تعلیمات مشائخ ، ہم اور ہمارے علما
اللہ تعالیٰ نےکم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیا ومرسلین کو دنیا میں بھیجا۔ اُنھیں مختلف علوم اورمختلف زبانوں کاعالم بنایا۔ پھر اُنھیں انسانوں کی رشد وہدایت پرمامور کیا، اور اس بات کی تاکید بھی کی کہ دعوت وتبلیغ کے وقت مخاطب کی زبان اور بولی کا بہرحال لحاظ رکھاجائے۔ورنہ کیا وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نےاپنےرسولوں اور نبیوں پر مختلف زبانوں میں آسمانی کتابیں اور صحیفے (توریت، زبور، انجیل) نازل فرمائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:ہم نے ہر رسول کو اُسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے سامنے ہماری نشانیوں کو بیان کرے۔(ابراہیم:۴)ارشاد نبوی ہے:ہم انبیاکی جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو کریں۔ (مسندالفردوس،حدیث:۱۶۱۱)
اس قرآنی آیت اور حدیث پاک سے دوباتیں بطورخاص سمجھ میں آتی ہیں: ایک یہ کہ مخاطب کے علم کے مطابق گفتگو ہو، یعنی تعلیم یافتہ ہے تواُس کےعلمی تجربات کےمطابق، اورغیرتعلیم یافتہ ہے تو اُس کے ذاتی اعمال وتجربات کے مطابق گفتگو ہو۔ دوسرا یہ کہ مخاطب کی زبان اوربولی کے مطابق گفتگو ہو،یعنی مخاطب جس زبان اور بولی کواَچھی جانتااور سمجھتاہےاُسی زبان اور بولی کے پردے میں گفتگوہو۔
چوںکہ یہی طریقہ تمام انبیاومرسلین نے اپنایاتھا اور اُن کے بعدیہی طریقہ مشائخ کرام بھی اپناتے رہےہیں۔ لہٰذا یہی طریقہ بہرحال ہمیں اورآپ کو بھی اپنانا ہوگا۔ اگر ہم میں سےکوئی اس کے خلاف جاتاہے تو گویا وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں مخلص نہیں۔ پھریہاں یہ بات بھی ذہن میں محفوظ کرلینے کی ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنانے کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے دلوں میں خالق اورمخلوق دونوں کے ساتھ حسن معاملہ کااعلیٰ جذبہ موجودہو، اور ہمارے اندراحساس ذمہ داری بھی ہمیشہ برقرار رہے۔ ورنہ انبیا ومرسلین اور مشائخ کرام کی سنتوں پر عمل کرنے کے بعد بھی ہمارے اعمال میں وہ تاثیرنہ ہوگی اورنہ ہی وہ نتیجہ نکلےگا جوانبیائی عمل اور مشائخ کی کوششوں کا ثمرہ ہواکرتاہے۔
جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے نبیوں کو زمانے کے لحاظ سے معجزات عطا فرمائے اور جس طرح اولیائے کرام کو زمانے کے لحاظ سے کرامات دیے جاتےہیں۔ اسی طرح بالعموم مسلمانوں اوربالخصوص تمام دینی ذمہ داروں کو چاہیے کہ اپنے زمانے اور حالات کے مطابق مخاطب ومدعوسے روبروہوں تاکہ ہمارےکردارواعمال کے نتیجہ خیز اثرات ظاہر ہوں۔
مثال کے طورپراگرہمارامخاطب تعلیم یافتہ طبقہ ہے تو علمی لب ولہجےمیں اس سےگفتگو کی جائے۔اگرمخاطب نئے خیالات کا دلدادہ ہے تواُس سے نئےایجادات کے پس منظر میں گفتگو کی جائے۔اگرمخاطب دنیادار ہے تواُس سے دنیاداری کےپردے میں گفتگو کی جائے۔ اگرمخاطب تجارتی طبقہ سے تعلق رکھتاہے تو تجارتی منافع کے پردے میںاُس سے گفتگو کی جائے۔ اگر مخاطب دیہاتی ہے تواُس سے گفتگو کرتے وقت دیہاتی طرزتکلم اختیار کیا جائےیا اگر غیرمسلم ہے تو اُس سے غیرمسلم اعتقادات ومسلمات کی روشنی میں گفتگو کی جائے۔ اس کا فائدہ بروقت یہ ہوگا کہ آپسی اجنبیت ختم ہوجائے گی اور اُس کے بعد جو گفتگو ہوگی اس کا اثر مخاطب پر یقینی طورسے پڑےگا۔ پھر دعوت وتبلیغ کا مقصد بھی پوراہوگا اور دین اسلام کی عام اشاعت بھی ہوگی۔قرآن وسنت اور مشائخ کی زندگی کے مطالعے سے یہی معلوم ہوتا ہے۔لیکن اس کے برخلاف ہماری حالت کافی حد تک مختلف نظرآتی ہے۔
