ایودھیا کے دیے اور ضمیر کا اندھیرا

اتوار کے روز ایودھیا میں دیوالی کے موقع پر منعقد ہونے والا نواں دیپ استو ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تقریب میں 26 لاکھ 17 ہزار 215 دیے ایک ساتھ جلائے گئے جس پر خطیر رقم خرچ کی گئی اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس کا اندراج بھی کرایا گیا۔ بظاہر یہ منظر روح پرور اور پرکشش تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان دیوں کی روشنی نے واقعی انسانیت کے اندھیروں کو مٹایا یا یہ صرف سیاست کی چمک بڑھانے کا ایک اور ہتھکنڈہ ثابت ہوا؟ یہ کیسا عجب زمانہ ہے کہ جہاں کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں وہاں لاکھوں دیے محض ایک دن کی نمائش کے لیے جلائے جا رہے ہیں۔ جب ملک کے دیہات میں بچے بھوک سے سسک رہے ہوں، کسان قرض میں ڈوب کر خودکشی کر رہے ہوں، بے روزگار نوجوان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہوں ایسے میں لاکھوں دیے جلا کر "روشنی کی جیت" منانا ایک عجیب سا تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ تقریب دراصل روشنی سے زیادہ سیاست کا استعارہ بن چکی ہے۔ ہر سال حکومتیں اس طرح کے ایونٹ کو ترقی، ثقافت اور مذہبی فخر کے نام پر پیش کرتی ہیں لیکن اس کے پس پردہ ووٹ بینک کی سیاست، مذہبی جذبات کی تسخیر اور سیاسی چہروں کی تشہیر چھپی ہوتی ہے۔ افسوس کہ آج مذہب کو انسانیت سے نہیں بلکہ سیاست سے جوڑ دیا گیا ہے۔

 ایودھیا جو صدیوں سے روحانیت، عقیدت اور امن کی علامت تھی آج ایک سیاسی علامت بن چکی ہے۔ جہاں پہلے بھکت پریم کے گیت گاتے تھے، اب نعرے لگتے ہیں، جہاں دیے روشنی کے لیے جلتے تھے اب وہ سیاست کی آگ کو بڑھانے کے لیے روشن کیے جاتے ہیں۔ اگر انہی 26 لاکھ دیوں کی رقم سے غریبوں کے گھروں میں بجلی پہنچا دی جاتی، بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیے جاتے، کسانوں کے قرض معاف کیے جاتے، یا کسی یتیم خانے میں بچوں کے لیے کھانے اور تعلیم کا انتظام کیا جاتا تو یقیناً اس سے دیوالی کی اصل روح یعنی "اندھیروں کو مٹانا" حقیقی معنوں میں پورا ہو جاتا۔ لیکن موجودہ دور کی سیاست کو خدمت سے زیادہ نمائش عزیز ہے۔ غریبوں کے خالی پیٹ اور بیماروں کے لاچار جسم کسی کے لیے موضوعِ گفتگو نہیں بنتے البتہ کیمروں کی چمک، گنیز ریکارڈ کے سرٹیفیکیٹ اور سیاست دانوں کے مسکراتے چہرے سب کچھ چھپا دیتے ہیں۔

  ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ترقی کا مطلب یہی ہے کہ شہر کے ایک حصے میں روشنی کے سمندر بہا دیے جائیں اور دوسرے کنارے پر اندھیرے میں زندگی تڑپتی رہے؟ کیا انسانیت کی خدمت کا نام اب صرف تصویروں اور خبروں تک محدود رہ گیا ہے؟ دیوالی کا اصل مقصد ظلمت کو مٹانا، دلوں میں محبت اور ہم دردی کی شمع روشن کرنا ہے۔ اگر اس تہوار کو سیاست، نمود و نمائش اور بے حسی کا مظہر بنا دیا جائے تو یہ تہوار نہیں بلکہ احساسِ زیاں کا دن بن جاتا ہے۔ آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ حکومتیں اور عوام دونوں اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ دیے ضرور جلائیں مگر انسانیت کے لیے، محبت کے لیے، مساوات کے لیے۔ ورنہ یہ لاکھوں دیے بھی ان اندھیروں کو مٹا نہیں سکتے جو ہمارے سماج، ضمیر اور نظام پر چھا چکے ہیں۔

 آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ اندھیرے پھیل گئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ انسان نے ان اندھیروں سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ ہم نے ضمیر کے چراغ بجھا دیے اور ان کی جگہ مصنوعی روشنیوں کا جال بچھا لیا ہے۔ ایودھیا کے دیے اگرچہ لاکھوں کی تعداد میں روشن ہوئے مگر ان سے زیادہ روشن وہ ضمیر ہونے چاہییں تھے جو انصاف، مساوات اور انسانیت کے لیے دھڑکتے ہیں۔ لیکن افسوس! سیاست کی گرمی میں انسانیت کی شمع بجھتی جا رہی ہے۔ سماج میں آج وہ توازن نہیں رہا جو تہذیب و تمدن کی پہچان تھا۔ کہیں مذہب کو سیاست کی سیڑھی بنایا جا رہا ہے، کہیں سیاست کو مذہب کی چادر میں چھپایا جا رہا ہے۔ ہر جانب تالیوں کی گونج ہے مگر حقیقت کے شور کو کوئی نہیں سنتا۔ 26 لاکھ دیے جلانے والے ہاتھ اگر ایک غریب کے آنسو پونچھ لیتے تو شاید یہی منظر زیادہ مبارک، زیادہ مقدس اور زیادہ روحانی ہوتا۔ مگر اب تو حالات یہ ہیں کہ روشنیوں کے میلے میں انسان کی حیثیت ایک منظر سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر یہ قوم کس سمت جا رہی ہے؟ کیا واقعی ہم ترقی کی راہ پر ہیں یا محض فریبِ نظر میں مبتلا؟ ترقی وہ نہیں جو گنیز بک کے صفحوں پر چھپ جائے بلکہ وہ ہے جو کسی یتیم بچے کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر ابھرے۔ جب کسی مزدور کے چولہے میں آگ جلتی ہے تو وہی اصل تہوار ہے، جب کسی بیٹی کی تعلیم مکمل ہوتی ہے تو وہی اصل روشنی ہے، جب کوئی بیمار مفت علاج پا لیتا ہے تو وہی اصل جشنِ انسانیت ہے۔ اگر ہم نے تہواروں کو فلاحی جذبے سے جوڑ لیا تو یہ ملک سچ میں جگمگا اٹھے گا۔ لیکن اگر ہم نے انہیں سیاست اور نمائش کے ہتھیار بنا دیا تو ان روشنیوں کے درمیان بھی اندھیرا گہرا ہوتا جائے گا۔

 سیاست کا کام خدمت ہے، روحانیت کا کام کردار کی تعمیر۔ مگر آج سیاست نے روحانیت کی چادر اوڑھ کر اپنے مفادات کے دیے جلا لیے ہیں۔ عوام کے لیے دعائیں کم اور وعدے زیادہ ہیں، کام کم اور تصویریں زیادہ۔ یہ وہ دور ہے جہاں شعور کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے تاکہ شور غالب رہے۔ عوام کو تماشے دکھائے جا رہے ہیں تاکہ وہ حقیقت سے بے خبر رہیں۔ جب قومیں تماشے دیکھنے لگتی ہیں تو حکمران کھیلنے لگتے ہیں۔ اور یہی آج کے ہندوستان کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ آج دیے جلا کر لوگ فخر محسوس کرتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے اردگرد کتنے گھر ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں، جہاں شام ہونے کا مطلب اندھیرا ہی اندھیرا ہے؟

کتنے بچے ایسے ہیں جن کی زندگی کا سورج غربت کے بادلوں میں گم ہوگیا ہے؟ کتنے مزدور ایسے ہیں جو روشنیوں کے میلے میں اپنے جسم کی روشنی بیچ کر روٹی کماتے ہیں؟ کتنی مائیں ایسی ہیں جو اپنے بچوں کو کہتی ہیں کہ بیٹا، اس سال تہوار پر نئے کپڑے نہیں ہیں اگلے سال بنوا دیں گے۔ یہی وہ سوال ہیں جو کسی بھی زندہ سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے چاہئیں مگر افسوس کہ آج ضمیر بھی سوشل میڈیا کی پوسٹ بن کر رہ گیا ہے۔ الغرض تہواروں کا مقصد انسانیت کی بیداری ہے۔ یہ تہوار نفرت نہیں محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ لیکن جب مذہبی تہواروں کو سیاسی اسٹیج بنا دیا جائے تو وہ عبادت نہیں رہتے مظاہرہ بن جاتے ہیں۔ روشنی اس وقت تک روشنی نہیں جب تک وہ دل کے اندھیروں کو نہ مٹائے۔ اگر ہم واقعی اندھیروں کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویوں، سوچ اور نظام کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں تعلیم کو فروغ دینا ہوگا، سماجی انصاف کو مضبوط کرنا ہوگا، فرقہ واریت کی دیواروں کو گرانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو دوبارہ اپنی پہچان بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو روشنی کی حقیقی منزل تک لے جاتا ہے۔

 آئیے! ایک اجتماعی عہد کریں کہ ہم تہوار ضرور منائیں گے مگر اس کے ساتھ ایک وعدہ بھی کریں گے کہ ہم اپنے دل کے اندھیروں کو مٹائیں گے،  ہم نفرت کے بجائے محبت بانٹیں گے، ہم فرقہ پرستی کے بجائے اخوت کے دیے جلائیں گے، ہم ظاہری نہیں بلکہ باطنی روشنی کے طلبگار بنیں گے۔ اگر ہر انسان اپنے حصے کا ایک دیا بھی خلوص کے ساتھ جلائے تو دنیا کو کسی گنیز ریکارڈ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پھر نہ صرف ایودھیا بلکہ ہر دل ایک نیا ایودھیا بن جائے گا جہاں انسانیت کا پرچم لہرا رہا ہوگا، جہاں مذہب، سیاست، رنگ و نسل کی تقسیم نہیں بلکہ انسانیت کی یکجہتی ہوگی۔ تہوار کا مطلب صرف جشن منانا نہیں بلکہ ضمیر جگانا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم خوابوں کے نہیں شعور کے تہوار منائیں جہاں ہر چہرہ مطمئن، ہر گھر آباد، ہر دل روشن ہو۔ تب ہی کہا جا سکے گا کہ: دیپ جل اٹھے اور دلوں کے اندھیرے واقعی مٹ گئے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter