خواجہ کی نگری کو بدنام کرنے کی نئی سازش:اجمیر 92
ملک کے حالات دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ فرقہ پرست ومسلم دشمن عناصر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بھاجپا حکومت در حقیقت فرقہ واریت کو فروغ دیکر ملک کے عوام کو باٹنا چاہتی ہے۔ اس بٹوارے کا اہم مقصد ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو بھائیوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نفرت اور دشمنی کو بھڑکانا ہے۔ بھاجپا جب سے ملک کی باگ دوڑ سنبھال رہی ہے تب سے یہی کرتے آرہی ہے۔اس بار اسمبلی الیکشن میں کرناٹک سے بی جے پی کا صفایا ہونے کے بعد سے سنگھ پریوار کے لیڈران کے پیروں تلے زمین گھسنے لگی تو آر یس یس اور بھاجپا حکومت اپنی کرسی بچانے کے لیے ایک سے ایک نئے نئے ایجنڈے پیدا کررہے ہیں۔ انہیں ایجنڈوں کی پہلی کڑی دی کشمیر فائلز تھی اس کے بعد دی کیرالا اسٹوری اب باری ہے اجمیر 92 کی۔
ان سب کا مقصد ایک ہے۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کو بدنام کرنا اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑنا۔ دی کیرالا اسٹوری کا پورا بھانڈا پھوٹ گیا۔ انڈین مسلم لیگ نے زبردست طریقے سے اس کا پردہ فاش کیا۔جھوٹ وکذب بیانی اور دروغ گوئی پر مبنی فیلم کو پورے ملک میں ریلیز کی گئی لیکن اس بدنام زمانہ فیلم کے پیچھے جو مقصد کارفرما تھا وہ بد قسمتی سے پورا نہیں ہوپایا۔ ملک میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم سازش کے تحت فلموں کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ کشمیر فائلز اور کیرالا اسٹوری کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف مہم سے فرقہ پرست طاقتوں کو تشفی نہیں ملی ، لہذا مزید دو متنازعہ فلمیں تیار کی جارہی ہیں جو عنقریب ریلیز ہوں گی۔ دہشت گردی سے مسلمانوں کو جوڑنے کیلئے جنت کی حوروں پر فلم تیار کی جارہی ہے ۔ جس پر مسلمانوں میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ متنازعہ فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا ۔ فلم کا نام ’’72 حوریں‘‘ رکھا گیا ہے ۔ کیرالا اسٹوری کا تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ نئی فلمیں سرخیوں میں آگئیں ۔ ایک 72 حوریں اور دوسری اجمیر 92۔ موجودہ وقت میں جس طرح سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے فلموں ، ڈاکیومینٹری وغیرہ کا سہارا لیا جارہا ہے ، وہ اظہار رائے کی آزادی کے عین خلاف اور ایک مستحکم ملک کے عزائم کو پامال کرنے والا ہے ۔لہذا مرکزی حکومت کو چاہیے کہ ان جیسے بدنام فیلموں پر پابندی عائد کریں اور ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔
آئیے اس فیلم کی چند تاریخی حقائق کی بھی سیر کرلیتے ہیں تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آئیں کہ پس پردہ چل کیا رہا ہے؟؟؟۔ تو دل تھام کر سنئے انبانی ریلینس گروپ آف کمپنی اس فیلم کو فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ اس فیلم کے ڈائریکٹر جناب پشپیندر سنگھ ہیں۔ ذرائع اطلاعات کے مطابق 14 جون کو یہ فیلم ریلیز کی جائے گی۔ فیلم ٹریلر ریلیز کیا جا چکا ہے۔ٹیلر سے یہ صاف واضح ہے کہ فیلم کا مقصد خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی رحمة الله عليه کو اور آپ کی مقدس نگری کو بدنام کرکے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا ہے۔ 1992 کے جس گھناؤنے کرتوت اور واقعے کو لیکر فیلم بنائی گئی ہے۔ وہ واقعہ سچا ضرور ہے لیکن اس واقعے اور سنگین جرم کو کسی ایک خاص مذہب اور دھرم سے جوڑنا سراسر غلط ہے۔ جس طرح اس میں فاروق چشتی اور نفیس چشتی کا نام بار بار دہرایا جارہا ہے اسی طرح اس میں چند مجرم ہندو بھی ہے جیسے کیلاش سونی، مہیش لودھی، ہریش ٹولانی اور پروشوتم اس کے علاوہ بھی کئی غیر مسلم مجرم گرفتار ہوئے تھے۔
