مسلم لڑکیاں تیزی سے ارتدادکی شکارکیوں ہورہی ہیں اس کی اصل وجوہات یہ ہیں !
(۱) اسلا می تعلیما ت سے دوری یہ اصل ارتداد کی راہ ہموار کر تی ہے عقل تعلیم کے بغیر کسی کام کی نہیں ہو تی ، اسی طر ح علم عقل کے بغیر مفید نہیں اگر انسان میں یہ دونو ں ہو ں تو اعتدال کی راہ پر انسا ن خو د گا مز ن ہو تا ہے یہی فطر ت کا تقاضا ہے ۔
(۲) خالص عصری علوم کی طرف انہماک بھی انسان کو دین اسلام سے دور و نفور کر تی ہے کہ زند گی کا تلخ تجربہ ہے انسا ن عصری علوم میں اعلیٰ تعلیم سے لیث توہوجاتا ہے مگر دینی علوم کا ایک حصہ بھی نہیں جانتا ہے تو لازما انسان دوسرے با طل مذاہب کی طرف بے لگام بھا گا پھرے گا چو نکہ دیگر مذاہب میں کسی عمل کی ادائیگی میں بہت سختی ہے یا تو بہت نرم گو شہ اختیا ر کیا گیا ہے یہ یہی وہ نر م گو شہ ہے جسے ہم دوسرے لفظ میں آزادانہ طر یقہ کہہ سکتے ہیں یہی وہ منہج ہے جس کی بنیاد پر انسان بآسانی شیطا نی فریب کا شکا ر ہو جا تا ہے پھر رفتہ رفتہ وہ ارتداد کا شکار ہوتا ہے اس لئے ہر مسلم والد ین کے لئے ضروری ہے کہ وہ خو د بھی دین و سنت کی حسب ضرورت تعلیم لیں ،سیرت رسول کے مخصوص حصے اپنے مطالعے میں لائیں اور اپنے بچو ں کو بھی ان اسباق کی طر ف تو جہ دلائیں والدین پر یہ فر ض کفا یہ ہے کہ وہ اپنے بچو ں کو اس قدر دینی تعلیم و تربیت سے لیث توکر ہی دے کہ مستقبل میں کبھی کو ئی اسے اسلام سے منحرف نہ کر سکے ورنہ آج غیر مسلم عصر ی تعلیم گاہ میں جو مسلم بچوں کے ذہن و فکر میں اسلام مخالف مواد بھرے جا رہے ہیں وہ یقینا ہما رے بچو ں کے لئے سم قاتل ہیں خصوصاً عیسائی میشنری تو بڑی تیزی کے ساتھ شہر وہ دیہی علاقو ں میں انگلش میڈیم اسکول کے جو جال بچھارکھے ہیں اور ان اسکولو ں میں جس تیزی سے ہما رے بڑے گھرانے کے بچے اچھی تعلیم کے نام پر مہنگے فیس ادا کر کے اسلامی اقدار و روایات سے دور ہو رہے ہیں یہ مسلم امہ کے لئے اچھی نوید نہیں۔ آج آٹھ لاکھ لڑ کیاں ارتداد کا شکا ر ہو ئیں ہیں ، کل یہ اعدادو شمار بھی کر نا کہیں مشکل نہ ہو جا ئے اس لئے مسلم کمیونٹی کے جو با اثر و صاحب مال اشخاص ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے اپنے شہرو ں میں اسلامی تعلیما ت کے ساتھ عصری ادارے کھو لیں جہا ں عصری علوم پڑ ھانے کے لئے ٹیچرز و پروفیسرس ہوں وہیں دینی علوم کے اسباق کے لئے اچھے و باصلاحیت حفاظ ، علما ہو ں جوجن شعبہ جات کے ماہر ہوں ان سے وہ کام لیا جا ئے ۔
الحمد للہ ! مہا رشٹرا میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اس طرز پر آج بر سوں سے کام کر رہے ہیں جیسے پو نا شہر میں آپ ’’اعظم کیمپس ‘‘ کا دورہ کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کا تجربہ کر سکتے ہیں یہ وہ مسلم ادارہ ہے جہا ں عصری علوم میں تقریبا تمام شعبہ جا ت ہیں جو اسی شہر کے بااثرحضرات کے زیر نگرانی رواں دواں ہیں ، اس وقت اعظم کیمپس کے روح رواں جنا ب ڈاکٹر پی ، اے انعامدار ہیں جنہو ں نے اپنی انتھک کوششو ں سے ادارہ کو عروج ہی نہیں بخشا بلکہ پو ری دنیا میں قومی ملی طور پر مسلم سماج کا شبیہ بھی روز روشن کی طر ح چمکدار بنانے میں ایک اہم کلیدی رول ادا کیا ہے اس قومی اثاثے کو بنا نے ، سنوار نے ، نکھارنے ، چمکانے اور بام عروج پر پہنچانے میں محتر مہ عابدہ انعامدار کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا کہ پی ، اے انعامدار کا ہے یہ دو شخصیتیں ایسی ہیں کہ جنہو ں نے اعظم کیمپس کو علم وآگہی کا وہ گلشن بنادیا جس کی خوشبو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی ۔اسی طر ح گلبرگہ کی انعامداریونانی میڈیکل کی تعمیری ، تعلیمی خدما ت ہما رے لئے ایک مثالی پروجیکٹ ہے جس کی ارتقا میں ڈاکٹر قمر الزماں انعامدار اور ان کے برادر عزیز جناب شاکرا نعامدار کی جدوجہد شا مل ہے ، یو پی کی زمین پر حضرت سید امین میا ں بر کا تی نے دینی وعصری علوم میں جس ادارہ کا قیام آج چند سالوں قبل کیا جسے ہم ’’جامعہ البرکات علی گڑھ ‘‘کے نا م سے جا نتے ہیں یقینا یہ ادارے ہما رے لئے آئیڈیل ہیں جو قوم کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتی ہیں اگر ہم اپنے مسلکی تشخص پر قائم رہتے ہو ئے بھی ان اداروں کو سامنے رکھ کر کا م کیا تو اب بھی وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم سے بھی آشنا رکھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہما ری بچیاں بہت حد تک ارتداد سے بچ سکتی ہیں ۔
(۳) بے پردگی ، بے حیا ئی، فحش فلمیں ،بیہودہ احباب کی بری صحبتیں بھی ہماری اولادوں کو صراط مستقیم سے ہٹارہی ہیں ۔زندگی پر صحبت کا بہت اثرہوتا ہے ، آدمی جس طبیعت کے لو گوں کی صحبت میں اپنی صبح و شام گذارتا ہے اسی طبیعت کا اس پر اثر بھی ہوجاتاہے اس لئے اچھی صحبت انتہائی ضروری ہے ۔
(۴) مسلما نو ں کو چاہئے کہ دینی مسائل سکھنے کے لئے گوگل یونیور سٹی پر بھروسہ نہ کر یں بلکہ علما ئے ملت اسلامیہ کو اپنے گھر پر مدعو کریں اور با ضابطہ مختصر دینی پروگرام ترتیب دیں تا کہ گھر کا ماحول دینی ہو جب گھر کا ماحول دینی ہوگا تو بچہ یا بچی دنیا کے کسی بھی کو نے میں ہو ں گے اسے شیطا نی حربے سے بچنے میں آسانیاں ہوں گی ۔
(۵) ملک میں جتنے مدارس چل رہے ہیں ہر ایک کے ذمہ دار کو چا ہئے کہ وہ اپنی جا معات میں منظم طور پر عصر ی علوم کا انتظام کر یں اور بچو ں کو تمام مقابلہ جاتی امتحانات میں بٹھائیں تا کہ یہ بچے سرکار کےاہم شعبوں میں صرف ملازم ہی نہ ہو ں بلکہ یہ ہما ری قوم کا ترجمان بھی ہوں اس طرح ہم ملک میں کھوئی ہو ئی بر سو ں کی سیاسی بصیرت کا امین ہو سکیں گے یہی بچے کل ہمیں اس ملک میں شان سے جینے ، رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔فی الحا ل شرح تعلیم کی جو فیصد ہما ری ہے وہ کافی افسوس ناک ہے ، ارتدادو پستی کی اصل سبب جہا لت بھی ہے یوں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے ۔
آج ہی کی با ت ہے کہ میں (راقم الحروف )میڈیکل کے لئے اہلیتی رجسٹر یشن کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو حیران ہو گیا کہ ہماری شمولیت دس فیصد بھی نہیں ہے تو بتا ئیں ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کس قدر بھیانک ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یاد رکھیں آج جہاں آپ اپنے ہی ملک میں مآ ب لینچنگ کے ذریعہ مارے جا رہے ہیں اور سرکاریں تما شا بیں ہیں ، وہیں کل ہم طبی نقطہ نظر سے دوران علاج ما رے جاتے ر ہیں گے اور اس وقت ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا ۔
آخری با ت !
یا د رکھیں !ہمارے بڑوں نے تو ہمیں یہ سکھا گئے ہیں کہ :
آدھی رو ٹی کھاؤ اور بچوں کوپڑ ھاؤ
ہمیں اپنے آقا حضرت نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ با ت ہمیشہ ذہن میں رکھنا چا ہئے کہ :علم نو ر ہے اور جہا لت تا ریکی ۔
اگر آپ بہتر و روشن مستقبل کے خواہا ں ہیں تو علم حاصل کریں اگرچہ صعوبت بھری زند گی گزارنی پڑ ے ۔
اللہ سبحا نہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع عطافر ما ئے ۔
آمین !بجا ہ سید المر سلین