مثال کے طور ہم علم دین حاصل کرتےہیں،مختلف زبانیں سیکھتے ہیں، تحریروتقریر میں پوری پوری مہارت حاصل کرتے ہیں اوراِس کے ساتھ ہی اپنی ہنرمندی کا اس قدراظہار کرتے ہیں کہ یہ دنیا عش عش کرنے لگتی ہیں۔ہر طرف سےآفریں وتحسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں اور شادمانی کا ایک سرور ہمارے رگ وپےمیں سرایت کرجاتی ہے، جس کی لذتوں سے ہم باہر نکل نہیں پاتے۔ان تمام باتوں کےباوجودجس دینی و اصلاحی انقلاب کی دھمک اسلاف ومشائخ کے زمانے میں محسوس کی جاتی رہی ہےوہ انقلاب موجودہ عہد میں کہیں دیکھائی نہیں دیتا۔ حالاںکہ علم دین بھی وہی ہے،مختلف اہم زبانوں کی سیکھ بھی ہے،تحریروتقریرکے شہسواربھی ہیںاور ہنرمندی میں کمال بھی رکھتے ہیں ،پھر بھی دینی واصلاحی انقلاب سے ہم محروم ہیں۔
آخراس کی وجہ کیا ہے؟
ہمارے خیال میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ مشائخ کرام نے جن جن باتوںکی ہمیں تعلیم دی ہےان باتوں سے یا تو ہم غافل ہوچکےہیں یا جان بوجھ کر اُن کی تعلیمات سے بھاگ رہے ہیں یا پھر اپنی اَنا کی تسکین کے لیے اور اپنے خواہشات نفس کی تکمیل کے لیے اُن کی تعلیمات کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔بارہاایسا بھی ہوتاہے کہ مشائخ کرام نےدنیا سے جس قدر بےرغبتی اوربےنیازی کی تعلیم دی ہےہم اسی قدردنیاداری اوردنیاحصولی کے شوقین نظرآتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ تو تعلیمات مشائخ ہی کو دنیاطلبی کاذریعہ بنالیتے ہیں،یعنی اُن کی تعلیمات سے اپنے مقاصد کی باتیں تو نکال لیتے ہیںلیکن عوامی اوراصلاحی مقاصد کی باتیں چھوڑدیتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نہ ہمارا تعلق باللہ مضبوط ہوپاتاہے اور نہ ہی تعلق بالناس مستحکم، مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کے باوجود،اوراُن زبانوںمیں دعوت وتبلیغ کرنے کے باوجودہم دینی اعتبارسے ناکام رہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ دنیوی جاہ ومنصب ہمیں اس قدر عزیزہوتا ہے کہجب کوئی ہماری تحریروتقریر،تصنیف وتالیف، ادارتی تعمیر وتشکیل،دعوت وتبلیغ وغیرہ کی تعریف وتوصیف محض چابلوسی کے لیےکرتاہے توہماراسینہ چھپن اِنچ کا ہوجاتا ہے،جب کہ اس کے برخلاف اگر کوئی ہم پر صحیح تنقید بھی کرتاہےتوخوداحتسابی کے بجائےہمارا سینہ سکڑکرچھ انچ سے بھی کم کا رہ جاتاہے۔چناںچہ اگر واقعی ہم ایسا محسوس کرتے ہیں تویہ سمجھ لیں کہ ہم بہرحال خواہشات نفس کے غلام ہوچکے ہیں، اور اس صورت میں ہم تعلیمات مشائخ کا چہرہ مسخ کرنے کے ساتھ اپنے احمقانہ عمل کاثبوت بھی فراہم کررہے ہیں۔
بقول مخدوم جہانیاں جہاں گشت:
’’وہ شخص احمق ہےجو خواہش نفس کی پیروی بھی کرے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت وبخشش کی اُمیدبھی رکھے۔‘‘