جب آنکھیں اندھی اور دل پتھر ہو جائیں: غزہ کا نوحہ
غزہ جل رہا ہے، زمین تپ رہی ہے، فضا گولیوں اور بموں سے بوجھل ہو چکی ہے، بچے بلک بلک کر بھوک سے دم توڑ رہے ہیں، اور مائیں آنکھوں میں آنسو لیے بے بسی کی چادروں میں لپٹی بیٹھی ہیں۔ یہ صرف جنگ نہیں، یہ صرف ایک تنازعہ نہیں، یہ ایک مکمل نسل کشی ہے — ایک ایسا انسانی المیہ جس پر اگر انسانیت بھی خاموش رہے تو پھر اسے دفن کر دینا بہتر ہوگا۔ غزہ اس وقت رو رہا ہے، چیخ رہا ہے، فریاد کر رہا ہے، لیکن پوری دنیا نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے ہیں، اپنی آنکھوں پر پردے ڈال لیے ہیں، اور اپنے دلوں کو پتھر بنا لیا ہے۔
وہ اقوام متحدہ، جو انسانیت کے حقوق کی پاسداری کی قسمیں کھاتی ہے، آج چند قراردادوں اور مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ وہ عالمی طاقتیں جو کسی ملک میں بجلی بند ہونے پر ہنگامی اجلاس بلاتی ہیں، وہ غزہ میں ہزاروں بچوں کی اموات پر صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ وہ یورپی ادارے، جو آزادی اظہار کے علمبردار ہیں، آج غزہ کی تباہی کو "دفاعی اقدام" کہہ کر جواز بخش رہے ہیں۔
دنیا اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ ایک ماں کا نوحہ، ایک بچے کی چیخ، ایک باپ کا جنازہ ان پر کوئی اثر نہیں کرتا۔ ان کے لیے یہ صرف اعداد و شمار، گراف اور میڈیا کی جھلکیاں ہیں — لیکن حقیقت میں یہ ٹوٹے ہوئے دل، بکھری ہوئی زندگیاں، اور مرے ہوئے ضمیر ہیں۔ اور جب ہم مسلم امہ کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو دل اور بھی زیادہ زخمی ہو جاتا ہے۔ وہ امت جو ایک جسم کی مانند ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، آج اس جسم کے سب سے زیادہ زخمی حصے کو تنہا چھوڑ چکی ہے۔ عرب حکمران قیمتی اجلاسوں میں مصروف ہیں: تیل کے معاہدے، تجارتی تعلقات، سیاحتی ویزے اور کھیلوں کے میلے ان کی ترجیحات میں شامل ہیں — لیکن غزہ؟ غزہ کے لیے ان کے ہونٹوں پر دو لفظ بھی نہیں آتے۔ OIC کی قراردادیں محض کاغذوں میں مقید رہ جاتی ہیں اور امت کے نوجوانوں کا جذبہ میڈیا کے شور میں دب جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے سائے میں بہتا ہوا خون ان کے فیصلوں کو متاثر نہیں کرتا۔ امتِ مسلمہ آج جغرافیائی سرحدوں، اقتصادی مفادات اور سیاسی مصلحتوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اخوت، وحدت، اور غیرت جیسے الفاظ فقط تقریروں اور نصابوں میں باقی رہ گئے ہیں۔
آج اگر ایک فلسطینی بچہ روٹی مانگے تو اس کے جواب میں گولی دی جاتی ہے۔ اگر ایک ماں دوا مانگے تو اس کا جواب محاصرہ ہے۔ اگر کوئی انصاف مانگے تو اسے دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ دنیا نے ظلم کو قانون، اور مظلوم کو مجرم بنا دیا ہے۔ میڈیا کی زبان پر تعصب ہے، سیاست کی زبان پر منافقت، اور عالمی ضمیر پر پردہ ہے۔ کوئی چیخ سننے کو تیار نہیں، کوئی آنکھ اشکبار نہیں، کوئی ہاتھ مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ ہر طرف خاموشی ہے — ایسی خاموشی جو قتل سے بھی بدتر ہے۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے: مسلم امہ کی زبان کیوں گنگ ہے؟ وہ امت جو بدر و احد کے قصے سناتی ہے، آج ایک زخمی زمین کے لیے کیوں نہیں اٹھتی؟ وہ امت جو یتیم پر ہاتھ رکھنے کے اجر سے واقف ہے، آج یتیموں کی بستی پر ہونے والے مظالم پر کیوں چپ ہے؟ وہ امت جو محمد ﷺ سے عشق کے دعوے کرتی ہے، کیا ان کے امتیوں کا یہ حال دیکھ کر بھی خاموش رہے گی؟ اگر آج ہم نے غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی، اگر ہم نے ان معصوم بچوں، ان بیواؤں، اور زخمیوں کے لیے اپنے قلم، اپنے مال، اور اپنی زبان کو نہ جھنجھوڑا، تو کل تاریخ ہم سے سوال کرے گی — اور ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔
غزہ کا نوحہ ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے۔ یہ آواز صرف فلسطینیوں کی نہیں، یہ پوری انسانیت کی آواز ہے۔ یہ چیخ ہے مظلوموں کی، یہ صدا ہے ان سچائیوں کی جنہیں دنیا دبانا چاہتی ہے۔ یہ نوحہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جب آنکھیں اندھی ہو جائیں اور دل پتھر ہو جائیں، تو ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو لیتا ہے — اور یہی ہو رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں۔ اپنے ضمیر کو زندہ کریں۔ ایک جسم کی مانند بنیں، ایک آواز بنیں۔ غزہ کا خون ہمیں پکار رہا ہے — اور اگر ہم نے اسے نہ سنا، تو کل ہماری چیخیں بھی کوئی نہ سنے گا۔