بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
چند سالوں سے ہمارے پر امن ملک کی فضا کو مکدر اور مسموم بنانے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر دوسروں کے مذہب اور مذہبی شخصیات کو نشانہ بنا کر ان کی شان میں گستاخیاں اور اپنی سفلی خیالات کا برملا اظہار کرکے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا جارہا ہے۔ اور مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو مجروح کیا جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا پر یہ فرقہ پرست دہشت گرد اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف واہیات، ہذیان گوئیاں اور اناپ شناپ بکواس کرتے رہتے ہیں۔ صرف یہاں تک محدود نہیں گستاخی آمیز مواد بے تحاشہ وائرل بھی کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان فرقہ پرست دہشت گردوں پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں۔ آئے دن سوشیل میڈیا پر گوناگوں قسم کی بے ادبیاں اور توہین آمیز مواد اور ویڈیوز اپلوڈ کیے جارہے ہیں ان پر روک اور قدغن لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس کے برعکس طرح طرح کے بیہودہ بیانات سے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے اللہ اور رسول اللہﷺ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺپر تو ہماری جان بھی واری وقربان۔ ناموس رسالتﷺ کا مسئلہ خالص دینی معاملہ ہے، دیگر تمام معاملات چاہے وہ سیاسی ہوں، معاشرتی ہوں، ہمارے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ناموس رسالتﷺ کا مسئلہ حساس ہونے کے ساتھ ساتھ تمام دیگر معاملات سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔
ہمارا ملک جمہوری ملک ہے۔ بھلے یہاں اسلامی قوانین نافذ نہ ہوں لیکن پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن شان رسالتﷺ میں ذرا برابر توہین اور گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہماری جانیں حضور ﷺ کی ناموس کے خاطر قربان ہیں۔ تو حکومت اور اربابِ حکومت سے ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ جتنے گستاخان رسول ﷺ ہیں ان سب پر سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جائیں۔ انہیں بےجا کسی مذہب کو نشانہ بنانے کی کڑی سزا دی جائیں۔ اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ بیانات پر روک لگایا جائیں۔ مسلمانان ہند ان واقعات سے برہم ضرور ہیں۔ یہ غم وغصہ کہیں طوفان کی شکل اختیار نہ کرلیں۔ ہم جہاں اسلام کے نام لیوا اور علمبردار ہیں وہیں ملک کے آئین اور دستور کے بھی محافظ ہیں۔ لہذا دوسروں کی طرح قانون ہاتھوں میں اٹھانا نہیں چاہتے تو چاہیے کہ حکومت ان تمام مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل کر ملک کے امن وامان کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ یہاں پر کئی سالوں سے تعصب اور فرقہ واریت کی حکومت چل رہی ہے ہم یہ سب دیکھ کر بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہم نہ مفتی سلمان ازہری کو بھولے ہیں نہ ہم مولانا قمر غنی عثمانی کو فراموش کیے ہیں۔ صبر وشکیب کا دامن تھامے عدل وانصاف کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ اس امید قوی کے ساتھ کے کسی نہ کسی دن انصاف ملے گا۔
سڑکوں پر ہم بھی آنا جانتے ہیں۔ لیکن ہم جمہوریت کے پاسبان ہیں۔ دستور کے محافظ ہیں۔ اس ملک کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرنے کے لیے ہم نے ہر چیز کی قربانی پیش کی ہیں۔ برداشت ، صبر اور تحمل کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب پانی سر سے بہنے لگیں تو ہم مجبور بھی ہیں اور معذور بھی ۔ کیا خوب کہا علامہ اقبال نے
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
