بهاجپا کا نیا جادو ''مودی منتر''کامیاب ہوگا یا نہیں ؟؟؟؟

ریاست کرناٹک میں انتخابی بگل بجتے ہی ہر پارٹیاں اپنا اپنا روڑ شو دکھانے لگیں۔ہر سیاسی پارٹی عوام کو پیلے خواب دکھانے لگی ہیں۔ کوئی روزگاری کی بات کررہا ہے تو کوئی مفت پانی وبجلی کی بات کررہا۔ کوئی خواتین کو پینشن کا وعدہ کررہا تو کوئی نوجوانوں کو روشن مستقبل کا سپنا دکھارہاہے۔ آپ سمجھتے ہونگے آخر یہ بندہ کس پارٹی کا علمبردار ہے تو سنئے ہم اس پارٹی کے علمبردار وحامی ہیں جو بلا تفریق ومذہب اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کے سماج اور سوسائٹی کی خدمت کریں۔کچھ سیاست دان تو ایسے ہیں جو صرف سیاسی ریلیوں میں نظر آتے ہیں باقی اوقات میں کسی گدھے کی سینگ کی طرح غائب رہتے ہیں۔ نہ انہیں عوام کے مسائل سے دلچسپی نہ ریاست کی ترقی کی فکر۔ بس انہیں کسی چیز کی فکر ہے تو اپنی تجوری اندوزی کی اس کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کتنے ایسے سیاست دان کو ہم جانتے ہیں جو ووٹ کے خاطر عوام کے سامنے سربسجود نم دیدہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے چیلوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے رہتے ہیں۔ جیسے ہی عوام سے اوجھل ہوئے تو عوام کو اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں۔
الیکشن آتے ہی جگہ جگہ ریلیاں، گلی گلی جلسے جلوس،اسٹیجوں پر بھانت بھانت کی بولیاں۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ اس ڈھونگ تماشے کے درمیان سیاست دان مگرمچھ کی آنسو بھی بہاتے تھکتے نہیں۔آخر یہ شاطر سیاستدان بھولی عوام کو الو بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے پہلے روڑوں اور سڑکوں پر احتجاج کرینگے لیکن جب الیکشن آتا ہے تو ہر پارٹی کے تئیں ہمدردی کا  مثبت رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت نہ مہنگائی کی یاد ، نہ رسوئی سیلنڈر کی قیمت کی فکر، ان سب کے پیچھے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی جی کی مٹھاس بھری تقریریں اور رس گھولنے والا وکاس کا نعرہ کارفرما ہے۔
بھاجپا کے اقتدار کے اس طویل مدت میں مسلمانوں کو کیا ملا؟؟ تو جواب سنئے ناکامیاں، محرومیاں، پامالیاں،اضطراب مسلسل، شکست پیہم، مایوسیاں اور لرزہ خیز مظالم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
پھر یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے مسلمانوں نے کیا کیا؟؟ تو سنئے ان سنگین مرحلوں میں بھی مسلمانوں نے کبھی نہ جلوس نکالا، نہ احتجاجی مظاہرے کئے، ریل لائن کی پٹریاں اکھاڑیں، نہ ٹرینوں وبسوں کو جلایا، نہ نظام حکومت میں کہیں تعطل پیدا کیا، نہ سرکاری املاک اور ارباب وطن کی جاگیروں کو کوئی نقصان پہنچایا، ان سب کے باوجود بھاجپا اور آر یس یس نے مسلمانوں کو کٹھ پتلی سمجھ کر ان کی زندگیوں سے ہولی کھیلی۔ صرف مسلمان ہونے کا الزام آر یس یس اور دہشت گرد ہندوتوا تنظیموں کے لیے زندگی کے سارے حقوق سے یک لخت  محروم کردینے کے لیے کافی تھا ۔مآب لانچنگ اور گئو رکشوں کے نام پر ہزاروں بے گناہوں کو سر عام درندوں کی طرح قتل عام کیا۔ ہنوز ان آدم خور درندوں کی آنکھوں میں خون کی سرخی اور ارادوں میں بہیمانہ تشنگی باقی ہے۔ ان روح فرسا حالات میں بھی ہمارے کرم فرما وزیر اعظم نے کچھ نہیں کہا نہ مجرموں کے خلاف نہ مظلوموں کی پکش میں۔ جناب کے منہ پر رام مندر کا بڑا تالا لگا ہوا تھا۔ اور یہ اتنی شرمناک اور سنگین فروگذاشت ہے جیسے آنے والا مؤرخ کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہم ان  مجرمانہ حرکات کو فراموش کرسکتے ہیں۔
آپ سوچتے ہونگے کہ قلم بے لگام ہوتے جارہا ہے بڑی معذرت کے ساتھ یہ سب قلم کی بے لگامی نہیں بلکہ دل کے نہاں خانوں میں بھڑکتے شعلوں کی چنگاریاں ہیں جو الفاظ کا پیراہن پہن کر آپ کے سامنے جلوہ بکھیر رہے ہیں۔
میں کافی دور چلاگیا میرا عنوان تھا مودی متر کا نیا پھندا۔ مودی سرکار ہمیشہ سے منافرت وتعصب کے پس پردہ حکومت کو مضبوط کرتی رہی۔ آج مسلم اقلیت کو بی جے پی قریب کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے بھاجپا نے نیا اسکیم نکالا جس کو وہ مودی متر کہتے ہیں۔ اس کی وضاحت بھی سن لیجئے بھارتی جنتا پارٹی لوک سبھا انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے مسلم ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ایک خاص منصوبہ بنایا ہے۔اسی کو مودی متر پلان یا اسکیم کہہ لیجئے۔پارٹی ملک کے 65 مسلم اکثریتی اضلاع میں اقلیتی برادری سے 5000 'مودی مِتر' بنائے گی، جو اپنے اپنے اضلاع میں مسلم ووٹروں کو پارٹی سے جوڑنے کا کام کریں گے۔ پارٹی نے 15 مارچ سے ہی ’صوفی سمواد مہا ابھیان‘ بھی شروع کیا ہے، جس کا مقصد صوفیوں سے دلی عقیدت رکھنے والے لوگوں کو بی جے پی سے جوڑنا ہے۔ بی جے پی ذرائع کے مطابق ان مودی متر کارکنوں کے ذریعے متعلقہ علاقوں میں ہر مسلم ووٹر کے گھر تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی، پہلے ضلعی سطح پر اور بعد میں بلاک سطح پر۔مرکزی حکومت کے کاموں اور پی ایم کے پیغام کو عوام تک پہنچا کر عوام کو بی جے پی سے جوڑنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔

ان سب کا مقصد بھارتی جنتا پارٹی کی کرسی بجانا ہے چاہے وہ پانچ ہزار مودی متر کے ذریعے ہو چاہے وہ صوفی ابھیان سے ہو چاہے صوفی سمیلن سے ہو۔ اس مودی متر پلان پورے ہندوستان میں نہیں بلکہ کچھ مخصوص علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ جس میں پورے ہندوستان میں اکثریتی مسلم علاقے اور اضلاع شامل ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے اتر پردیش کے مغربی حصے کے کیرانہ، رام پور، سہارنپور، بریلی، نگینہ، مراد آباد اور میرٹھ کے علاقے شامل ہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال کے بشیرہاٹ، کرشن نگر، مرشد آباد، بہرام پور، رائے گنج، ڈائمنڈ ہاربر، جہانگیر پور شامل ہیں۔ کیرالا کے وایناڈ، کاسرگوڈ، کوٹائم، ملاپورم اور اڈوکی اضلاع قابل ذکر ہیں۔ جموں وکشمیر کے لداخ علاقے بھی اس مودی متر منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔
اب سوال جو ہم نے عنوان میں قائم کیا ہے وہ مذکورہ بالا سنگین حالات کے پس منظر میں ہے۔ نہ ہم کسی پارٹی کے حامی ہیں نہ مخالف یہ جو کچھ بیان ہوا وہ سب ہندوستان کے اقلیت پر ہوئے دلخراش مظالم کی درد بھری داستان ہے۔ اس پس منظر میں ہم مسلم اقلیت سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ووٹ دیتے وقت پورے ہوش و حواس کے ساتھ نو سال کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے حاضر رکھ کر ووٹ دیں۔
اس وقت ان ملت فروش چاپلوس اور تملق پسند نام نہاد مسلم لیڈروں سے بھی ہوشیار رہیں جنہوں نے اپنی مفاد پرستی کے لیے پوری قومی غیرت کو گنگا کی لہروں میں دفن کردیا۔ اور ان کے جھوٹے وعدے نقش برآب سے زیادہ وقیع ثابت نہیں ہوئے۔ انہیں ملت فروش لیڈروں کی وجہ سے آج ہم پیہم فسادات اور خون رستے ہوئے زخموں اور بیتابیوں سے معمور بے یار ومددگار کھڑے ہوئے ماتم کناں ہیں۔ اور انتظار میں ہیں کہ کوئی مسیحا اور پرسان حال آئے گا۔ یہ غیروں کے درمیان مسلم مسیحا اور نمائندہ بن کر جاتے ہیں پھر چند دن کے بعد ان مسلم دشمن عناصر کے ہاتھ بک جاتے ہیں۔ آپ بحسن خوبی سمجھ گئے ہونگے ہم کس قائد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں عقلمند را اشارہ کافی است پھر کیا وہی ہوتا ہے جو شاعر نے کہا 


دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے 
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہمیں اپنوں نے لوٹا، غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا"
خدا اس قوم کا بھلا کرے

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter