اسلامی نصب العین، مسلم امہ کی ذمہ داریاں اور ایثار کے تقاضے

عہدِ رواں میں دین پر چاروں طرف سے حملے ہیں- مسلمانوں کو مٹانے، سَتانے، پامال کرنے، ختم کرنے اور  شریعتِ مطہرہ سے دور کرنے کی جدوجہد جاری ہے- تمام باطل قوتیں مل کر یہ کوشش کر رہی ہیں کہ مسلمان-مسلمان نہ رہنے پائے- اِس مقصد سے شرعی قوانین کو چیلنج کیا جا رہا ہے- بے شرع راہوں کو کشادہ کیا جا رہا ہے- غیر شرعی معاملات کو فروغ دیا جا رہا ہے-  پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری (سابق صدر شعبۂ علومِ اسلامیہ: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) لکھتے ہیں:

   "شریعت غرّہ کے دامن کو چھوڑ دینا اُصول اسلام کے موافق نہیں، بلکہ ابتلا و آفات کے وقت نہایت اخلاص اور  کمال عبودیت کے ساتھ اپنے مولیٰ عزوجل کی جناب میں رجوع لانا اور اس کی نافرمانیوں سے منھ موڑ کر والہانہ اطاعت میں سرگرم ہو جانا نجات اور فلاح کا مجرب نسخہ ہے-" (الرشاد، ص٢) 

در اصل جتنی سازشیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رَچی جا رہی ہیں؛ ان کا نشانہ یہ ہے کہ:

١- مسلمان اسلامی احکام کا تابع فرمان نہ رہے- وہ دین سے غافل ہو جائے!! 

٢- اسلامی قوانین زَد پر ہیں: مثلاً تین طلاق سے متعلق خلافِ شرع قانون بنا دیے گئے- مسلم پرسنل لاء کو بدلنے کی مسلسل سازشیں کی جا رہی ہیں- حجاب، داڑھی، اسلامی لباس، مذہبی شعار سبھی کچھ نشانے پر ہیں-

٣- اسلامی تاریخ، تہذیب، تعمیرات، آثار مٹائے اور ختم کیے جا رہے ہیں- اس سے اپنے تاریخی و تمدنی آثار سے رشتہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے-
 

 اس طرح کے اقدامات اقتدار کے زیر اثر ہوں تو اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں- مشرکین چاہتے ہی یہ ہیں کہ مسلمان عملاً مسلمان نہ رہے- ١٩٢٠ء میں عظیم مدبر اور مفکر خلیفۂ اعلیٰ حضرت پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری نے مسلمانوں کی مشرکین سے دوستی؛ اور مفاہمت و خود سپردگی کے مہیب اثرات پر تحریر فرمایا تھا:

   "افسوس ہے مسلمانوں کی بدعقلی اور خام کاری پر.... دُنیا طلبی ان پر ایسی چھائی کہ دین کی تباہی اپنے ہاتھوں سے کرنے لگے؛ اور اس کا احساس و شعور تک انھیں نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں.... مسلمانوں کا حقیقی نصب العین"دین و مذہب" اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے؛ دُنیا ان کے پاس دین کی رونق اور مذہب کی خدمت کے لیے ہے... جب دین و مذہب ہی نہ رہا تو ملعون ہے وہ سلطنت جو ایمان کے عوض میں ملے؛ اور صدہا لعنت ہے اس حکومت پر جو اسلام بیچ کر خریدی جائے.... " (الرشاد،طبع ١٩٢٠ء، ص٢٠)

  اس اقتباس سے چند باتیں معلوم ہوئیں:

١- دُنیا کی طلب میں ہم دینی احکام سے غافل ہوئے جاتے ہیں- جب کہ ہمیں چاہیے کہ اپنا سب کچھ دین سے وابستہ رکھیں-

٢- ہمارے اکثر نقصانات ہماری اپنی غفلت کا ہی نتیجہ ہیں- جیسا کہ ہم نے اپنے بلنصب العین کو فراموش کر دیا- دین سے غافل ہو بیٹھے- اقامت و غلبۂ دین کے مقاصد و مفاہیم کو نظر انداز کر دیا-

٣- اپنی دُنیا دین کے استحکام کے لیے مختص کرتے تو معاشرہ بھی صالح بنتا اور جاہ و منصب بھی مستحکم ہوتا، لیکن:
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
٤- فی الوقت جو حالات مسلمانانِ ہند کے ہیں، وہ اپنی ہی کمائی کا نتیجہ ہیں، جن لوگوں نے قیادت کا دعویٰ کیا، پھر مشرکین سے سودا کر لیا، ان کی خوشنودی چاہی، ان کی منشا و مراد کے مطابق مسلمانوں میں ذہن سازی کی، آج اسی کے نتائج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں- جب کشتی میں ہی رہزن ہو تو ساحل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے- یہی صورت حال ہند کے مسلمانوں کی ہے کہ انھیں کٹھ پتلی قیادتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے- 

  مشرک قائدین ١٩١٩ء میں سوراج کی باتیں کر رہے تھے- مسلم قیادت گاندھی کے چرنوں میں سرنگوں تھی- وہ ہندو یونیورسٹی بنارس کو مستحکم کر رہے تھے- نان کو آپریشن کی آندھی میں مدرسۂ عالیہ کلکتہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نقصان کیا جا رہا تھا- وہ علم کے میدان میں ترقی کر رہے تھے- ادھر گلشنِ علم ویران کیے جا رہے تھے- وہ اقتدار پر براجمان ہو رہے تھے- ادھر مسلم قیادت زیر دَست تھی- پھر ایک صدی محنت کی گئی- اور ہندو راشٹر کی راہ ہموار کی گئی- آج مسلم آثار کی بربادی کی مہم جاری ہے- قدیم مساجد کھدائی کر کے کمزور کی جا رہی ہیں- مسجد ہونے کا پروف مسجد ہے، لیکن قیاسی مورتیوں کی تلاش کے نام پر مسجدیں ختم کی جا رہی ہیں- ہر اعتبار سے ہمارے آثار مٹائے اور کھرچے جا رہے ہیں- اپنے نصب العین کی طرف لوٹ آئیں- دین و مذہب اور شعائر اسلامی کی حفاظت و خدمت کو مطمح نظر بنائیں- یہی وقت کا تقاضا ہے- یہی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے:

اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ

 عیدالاضحیٰ قربانی کے مراسم کی تجدید ہی نہیں ایثار کے پیغام کی ترویج بھی ہے- قربانی کی ان صبحوں کے افق پر اقامت دین کے لیے قربانی کے کئی ابواب لکھے ہوئے ہیں- شریعت مطہرہ پر عمل کا پیغام- اپنے دین پر استقامت کا پیغام- سچے پکے مومن بن جانے کا پیغام- اس لیے ہمیں چاہیے کہ دینی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بندۂ مومن بن کر جدوجہد کریں تو وادی بھی ہماری ہوگی اور گلشن بھی ہمارا:

وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o 

تمھیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو- (سورۃ آل عمران:۱۳۹) 

***

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter