نظر ثانی کے نام پر نصابی کتابوں سے چھیڑ چھاڑ
آج ہندوستان جس سنگین مرحلوں سے گزر رہاہے کسی سے مخفی نہیں۔آئے دن نت نئے مسائل اٹھائے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ کہ 2014 سے مسٹر وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے آر یس یس جیسی ہندوتوائی دہشت گرد تنظیم نے حکومت ہند کے بیشتر سرکاری اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے ستم بالائے ستم یہ کہ آج کل تعلیم جو روشن مستقبل کا ضامن ہے اس سے بھی بھونڈا مزاق کرنا چاہتی ہے اور اس منصوبے میں وہ کامیاب وسرخرو بھی نظر آرہی ہے نئی تعلیمی پالسیوں کو اپنے دائرۂ اثر می لے چکی ہے اسی کا نتیجہ کہئے کہ تقریبا ایک ماہ قبل کرناٹک میں سرکاری نصابی کتابوں پر نظر ثانی کے نام پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی گئی یہ اتنی شرمناک او ر سنگین فروگذاشت ہے جیسے آنے والا مؤرخ کبھی معاف نہیں کرے گا۔نصابی کتابوں میں نظر ثانی کے بہانے سے بی جے پی ریاست بھر میں فرقہ واریت کو فروغ دینا چاہتی ہے او ر یہ ناقابل تردید حقیقت بھی ہے کہ مودی سرکار کی پوری اینرجی اسی پر قائم ہے۔خود مسٹر مودی بھی آر یس یس ہی کا پروردہ ہے۔برسر مطلب آمدم کہ ریاست کرناٹک میں ساتویں جماعت میں سوشیل سائنس کی نصابی کتاب سے پرندراداس کا سبق نکال دیا گیا۔جہاں کتابوں میں بابا صاحب امبیڈکر کے اسم گرامی کے آگے جو لاحقہ معمار دستور ہند لگاتھا وہاں وہاں سے لفظ معمار گل کردیا گیا تاکہ آنے والی نسل ڈاکٹر بابا صاحب کی گراں قدر خدمات کو یکسر فراموش کردیں۔
مزید برآں دسویں جماعت کی کتاب سے ہندوستان کے قابل فخر سپوت انقلابی شخصیت وویکانند سرسوتی او ر ان کی بیش بہا خدمات اور انقلابی خیالات پر مشتمل سبق کو بھی کتاب سے خارج کردیا گیا اس کے علاوہ کتابوں سے دلت سماج کے روح رواں اور مصلح اعظم پیریار اور شری نارائن گرو اور جنگ آزادی کے بہادر سورما بھگت سنگھ اور ایسے ہی دیگر نامور شخصیات سے متعلق تمام مضامین کو حذف کردیا گیا۔یہاں ایک سوال ابھر تا ہے کہ یہ سب کیوں کیا جارہاہے؟ اس کا صاف وشفاف جواب یہ کہ ہندوستان کو غیر جمہوری ہندو راشٹر بنانے کی پہل ہے جو ہندوتوائی دہشت گرد تنظیم آر یس یس کا دیرینہ خواب اور سپنا ہے اسی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے مودی سرکار اینڈ پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔طرفہ تماشا یہ کہ کئی نصابی کتابوں میں ہندوقوم پرست ودہشت گرد جماعت آر یس یس کے بانی کے ایچ ہیڈ گوار کی ایک اشتعال انگیز تقریر کو نصاب میں شامل کردیا گیا ہے۔
اسی تبدیلی کو لیکر ریاست بھر احتجاجی مظاہرے کئے گئے لیکن ان مظاہروں کا کوئی فائدہ ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ادباء اور شعراء بھی سڑک پر اتر آئے لیکن ہوا کچھ نہیں۔لگتا ہے وکاس کے نام پر فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے جب کہیں کچھ ہوتا ہے تو سب کہتے ہیں کہ ہندوستان جل رہا ہے لیکن واقع آج کل ہندوستان مودی کے اگنی پتھ یوجنا کی آگ میں جل رہا ہے پتہ نہیں یہ آگ تھمے گی بھی یا نہیں؟ریلوے کا کروڑوں کا نقصان ہوچکا اب اس کی بھر پائی اور تلافی کب,کیسے اور کون ان سب کا ذمہ دار؟شاید وزیر اعظم نے جس اچھے دن کا وعدہ کیا تھا وہ یہی اچھے دن ہیں,,,,,ایک سے ایک وعدے کئے گئے وہ تمام دیرینہ وعدے نقش برآب سے زیادہ وقیع ثابت نہیں ہوئے۔
یہ تو ہماری ریاست کی بات تھی آئیے اب نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ (ین سی ای آرٹی) کی بات کرتے ہیں اب تک یہی خیال تمام کے ذہن میں گردش کرتا تھا کہ ین سی ای آر ٹی حکومت ہند کا ایک منظم وجمہوری تعلیمی شعبہ ہے لیکن ہائے شامت کہ اس میں بھی آر یس یس نے اپنی بالادستی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ین سی ای آر ٹی کی تیار شدہ کتابوں کے اسباق بھی بدل رہی ہے ہمارا اتہاس پارٹ ٹو کے اسباق سے دہلی سلطنت سے جڑے ہوئے کئی صفحات حذف کردئے گئے دوسرا ایک چپٹر کا نام مغل سامراج تھا اس میں ترمیم کرکے صرف مغل کردیا گیا اور اسی طرح اکبر بادشاہ کے امور انتظامیہ سے متعلق اوراق کو بھی مسخ کردیا گیا۔دہلی سلطان چپٹر کو ہٹاکر دہلی 12 ویں صدی سے 15 ویں صدی تک کردیا گیا۔مذہبی فرقہ واریت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ین سی ای آر ٹی کے ذمہ داروں نے راجپوت,سکھ, مراٹھا اور جاٹ کے متعلق ابواب کو یو ں ہی برقرار رکھا۔اس کے علاوہ اور کافی ترمیم واضافہ مسخ ونسخ کیا گیا جس کی داستان غم کافی طویل ہے۔نصابی کتابوں پر نظر ثانی کا بہانہ بناکر اقلیتوں کے کارناموں کو تاریخ کے صفحات سے مٹاکر ظلم وستم کی نئی داستان رقم کی جارہی ہے جمہوریت کا جنازہ نکالا جارہاہے۔الغرض بھارت پر ایک غیر مذہبی دستور کی حکومت ہے جو یہاں کے شہریوں کی جان ومال عزت وناموس اورمذہب وملت کے تحفظ کی پوری پوری ذمہ داری قبول کرتی ہے اب یہ تمام مسطور بالا عبارت صرف اور صرف صفحات وقرطاس کی زیت وزینت بن کر مسکرارہی ہوگی آخر ہندوستان کا جمہوری نظام کہاں؟؟؟؟؟؟