رمضان میں صدقہ خیرات و زکوة
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور نیکیوں کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ کا چاند نظر آتے ہی شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں ۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔اور جنت کے باب کھول دیے جاتے ہیں ۔ رب کی رحمت جوش میں ہوتی ہے ۔ ہر طرف نور و نکہت کی بارش شروع ہو جاتی ہے ۔ لوگوں میں ذوق عبادت عود کر آتا ہے ۔ خوشیوں کا سماں چھا جاتا ہے ۔ دنیا کا گوشہ گوشہ روشنیوں سے جگمگا اُٹھتا ہے ۔ مساجد آباد ہو جاتی ہیں ۔ تلاوت قرآن کے نغمات گونجنے لگتے ہیں ۔ عورتیں نت نئے پکوان کا اہتمام کرتی ہیں ۔ بچوں کی خوشیاں دو بالا ہوجاتی ہیں ۔ ساتھ ہی اس ماہ مبارک میں صدقہ و خیرات کی بھی کثرت ہو جاتی ہے ۔ اس مقدس مہینے میں اہل ایمان دل کھول کر فقرا و مساکین کی مدد کرتے ہیں ۔ دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کی سخاوت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
اسلام میں صدقہ و خیرات کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ۔ کتابوں میں اس کے بے شمار فضائل مذکور ہیں ۔ صدقہ آفت و مصیبت کو ٹالتا ہے ۔ صدقہ خدا کے غضب کو دور کرتا ہے ۔صدقہ بیماروں کے لیے شفا ہے ۔ صدقہ تنگدستی کو ختم کرتا ہے ۔ صدقہ دینے سے مال و دولت میں برکت ہوتی ہے ۔ صدقہ سے عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ صدقہ دینے والے کے لیے فرشتے دعا کرتے ہیں ۔ صدقہ موت کی سختی کو کم کرتا ہے ۔ صدقہ قلب کو منور کرتا ہے ۔ صدقہ دل کی بے چینی کو کم کرتا ہے ۔ دلی سکون فراہم کرتا ہے ۔ صدقہ دل کو صاف و شفاف کرتا ہے ۔ صدقہ آپس میں محبت پیدا کرتا ہے ۔ صدقہ بھائی چارہ کا سبب بنتا ہے ۔ ایک دوسرے کو قریب کرتا ہے ۔صدقہ زود اثر ہوتا ہے ۔ صدقہ دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے ۔ صدقہ وخیرات سے جہاں دینی فائدے ہیں وہیں دنیاوی معاملات میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
معاشی مدد : ہمارے ارد گرد بے شمار ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں ۔ مہنگائی نے جن کی کمر توڑ رکھی ہے ۔ اس پر رمضان کی آمد ان کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے ۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو جاتے ہیں کہ رمضان کیسے گزرے گا؟ بچوں اور گھر والوں کے لئے نئے کپڑے کہاں سے لائیں گے؟ انواع و اقسام کے کھانے کا اہتمام کیسے کیا جائے؟ صدقہ و خیرات سے ان کے ارمان پورے کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم بر وقت ان کی مدد کریں تو یہ نعمتوں والا ماہ مبارک ان پر آسان گزرے ۔ وقتی طور پر وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر ہنسی خوشی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رمضان بتائیں گے۔ کسی بندے کی مدد کرنا اللہ تعالی کو بہت محبوب ہے ۔
جرائم کی روک تھام : آپ سوچ رہے ہیں کہ صدقہ کا جرائم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جی بالکل تعلق ہے ۔ مال کی کمی سے معاشرے میں جرائم کی کثرت ہونے لگتی ہے ۔ نئی نئی برائیاں جنم لینے لگتی ہیں ۔ شرپسندی بڑھنے لگتی ہے ۔ غربت ذہنی بیمار بنا دیتی ہے ۔ غریب دوسرے کو دیکھ کر کڑھنے لگتا ہے ۔ قدم غلط کام کی طرف اٹھنے لگتے ہیں ۔ بعض لوگ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔ صدقہ اور خیرات ان تمام مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ صدقہ اور خیرات سے ان کی روک تھام کی جاسکتی ہے ۔ ان کی مالی مدد نیز ان کی ذہن سازی کر کے انہیں کسی اچھے کاروبار سے جوڑا جا سکتا ہے ۔
تعلیمی مدد : صدقہ وخیرات سے تعلیمی مدد بھی کی جاتی ہے ۔ بہت سے لوگ یہ کار خیر انجام بھی دیتے ہیں ۔ ہمارے اطراف کوئی طالب علم یا کوئی گھر تعلیم کے خرچ کو لے کر پریشان ہے، اسکول کی فیس نہیں بھر پا رہا ہے یا کسی اور طرح کی پیچیدگی کا سامنا کر رہا ہے تو صدقہ اور خیرات سے ان کی تکلیف دور کی جا سکتی ہے ۔ ان کی تعلیمی ضرورت پوری کرنے میں دگنا ثواب ہے ۔
سفید پوش کی مدد : ہمارے آس پاس بہت سے سفید پوش لوگ رہتے ہیں ۔ یہ افراد ضرورت ہونے کے باوجود کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے ۔ مالی حالت ان کی کمر توڑ رہی ہوتی ہے مگر شرم دامن گیر ہو جاتی ہے ۔ یہ متوسط طبقہ کسمپرسی کی زندگی گزارنا گوارا کر لیتا ہے مگر کسی کے سامنے اپنی خستہ حالی کی روداد بیان نہیں کرتا ۔ انہیں مالی امداد کی حاجت ہوتی ہے لیکن ان سے اظہار نہیں ہوپاتا ہے ۔ایسے سفید پوش لوگوں کی بھی صدقہ اور خیرات سے مدد کی جا سکتی ہے ۔
زکوة کی ادائیگی : زکوة ہر مسلم عاقل بالغ مرد و عورت مالک نصاب پر فرض ہے ۔ لوگوں میں یہ غلط رواج عام ہے کہ زکوة صرف رمضان المبارک کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ زکوة ادا کرنے کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ ہونے کی کوئی قید نہیں ہے ۔ زکوة کا نصاب ہونے کے بعد اس مال پر ایک سال کا گزرنا شرط ہے ۔ اب وہ مہینہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ مثلاً زید ماہ رجب میں نصاب کا مالک ہوگیا اور آئندہ رجب تک اس کے پاس وہ مال رہا تو زید پر رجب میں زکوة نکالنا ضروری ہے ۔ تاخیر کرنے پر گنہگار ہوگا ۔
زکوة کی ادائیگی میں قدرے توجہ دی جانی چاہئے ۔ صحیح حقدار کی پہچان کے بعد زکوة ادا کی جائے ۔ دینے سے قبل زکوة لینے والے کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ یہ بہت اہم ترین فریضہ ہے ۔ اس سے سماج میں بدلاؤ آتا ہے ۔ یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہے کہ اپنے رشتہ داروں میں کوئی زکوة کا مستحق تو نہیں اگر ہے تو وہ زیادہ حقدار ہے پہلے اسے دیا جائے ۔ زکوة کی ادائیگی میں دکھاوا نہ کیا جائے ۔ بعض لوگ قطار لگا کر باقاعدہ تصویر کشی کے ساتھ لوگوں کو زکوة کی رقم دیتے ہیں اس سے زکوة لینے والوں کی دل شکنی ہوتی ہے ۔ نیز ثواب میں بھی کمی ہو جاتی ہے ۔ ریا کاری سے بچا جائے ۔ کیونکہ یہ رب کو پسند نہیں ہے۔