متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن

ریاست کرناٹک کا اسمبلی الیکشن سر پر گھڑا ہے۔ انتخابی ریلیاں اپنے اپنے جوش وجذبے کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ ہر سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا جلوہ وجادو دکھانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ایک سے ایک وعدے کئے جارہے ہیں۔ کوئی بجلی مفت دینے کی بات کررہا ہے۔ تو کوئی گیس سلنڈر فراہم کرنے کی بات کررہا ہے۔ ایک سے ایک سیاسی منشور شائع کئے جارہے ہیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں۔ کاش ان وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تو ریاست کیا پورا ملک ترقی کی شہ راہ عام پر گامزن ہوتا۔ وکاس کا خواب دکھاکر مہاوناش کیا گیا۔ سب کا ساتھ ''کی آشا کرن دکھاکر قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا کریا کرم کردیاگیا۔ملک آج کل فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے۔کہیں جل کر بھسم نہ ہو جائیں۔ ان سنگین حالات پر لکھ لکھ کر قلم کی نوک بھی گھس گئی ہے۔ درد والم تو اتنا ہے کہ دل بھی پریشان وحیران ہے کس پر ماتم کریں اور کس پر نوحہ کریں کیا خوب کہا شاعر نے

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا 
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی 
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے

درد والم کی کہانی سنانا ہمارا مقصد نہیں۔ کیونکہ درد بھی تڑپتے تڑپتے خاموش مزاجی کا خوگر بن چکا ہے۔ اب درد سنانے کا وقت نہیں بلکہ انقلاب بپاکرنے کا حسین موقع ہے۔اگر اس الیکشن میں تھوک کے بھاؤ میں مسلمان اپنے جمہوری وآئینی حق ووٹ کو بیچ ڈالے  تو آنے والا وقت کبھی اسے معاف نہیں کریگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان پورے ہوش و حواس کے ساتھ ووٹ کا استعمال کریں۔ اور ابھی سے ووٹنگ کی تیاری میں لگے رہے۔ جو بیرون ریاست کام کاچ کرتے ہیں تو دس تاریخ سے پہلے اپنے اپنے حلقے میں پہنچ کر ووٹنگ لسٹ میں اپنا نام ہے یا نہیں جانچے اور اگر نہیں تو نام اندراج کرنے کی کوشش کریں اور کسی بھی طرح اپنا ووٹ برباد نہ کریں اس لیے کہ ایک ووٹ کو بھی کافی اہمیت حاصل  ہے۔ کبھی کبھی ایک ووٹ سے حکومت بنتی ہے تو کبھی ایک ووٹ کی کمی سے حکومت گرجاتی ہے۔

 آج کل اداریوں اور فیچرز میں بھی کافی اچھے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ووٹ کی شرعی حیثیت اور قانونی حیثیت کو خوب اجاگر کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب وقت کی ضرورت بھی ہے۔ووٹنگ کی اہمیت وافادیت سے مجھے قطعی انکار نہیں۔ جہاں ووٹنگ کی اہمیت ہے وہیں امت مسلمہ کو اتحاد واتفاق کا مظاہرہ بھی کرنا ضروری ہے۔ فرقہ بندیوں کو ختم کرکے ایک پلاٹ فام پر جمع ہوکر ملت کے وجود کے لئے کام کریں۔ اور اپنی زندہ دلی کا احساس دلائیں۔ آپسی انتشار وخلفشار کو ختم کرکے ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار اور ملک کی جمہوریت اور سا  لمیت کا  محافظ ہو۔ جو فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کرتا ہو۔ جو قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بات کرتا ہوں۔ جو نفرت کی بازار میں محبت کی دکان کھولنا چاہتا ہو۔ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قوم وملت کی فکر کریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ نہ تم رہوگے نہ تمہارا مسلک۔

آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو قوم اتحاد واتفاق کے لیے بھیجی گئی تھی وہیں قوم آج بری طرح باہمی انتشار سے دوچار ہی نہیں بلکہ آپس  میں دست وگریباں ہے۔ مسلم سماج میں اختلافات کی لہر سمندروں کی تلاطم خیز امواج کی طرح جاری وساری ہے۔ کہیں مسلکی اختلافات تو کہیں مشربی اختلافات ہیں۔ کہیں خانقاہی اختلافات تو کہیں ذاتی اختلافات ہیں۔ اختلافات کے گھنے جنگل میں مسلم قوم ایسے پھنسی ہے کہ نکلنا دشوار ہے۔ اسی اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں 

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں 

مسلکی اختلافات کے ہم منکر نہیں ہیں بلکہ وہ اختلافات مسلک تک محدود رہنا چاہیے۔ ملت کی ترقیاتی منصوبوں میں کبھی وہ حائل نہ ہوں۔ اختلاف ہر سماج میں فطری بات ہے لیکن اختلاف اختلاف کے حد تک رہنا چاہیے۔ اگر ایسا  ہو تو کوئی بات نہیں۔ لیکن ہائے افسوس کہ مسلم قائدین کے اختلافات کو بر سر بازار اچھالا جاتا ہے۔ پھر وہی اختلافات ذاتیات پر حملے کا سبب بن جاتا ہے۔ انہوں مذکورہ باتوں کی وجہ سے امت کے ما بین شیرازہ بندی نا ممکن تصور کیا جاتا ہے۔تو جملے مسلمانوں سے ہماری اپیل ہے کہ اس بار الیکشن میں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری پارٹیوں کو ووٹ دیکر ریاست کو مضبوط کریں۔ فرقہ پرستوں اور تعصب پرستوں سے دور رہیں اور فرقہ واریت کی بات کرنے والوں کو سبق سکھائے۔ اگر اس بار نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ کاش کے امت مسلمہ سے اختلافات ختم ہوجائیں کیونکہ

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی  ایک
 حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

اس لئے ریاست کے الیکشن میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹ کو رائگاں کئے بغیر جمہوری پارٹیوں کو جتانے کی کوشش کریں اور یہ فرقہ پرست حکومت جو تخت نشین ہے اسے ریاست ہی سے نہیں بلکہ ملک ہی سے اگھاڑ پھینکے۔یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم متحد ہو جائیں جیسے کہ شاعر نے کہا 

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن 
منتشر ہو تو مرو چلاتے کیوں ہو

اللہ ہماری صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا کرئے آمین

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter