزت چار راتوں میں خیر وبرکت کے دروازے صبح تک کھلا رکھتا ہے- شب عید الاضحی- شب عیدالفطر- شب نصف شعبان اس رات مخلوق کی عمر ان کی روزی اور حاجیوں کے نام لکھے جاتے ہیں- شب یوم عرفہ- حضرتِ سعید نے فرمایا: مجھ سے ابراہیم بن ابی بخیح نے فرمایا: وہ پانچ راتیں ہیں اور پانچویں رات شب جمعہ ہے- حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس نصف ماہ شعبان المعظم کی شب جبریل آئے اور فرمایا: یارسول الله! ( صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم) آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھائیے، میں نے ان سے دریافت کیا: یہ کون سی رات ہے؟ انھوں نے کہا یہ وہ رات ہے جس رات الله رب العزت رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کسی کو اپنا شریک نہیں ٹھہرایا بشرطیکہ وہ جادوگر نہ ہو، کاہن نہ ہو، اور سود خور نہ ہو، شراب کا عادی نہ ہو، ان لوگوں کی الله رب العزت اس وقت تک بخشش نہیں فرماتا جب تک وہ توبہ نہ کرلیں- پھر جب رات کا چوتھائی حصہ گذر گیا تو جبریل علیہ السلام پھر آئے اور کہا یارسول الله! ( صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم) اپنا سر مبارک اٹھائیے! آپ نے ایسا ہی کیا، آپ نے دیکھا کہ جنت کے دروازے کھلے ہیں اور پہلے دروازے پر ایک فرشتہ پکار رہا ہے خوشی ہو اس شخص کے لیے جس نے رات کو رکوع کیا، دوسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ ندا دے رہا ہے! خوشی ہو اس کے لیے جس نے اس رات میں سجدہ کیا! تیسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ ندا دے رہا تھا خوشی ہو اس کے لیے جس نے اس رات دعا کی، چوتھے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا خوشی ہو اس کے لیے جو الله رب العزت کے خوف سے اس رات میں رویا، چھٹے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا اس رات میں تمام مسلمانوں کے لیے خوشی ہو، ساتویں دروازے پر فرشتہ ندا دے رہا تھا کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ اس کی آرزو اور طلب پوری کی جائے؟ آٹھویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا کوئی معافی کا طلبگار ہے! اس کے گناہ معاف کئے جائیں، حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں نے کہا جبریل یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے؟ جبریل نے کہا  اول شب سے طلوع فجر تک- اس کے بعد جبریل نے کہا اے محمد! (صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم) اس رات میں دوزخ سے رہائی پانے والوں کی تعداد بنی کلاب کی بکریوں کے بالوں کے برابر ہوگی-   (غنیتہ الطالبین اُردو/صفحہ/344)