تو کیا کوئی اس سنگین جرم ہندو مذہب سے جوڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی جوڑتا بھی ہے تو اس کو فرقہ پرستی اور تعصب کے علاوہ کیا کہا جا سکتا۔ جس طرح اس گھناؤنے جرم میں مجرم قابل مذمت ہیں کچھ یوں ہی ہندوستان کا پراشاشن ، عدلیہ اور پولیس انتظامیہ بھی قابل سرزنش ہیں اس گھناؤنا جرم کا راز سربستہ اس وقت کھلا جب سنتوش گپتا نے اپنے اخبار تیونک نیجوتی میں مئی 15 سن 1992 کو اس کے خلاف لکھا اور کافی جانچ پڑتال کے بعد مجرم پولیس کے ہاتھ لگے۔ مئی 30 کو گیارہ مجرموں کو گرفتار کیا گیا۔ 3 دسمبر کو عدالت میں پیشی ہوئی۔ اور 28 دسمبر کو سنوائی شروع ہوئی۔ اسی اثناء سن 1994 میں اور ایک گھٹنہ یہ ہوئی کہ ان مجرموں میں سے ایک جس کا نام پروشوتم تھا وہ خود کشی کرلیا۔ جس کے بعد معاملہ اور گمبھیر ہوجاتا ہے۔ پھر کئی سالوں کے بعد 18 مئی 1998 میں مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ پھر کیا چند سال بعد 20 جولائی سن 2001 میں چار مجرموں کو رہا کردیا جاتا ہے۔ اپریل 2003 میں اس گھناؤنے کھیل کا مین کھلاڑی نفیس چشتی کو دلی سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ اور ایسے ہی 2005 میں اقبال بھٹ 2007 میں اس پورے جرم کا ماسٹر مائنڈ فاروق چشتی کو بھی گرفتار کیا جاتا ہے پھر 2018 میں سہیل گھانی کو بھی قید کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس پورے جرم میں پولیس انتظامیہ نے چھ چارج شیٹ مجرموں کے خلاف درج کئے۔ 18 مجرم پگڑے گئے۔ 145 گواہان کے بیانات درج کئے گئے۔ یہ اس پورے جرم کا سنارییو اور لب لباب ہے۔
ہم نے کافی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ تمام باتیں بیان کی ہیں۔ان باتوں کے انکشاف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس سنگین جرم کو کسی بھی دھرم یا مذہب سے جوڑنا فرقہ واریت اور تعصب پرستی کی کھلی دلیل ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا تجویز کی جائیں اور انہیں ہمیشہ کے لیے قیدوبندکی سزا سنائی جائیں۔ اس کے برخلاف آج یہ تمام درندے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ جنہیں بآسانی بیل بھی مل چکی ہے۔ ہم اس وقت جمیعت العلماء ہند کے صدر محمود مدنی اور ایسے ہی رضا اکیڈمی ممبئی کے صدر وسربراہ علامہ سعید نوری صاحب قبلہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ دونوں نے جرأت وہمت کے ساتھ اس فیلم کی مخالفت بھی کی اور مرکزی حکومت سے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔ مزید مدنی صاحب نے کہا کہ اجمیر میں پیش آمدہ واقعہ کی جو شکل بتائی جارہی ہے ، وہ سبھی سماج کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور گھناؤنا عمل ہے ، اس کے خلاف بلا لحاظ مذہب و ملت اجتماعی جد وجہد کی ضرورت ہے ۔لیکن یہاں تو سماج کو بانٹ کراس دردناک واقعہ کی سنجیدگی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس لیے میرا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ ایسی فلم پر پابندی لگائی جائے۔
خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کی پاک دھرتی بلا تفریق مذہب وملت ہر ایک کے لیے مقدس اور قابل احترام ہے۔ اس سنگین جرم کی وجہ سے آپ کی نگری یا آپ کے پریوار والوں کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کیا جائیں۔ آج بھی اس نگری سے مسیحائی اور غریب پروری کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ دو تین کی وجہ سے پورے خدام درگاہ غریب نواز کو مورد طعن قرار دینا سراسر ظلم ہے۔ ہم مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ سن 1992 کے تمام مجرموں پر سخت قانونی کاروائی کی جائیں اور ایسی سزا دی جائے کہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں۔ اور اس فیلم پر بھی پابندی لگائی جائیں تاکہ ملک کا امن وامان برقرار رہیں اور قومی یکجہتی وہم آہنگی کو ٹھیس نہ پہنچے۔ الله تعالٰی سے دعا گوں کہ رب قدیر ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور سماج سے ایسے ہوس کے درندوں کو نیست ونابود کریے