یہ معاملہ ہماری عزت وآبرو کا نہیں بلکہ ناموس رسالت ﷺ کا ہے۔ جو ہماری وجود سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ہمارے وجود کو کوئی مٹادیں اس کی ہمیں اتنی ہی فکر ہے جتنا ہمیں ناموس رسالت ﷺ کی ہے۔ کیونکہ ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت ہے اس لیے ہماری روحیں سکون نگر بن جاتی ہیں، اگر ہم کہیں شمس الضحیٰ ﷺ سے ہمیں پیار ہے توہمیں پھر بھی وجد وسرور کے جام ملتے ہیں۔ اگر ہم بولیں ہمیں ماہ مدینہ ﷺ سے عقیدت ہے توہمارے دلوں میں چاندنی تیز ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ذکر کریں کہ ہمیں سرور کونین ﷺ سے عقیدت و ارادت ہے توہمارے دل و دماغ پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے، مگر جب سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے چاند ﷺ کے بارے میں شوق کو عشق سے تعبیر کریں تو اس کا اپنا انداز ہے۔ عربی لغت کے مطابق جب محبت پختہ ہو جاتی ہے تو عشق کا روپ اختیار کر لیتی ہے، چنانچہ اعلی حضرت امام عشق و محبت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی لکھتے ہیں کہ عشق رسول ﷺ تو ایمان ہے، ایمان کی جان ہے، جان کا چین ہے اور چین کا سامان ہے۔ (عشق کی لہر)
جان ہے عشقِ مصطفٰی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
اللہ کی سر تا بہ قدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
ہم غلامئ سول ﷺ میں ہر دُکھ گوارا کریں گے؛ لیکن ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی کا معاملہ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ حکومت سے مطالبہ کرتے رہیں گے اور قانونی اقدامات سے گستاخوں کی گرفت کریں گے۔ باطل قوتوں اور فرقہ پرست دہشت گردوں کے مقابل اسلام اور پیغمبر اسلام کی ناموس کی حفاظت اور روایت و شعار کی بقا کے لیے ہم ناقابلِ تسخیر قوت بن کر اُبھریں گے۔ اور ان فرقہ پرستوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ ہم وزیر اعظم سے بالعموم اور مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ سے بالخصوص ایکناتھ شندے سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ گنگا گری سنستھان گوداوری دھام مٹھ کا بدنام مہنت رام گری مہاراج کو ناموسِ رسالت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا میں گرفتار کریں اور سخت سے سخت قانونی اقدامات کیے جائیں۔ جس کی توہین آمیز بیان کی وجہ سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ ریاست اور ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچانا ہر حکومت کی سیاسی ذمہ داری ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس توہین آمیز بیان کی پرزور مذمت بھی کرتے ہیں۔اس طرح چند سال پہلے جنہوں نے ناموس رسالت ﷺ کی شان میں توہین آمیز بیانات جاری کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا تھا یعنی گستاخ رسول ﷺ دریدہ دہن نوپور شرما، ملعون نوین کمار جندل، بدنام زمانہ پجاری یتی نرسنگھانند کو بھی گرفتار کریں اور انہیں بھی سزا دی جائیں۔جنہیں اس وقت مسلمانان ہند کے ملک گیر احتجاج اور عالمی دباؤ کے بعد بی جے پی نے گستاخ دریدہ دہن نوپور شرما اور ملعون نوین کمار جِندل کو پارٹی سے نکال دیا،کہا پارٹی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے، گستاخی کے دونوں مرتکبین نے بھی اپنی اپنی صفائی پیش کی ۔ہم کہتے ہیں کہ پارٹی سے نکالا جانا کافی نہیں، ان دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قانونی کارروائی کی جائے تبھی ملک میں امن وامان قائم ہوگا ورنہ ان درندوں کی طرح دوسرے بھی کھلے عام گستاخیاں کرتے رہیں گے اور ہم تماشائی بنے رہیں گے۔
لہذا مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بدنام ملعون رام گری مہاراج کو فوری گرفتار کریں اور نوجوانان اسلام سے اپیل ہے کہ قانون کو کسی میں موڑ پر ہاتھ نہ لگائیں۔ نہ قانون اور پرشاسن سے ٹکرائیں۔ نہ پولیس پر حملہ کریں، نہ ان پر پتھراؤ کریں بلکہ سنجیدگی اور متانت سے کام لیتے ہوئے۔ مجرموں کو سزا دلوانے کی کوشش کریں۔اور یہ احتجاجی جذبہ کہیں تھم نہ جائیں جب تک مجرموں کو گرفتار نہ کیا جائیں تب تک حکومت سے مطالبہ کرتے رہیں اور مسلسل ہر جگہ اس بدنام گری راج مہاراج کے خلاف آف لائن اور اون لائن ایف آئی آر درج کریں تاکہ اس کے خلاف ملک گیر گرفتاری کا وارنٹ نکلے۔خدا سے دعا ہے کہ مولی ان گستاخان رسول کو کیفرکردار تک پہنچائے اور ملک میں امن وامان قائم رکھے۔ آمین