    وہ لوگ جو اس رات نہیں بخشے جاتے :
      * قاطع الرحم: اقارب سے صلح رحمی نہیں کرتا بلکہ بد سلوکی سے پیش آتا ہے * عاق:  یعنی ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا * شرابی: شراب میں بدمست رہتا ہے * زناکار: لعنت الہیٰ میں گرفتار ہے * مسبل: اترانے کے طور پر ٹخنوں سے نیچے پاجامہ وغیرہ لٹکائے پھرتا ہے * عشار: ظلما لوگوں سے محصول لیتا ہے * جادوگر: اس فعل شنیع میں مبتلاء رہتا ہے * نجومی و کاہن: غلط سلط لوگوں کو خبریں دیتا ہے * شرطی حکومت کا کارندہ: دوسروں پر ظلم رواں رکھتا ہے * جابی: زبردستی لوگوں کا مال حکومت تک پہنچاتا ہے * صاحبِ کوبہ: نرد و شطرنج میں وقت گنواتا ہے * صاحب عرطبہ: ڈھولک طنبورہ وغیرہ میں مشغول رہتا ہے- 
     اس مبارک رات کو شب بیدار رہنا  ذکر و نفل کا شغل رکھنا اپنے اور اپنے اہل و عیال و اعزاء و اقارب بلکہ جملہ اہل اسلام و ایمان کے لیے دعائے عفو و عافیت دارین کرنا، احیاء واموات مسلمین کو فائدہ و ثواب پہنچانا وغیرہ یہ وہ باتیں ہیں جو اس مبارک رات میں شریعتِ مطہرہ کو مطلوب ہیں- لیکن افسوس! آج کی مبارک رات ہمارے مسلمان بھائی خواب غفلت میں گزار دیتے ہیں- کچھ وہ ہیں جو آج کی رات بھی تاش، سنیما، تھیٹر وغیرہ تماشوں میں بسر کرتے ہیں- اور ذرا نہیں شرماتے اور ان سے بڑھ کر گناہ پر جرآت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو آج کی رات خود اپنے ہاتھوں اپنی دولت میں آگ لگاتے اور گھر پھونک کر تماشہ دیکھتے ہیں- آتش بازی کے نام پر لاکھوں روپئے آگ کی نذر ہو جاتا ہے- کہیں بدن جھلستے ہیں- کہیں جانیں جاتی ہیں- غرض یہ کہ آتش بازی جس طرح شب برات یا شادی وغیرہ میں رائج ہے، بے شک حرام ہے کہ اس میں مال کا ضائع کرنا ہے- قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا گیا ہے-
       مسلمانو! الله رب العزت کا یہ بے پایاں کرم نہیں تو پھر کیا ہے کہ اس نے تمہیں میں سے برگزیدہ رسول مبعوث فرمایا نیز اسلام، دولتِ ایمان، عقل و فراست، صحت و تندرستی عطا فرمائی- یوں تو اپنے بندوں کو ہر لمحہ ہر آن روزی دیتا ہے، خبر رکھتا ہے، توبہ قبول فرماتا ہے، مگر غافل بندوں کو بھی کچھ مخصوص لیل ونہار عطا فرمائے کہ اے میرے گنہگار بندو! یہ لیلتہ القدر ہے مانگو دیا جائے گا، یہ شب برات ہے توبہ کرنے کی رات ہے توبہ تو کرلو قبول کی جائے گی، دست سوال دراز تو کرو دامنِ مراد کو بھر دیا جائے گا اپنے اور عالم اسلام کے مرحومین و مرحومات اور مومنین و مومنات کے لیے بخشش کی دعا تو کرو، انہیں بخش دیا جائے گا بیمار ہوتو شفا دی جائے گی، تنگ دستی دور کر دی جائے گی قرض کی ادائیگی کے لیے راہیں نکل آئیں گی- 
      مگر واہ رے شومئی قسمت! فرشتے الله رب العزت کی جانب سے تو ہمیں اس کی رحمت کی طرف بلا رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ خواب غفلت میں شب وروز گزار دیتے ہیں- ہمیں اپنا وقت ذکر و اذکار، یاد نبی، حکم نبی میں گزارنا چاہئے امر باالمعروف والنھی عن المنکر کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے مگر وہ رے مسلمان! ہم تو شیطان کے دام فریب کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں ہمارے ایسے ایام و لیال بھی خواب غفلت، تاش، سنیما، ناچ گانے، آتش بازی، چغل خوری، لوٹ کھسوٹ کی نظر ہوکر رہ جاتی ہے اور ذرا بھی شرم نہیں آتی-

    شبِ برآت کی نفل نمازیں: 
سو- رکعت نفل نماز دو دو رکعت کی نیت سے ادا کریں- یوں کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورہ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھیں اور بعد سلام دعا کریں- 
دس رکعت نماز دو دو رکعت کی نیت سے ادا کریں اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورہ اخلاص سو مرتبہ پڑھیں-
احیاء العلوم میں ہے کہ یہ نمازیں منجملہ ان نمازوں کے ہیں جو سلف صالحین ہمیشہ پڑھتے آئے- یہ نماز ان میں صلوہ الخیر سے موسوم ہے اور حضرتِ حسن بصری رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص یہ مذکورہ بالا نماز شب برآت میں ادا کرتا ہے تو الله رب العزت اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے اور ہر مرتبہ اس کی ستر حاجتیں روا کرتا ہے ان میں سب سے کم یہ ہے کہ اس کی مغفرت ہو جاتی ہے-
نزہتہ المجالس میں بحوالہ کتاب البرکتہ یہ حدیث منقول ہے: حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب میں بارہ رکعت نماز ادا کرے اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے الله رب العزت اس کے گناہ معاف فرمائے اور اس کی عمر میں برکت دے-
بعض مشائخ سے منقول ہے: جو شخص ماہ شعبان المعظم میں آٹھ رکعت نماز ایک ہی سلام سے ادا کرے اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورہ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے پھر ان رکعتوں کا ثواب حضرت سیدہ النساء فاطمتہ الزہرہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی روح پر فتوح کو نذر کرے اس کے حق میں سیدہ خاتونِ جنت ارشاد فرماتی ہیں: میں جنت میں ہرگز قدم نہ رکھو گی جب تک اس کی شفاعت نہ کر لوں گی- (اعمالِ رضا) 

              * کریم گنج_پورن پور_پیلی بھیت
                 iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter