یہ جنگ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
جی ہاں! جب اس کرّهء ارض پہ چھپن ستاون اسلامی ممالک کی موجودگی کے باوجود فلسطین میں لگی ہوئی مہیب و خوفناک آگ کو مہینے بھر کا عرصہ گزر جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ ان ممالک میں سے کسی بھی ملک کے کسی ایک قائد کے پاس حمیت اسلامی، جوش ایمانی یا براہیمی ولولہ یا تو سرے سے مفقودہے یا پھر مادی مفاد اور اسرائیل کے ساتھ سیاسی سانٹھ گانٹھ کے تلے دبا ہوا ہے۔ اسلام کا دم بھرنے والا ہر نیتا استطاعت کے باوجود آج جس نرمی اور خموش مزاجی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور جس کا خمیازہ مستقبل قریب میں پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب دشمن کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ مسلمان قبلہء اول اور اپنی تیسری سب سے پاک و متبرک سر زمین کی آزادی کے لیے آگے نہیں آ سکتے تو کسی دیگر اسلامی ملک پر چڑھائی کی صورت میں وہ کیوں اپنی اِنرجی ضائع کریں گے۔
اسرائیل-فلسطین کے قضیے میں مسلم دیشوں کے علاوہ انسانیت کے نام نہاد علمبردار اور امن پسندی کی بے جا راگ الاپنے والی عالمی تنظیمیں بھی جس سست روی سے کام کر رہی ہیں وہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ حیرت انگیز بھی۔ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کو لے کر قرارداد کو منظور ہوئے دو ہفتے ہونے کو ہیں مگر تا حال اس کے نتائج کا کوئی اتا پتا نہیں۔ امریکہ جو ابتدا میں جنگ بندی کے حق میں نہیں تھا اب اس نے بھی اپنے تیور سخت کر لیے ہیں اور اسرائیل کو فوری غزہ پر چڑھائی روک کر امن بحال کرنے کو کہا ہے۔ اب مسٹر جوبائیڈن کے اس سخت رویے اور ترش لہجے کا نیتن یاہو کی من مانی، انانیت، سرکشی اور مطلق العنانی پہ کچھ اثر پڑتا ہے یا نہیں دیکھنے کی بات ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیلی حکومت پر کسی بھی بڑی تنظیم یا لیڈر کی باتوں کا اثر کیوں نہیں ہو رہا؟ اور وہ یکے بعد دیگرے جنگ کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگی جرائم کا بلا پس و پیش ارتکاب کیوں کرتا چلا جا رہا ہے؟
اس کے جواب کے لیے ہمیں اسرائیل کے حالیہ سیاسی منظرنامے میں جانا ہوگا۔ پچھلے کچھ عرصے سے اسرائیل کے عوام جس طرح سے اپنی حکومت سے ناراض دکھ رہے ہیں اور پہلے عدلیہ کے قوانین میں ترمیمات اور پھر حماس کے خلاف جنگ میں من مانی کو لے کر مسٹر یاہو سے استعفے کی مانگ کر رہے ہیں اس سے صاف ہے کہ مودی حکومت کی طرح لوگوں کا ذہن اصل مدعوں سے موڑنے کے لیے جنگ میں بنے رہنا ان کی مجبوری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ابھی جنگ بندی کا مطلب اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا ہے اسی لیے وہ اسے دانستہ طول دینا چاہتے ہیں اور اس کا جواز انہوں نے یہ ڈھونڈا ہے کہ حماس کے خلاف لڑائی روکنے کا فیصلہ اس کے آگے ہتھیار ڈالنے کے برابر ہے اور ایسا کرنے سے حماس کو مزید تیاری کا موقع ملے گا جس سے ان کے حملوں میں مزید شدت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے زعم کے مطابق حماس کو گھٹنوں پہ لاتے ہوئے اسے مکمل طور پر مجبور کر دینا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف حماس کے جانبازوں نے بھی گویا قسم کھا لی ہو کہ اس بار چاہے جو جائے قبلہء اول کو صیہونی قبضے سے آزاد کر ا کے ہی چھوڑیں گے۔ اسی لیے معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی جانب سے واحد مزاحمتی جماعت ’حماس‘ نے ظالم و جابر اور احسان فراموش اسرائیلیوں کے خلاف اب تک کا سب سے بے باکانہ اور مجاہدانہ رویہ اپنایا اور اب تک کی رپورٹ کے مطابق فضائی اور زمینی دونوں محاذوں پر دشمن کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کیا۔ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی طاقت کے سامنے حماس جیسی چھوٹی اور بے سر و سامانی کی مثال جماعت کی اس قدر جارحانہ مزاحمت اور اپنے اور اپنے ہم وطنوں کی بے تحاشا جانی مالی نقصانات کے باوجود اس حد تک ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا کہ اسرائیل جیسی مضبوط اور سفاک حکومت کے حکام اور اس کی فوج کے اعلی عہدیداران اس بات کا اعتراف کرنے لگیں کہ ہمارا بھاری نقصان ہو رہا ہے اور اگر جنگ چلتی رہی تو ہمیں اس کی مزید قیمت چکانی پڑ سکتی ہے تو حماس کے مجاہدین کی اس جرات و دلیری کو سلام کرنا چاہیے اور فلسطین کی مقدس سر زمین کی آزادی میں ان کی جانکاہ کاوشوں کو معجزے سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
جنگی مبصرین کی مانیں تو اب تک کی کاروائی میں حماس نے یہ جنگ راست طور پر جیت لی ہے۔ اسے سیاسی طور پر جہاں فائدہ ہوااور دینا بھر سے ہمدردیاں ملیں وہیں اسرائیل کا غرور خاک میں مل کر رہ گیا اور اسے اقوام متحدہ اور امریکہ کے بشمول عالمی سطح پر ناراضگیاں مول لینی پڑی ہیں۔ تاہم ابھی یہ جنگ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسلامی ممالک کی بے حسی اور غفلت ہے۔ انہوں نے محض مذمتی بیانات اور گنتی کے چند دوروں اور مشوروں کے علاوہ تا حال کچھ نہیں کیا اور فلسطین کی آزادی کی ساری ذمہ داری اکیلے حماس کے کندھوں پہ ڈال رکھی ہے۔ تاہم ایسے میں ایران، لبنان، شام، مصر اور عراق جیسی مشرق وسطی کی چند ریاستوں کی ستائش ضرور کرنی پڑے گی جنہوں نے حماس اور فلسطین کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے اور ایک حد تک اسرائیل کے خلاف جنگ میں اپنی شراکت درج کرائی ہے۔ خاص طو ر سے ایران کی ہمت کی داد دینی ہوگی جس نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے بلکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے امریکہ تک کے کئی ٹھکانوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔
باقی مسلم دیشوں کو بھی یہی رویہ اپنانا چاہیے تھا اور مقہور و مجبور فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے پوری شدت سے آگے آنا چاہیے تھا۔ یہ نہ صرف ان کا اخلاقی فریضہ تھا بلکہ اس پاک سر زمین کی آزادی تو ان کے حقیقی فرائض میں شامل ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں سبھی اسلامی ممالک کو دو بنیادوں پر فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ اول یہ کہ انہیں اپنی ہی زمین سے نکالا جا رہا ہے اور صیہونی حکومت اس پہ جبرا قابض ہوتی جا رہی ہے جو سراسر ناانصافی کے زمرے میں آتاہے۔ دوسری یہ کہ یہ سر زمین کوئی عام سر زمین نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کا قبلہء اول ہے جس کی حرمت پہ مر مٹنا ہر مسلمان کے اولین فرائض میں شامل ہونا چاہیے کیوں کہ قبلہ ء اول کے بنا مسلمانوں کے وجود کا کوئی مطلب نہیں۔ آج غزہ کے لوگ جس حال میں ہیں اور وہ مسلم طاقتوں کی بے حسی اور تماشا بینی پر جس طرح کے طنز کس رہے ہیں، یقینا عالم اسلام کے لیے ڈوب مرنے کا موقع ہے۔
طاقتور مسلم دیشوں کی مدد سے محروم و مایوس فلسطینی جس عزم و حوصلے سے غاصب صیہونی طاقت کے خلاف سینہ سپر ہیں وہ دلیری و پامردی کی ایک الگ داستان بننے جا رہا ہے۔ اب تک ہزار سے زائد ہم وطنوں کی شہادت کے باوجود جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے ان کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں دیکھی گئی ہے بلکہ ’لن ترضی عنک الیہود۔۔۔‘ کے تناظر میں انہیں بخوبی اندازہ ہو چکاہے کہ جن بے یار و مددگار یہودیوں کے ساتھ انہوں نے انسانیت اور انتہائی فراخ دلی اور کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی زمین میں سر چھپانے کا موقع دیا تھا وہ کس قدر سرکش اور احسان فراموش ہیں۔ آیت کریمہ کی روشنی میں انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ یہ بغض و عناد سے بھری یہودی قوم کسی صورت ہم سے راضی نہیں ہوں گے خواہ ہم ان کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے ہی کیوں نہ پیش کر دیں۔ گویا آیت کریمہ ان کے ایمان کو مزید مضبوط و مستحکم کر رہی ہے کیوں کہ وہ اللہ کے اس فرمان کو روزانہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے کہ پوری دنیا سے ٹھکرائی ہوئی قوم کو اگر کوئی پناہ دے تو وہ اپنے محسن ہی کے خون کی پیاسی ہو جائے؟ مگر فلسطینیوں کے حق میں ایسا ہونا ہی تھا کہ یہ قرآن کی واضح عبارت تھی۔
اس کے علاوہ حدیث کے وہ الفاظ بھی ان کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں جن میں یہودیوں کے ساتھ قتال کا ذکر اور ان کی ہلاکت خیزیاں بیان کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہودی اگر کسی پتھر کے پیچھے بھی چھپیں گے تو پتھر پکار اٹھے گا کہ میرے پیچھے فلاں یہودی چھپا بیٹھا ہے، لہذا آؤ اور اس کا خاتمہ کر دو! یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مسلمان یہودیوں کی پسپائی و ہلاکت کو یقینی سمجھ رہے ہیں اور اپنے لیے نصرت غیبی کی توقع لیے بدترین حالات میں بھی باطل قوتوں سے برسر پیکار ہیں اور اپنی سر زمین اور قبلہ ء اول کی آزادی سے نیچے کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ آج ان کی شجاعت و دلیری اپنے شباب پر ہے اور بلاشبہ یہی ہمت و جرات دشمن پر بھاری پڑ رہی ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کہا تھا:
دعا کرو! کہ سلامت رہے مری ہمت!
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
یقینی طور پر گھر، خوراک، بجلی، پانی، دوا، ہتھیار، مواصلاتی نظام اور انٹر نیٹ جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم فلسطینی مجاہدوں کے حوصلے، اشیائے حرب و ضرب سے لیس صیہونی فوج پر بھاری پڑ رہے ہیں اور ان کے ٹینک کے ٹینک تباہ ہو رہے ہیں۔ زمینی لڑائی میں اسے مسلسل پسپائی ہو رہی ہے اور وہ غزہ کے علاقوں سے پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوئی جا رہی ہے۔ مگر اسے ابھی اور پیچھے ہٹنا ہوگا اور مزید خفت اٹھانی پڑے گی کیوں کہ حماس کے جانبازوں نے بھی تہیہ کر لیا ہے اور وہ انہیں بخشنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ محشر آفریدی کہتے ہیں:
صرف اتنا ہی نہیں وہ ہار اپنی مان لے
وہ ہمارے سامنے مجبور ہونا چاہیے!
اگر پوری اسلامی دنیا غیرت کا مظاہرہ کرتی اور قبلہء اول کی آزادی کو لے کر یک زبان ہوتی تو واقعی اسرائیل اب تک گھٹنوں پہ آ چکا ہوتا اور فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس مل چکی ہوتی۔ خیر امید کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ توقع ہے کہ اتنا کچھ ہو چکنے کے بعد مسلم حکمران اپنے لہجے میں سختی لائیں گے اور براہیمی تیور اپناتے ہوئے محض مذمتی بیانات اور جملے بندیوں سے باہر نکل کر ٹھوس عملی اقدامات کریں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسا اسلامی ملک یا مسلم قائد ہے جو براہیمی انداز اپناتے ہوئے فلسطین کی مبارک سر زمین میں لگی اس طویل ترین آگ کو بجھاتا ہے اور اسرائیل - فلسطین قضیے کو ایک مستقل حل فراہم کرتا ہے۔ فی الحال یہ ”جنگ“ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