امام احمد رضا عليه الرحمة کے تجدیدی واصلاحی کارنامے
امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان کی ذات ہمہ آیات آج دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ بلاشبہ آپ چودہویں صدی ہجری کے یگانہ روزگار اور علم وفضل کے پیکر ہیں۔ جس نے ملت اسلامیہ کے دور انحطاط وانتشار میں تقریباً علوم وفنون پر مشتمل ہزار سے زائد رشد وہدایت کے لعل وگہر اور سیف وسنان کے ساتھ رزم گاہ حق وباطل میں مشرکین وکفار، مرتدین اشرار، گمراہان فجار سے بر سرِ پیکار رہے اور اپنے جہاد بالقلم کے ذریعے باطل قوتوں کی دھجیاں بکھیر کر ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کے تجدیدی اور اصلاحی عمل کا مرکزی نقطہ نظر اور بنیادی نصب العین عظمت وحدت الوجود اور تحفظ ناموسِ رسالت تھا۔ بلا شبہ آپ ایک جید عالم، متبحر حکیم، عبقری فقیہ، صاحبِ نظر مفکر، بلند پایہ مترجم، عظیم الشان محدث، سحر البیان خطیب، ماہر فن ادیب اور روشن ضمیر خطیب تھے۔ ان تمام تر درجاتِ رفیعہ سے بالاتر ایک اور منصب عظیمہ پر فائز تھے وہ منصب تھا عاشق صادق رسول صادق کا۔ قسام ازل نے آپ کو سر چشمہ فیوض وبرکات اور عشقِ رسول سے اس قدر سرشار کردیا تھا کہ آپ کے رگ و پے سے عشق ومحبت کی خوشبو آتی تھی۔ عشقِ رسول کی سرمست مئے الفت کا خمار آپ کی نعتوں کے ہر ہر شعر میں جلوہ گر اور موجزن ہے۔ آپ نے اپنے زمانے میں دینی علوم کی ترویج کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں رائج امور بدعات و خرافات کا بھی بھر پور استحصال اور رد کیا اور انہیں بدعات و خرافات سے دور رہنے کا حکم دیا۔
آج مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک کے طوفان میں مسلمان عورتیں بھی بہہ نکلی ہیں۔ بے پردہ و بے حجابانہ شارع عام پر گھومنا، نامحرموں کے ساتھ اخلاط وتخلیط میں رہنا، نامحرم پیروں کے سامنے محرموں کی طرح سامنے آنا جانا، خدمات کرنا، ان تمام تر بدعات کی امام احمد رضا خان قادری نے سختی سے مخالفت کی اور عورتوں کے گھر سے نکلنے کے متعلق رسالہ تصنیف فرمایا۔ میت کے گھر مردوں عورتوں کو جمع ہوکر کھانا پینا اور میت کے گھر والوں کو زیر بار کرنے کے عدم جواز پر فتویٰ دیتے ہوئے "جلی الصوت لنھی الدعوت امام الموت" کے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا۔دور جدید میں تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والے مسلم گھرانوں میں جاندار کی تصویریں اور مجسمے لگانا تقریباً ضروریات سے تصور کیا جاتا ہے۔ امام احمد رضا خان قادری نے اس کی شرعی گرفت فرمائی کہ جاندار کی تصویر حرام ہے۔ چناچہ تصویر کے عدمِ جواز پر آپ نے "عطایا القدیر فی حکم التصویر" نامی رسالہ تحریر فرمایا۔ امام احمد رضا خان قادری نے معاشرے کی خلاف شرع عادات واطوار اور رسم و رواج پر گہری تنقید کی۔ آپ مزارات اولیاء پر حصولِ خیر وبرکت کے لیے جانا جائز قرار دیتے ہیں جبکہ عورتوں کے مزارات پر جانے کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پر جانا کیسا ہے؟ بلکہ یہ پوچھو کہ جب وہ گھر سے نکلتی ہے اور جب تک واپس نہیں آتی اس وقت تک فرشتے اس پر کتنی لعنتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں فاتحہ، سوئم، چہلم، برسی وغیرہ کا عام رواج ہے۔ امام احمد رضا خان قادری نے اس کو جائز و مستحسن قرار دیا۔ ساتھ ہی تعین یوم کو بھی سہولت و آسانی کی غرض سے جائز فرمایا لیکن غیر ضروری لوازمات اور متعین دنوں میں ہی زیادہ ثواب ملنے کے عقیدے کو ناجائز فرمایا اور "الجو الفائحہ لطیب التعین والفاتحہ" کے نام سے ایک جامع رسالہ تصنیف فرمایا۔ امام احمد رضا خان قادری مسلمانوں کی فاتحہ، سوئم، چہلم، برسی کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن اس میں غیر ضروری لوازمات کو بے اصل قرار دیتے ہیں۔ میت کے ایصالِ ثواب کے لیے غرباء کو فوقیت دیتے ہیں اور اس کے سخت خلاف ہیں کہ برادری کے لوگوں کو بلا کر اُنہیں کھانا کھلانے کا اہتمام کیا جائے۔ وہ قبروں پر لوبان، اگربتی وغیرہ جلانے کو مال کا اسراف قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک قبروں پر پھول ڈالنا اور ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے مگر ایک سے زائد کپڑے کی چادریں قبر پر ڈالنے سے منع کرتے ہیں اور چادر کے بدلے صاحب مزار کے نام کی خیرات کرنا اور فقراء کو کھانا کھلانا افضل قرار دیتے ہیں۔شادیوں، شب برات اور دوسری خوشی کے موقع پر آتش بازی کا رواج مسلمانوں میں بھی عام ہوگیا ہے۔ لیکن امام احمد رضا خان قادری نے اس کو قطعاً حرام قرار دیا اور ایسی شادیوں میں شرکت کی ممانعت فرمائی جہاں محرمات شرعیہ کا خطرہ ہو۔ امام احمد رضا خان قادری نے ایسے مواقع پر لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک خاص رسالہ جس کا تاریخی نام "ھادی الناس فی رسوم الاعراس" تحریر فرمایا۔ امام احمد رضا خان قادری نے ہر مرحلہ میں ملت اسلامیہ کی کامل رہنمائی فرمائی۔ آپ نے کما حقہ تجدید واصلاح کا حق ادا کیا اور مستقبل میں آپ کی بے مثل و بے نظیر تصنیفات ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرتی رہیں گی-
امام احمد رضا خان قادری کے کارناموں میں آپ کے فروغ اہل سنت کے لیے دس نکاتی فارمولہ بھی شامل ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: عظیم الشان مدارس کھولے جائیں اور باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔تاکہ قوم مسلم کا زیادہ سے زیادہ رجحان مدارس کی طرف ہو اور وہ اپنے عقائد کی حفاظت کر سکیں۔ لیکن اگر جائزہ لیں تو ہمارے مسلمان بھائی اپنے بچوں کو مدارس کے بجائے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں وہاں تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عمدہ نظم وضبط اور ان کے مستقبل پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ رہ گئے ہمارے مدارس تو گنتی کے ہی ہوں گے جہاں بہترین نظم وضبط کے ساتھ ساتھ تعلیم کے اعلیٰ زیور تعلیم سے طلبہ کو آراستہ کیا جاتا ہوگا اور ان کے مستقبل کا کوئی انتظام کیا جاتا ہوگا۔ ہم غور کریں کہ کیا ہم نے عظیم الشان مدارس کھولے یا کھلوائے؟ کیا ہم نے عظیم الشان مدارس میں کسی قسم کا تعاون کیا؟ کیا ہم نے اپنے مدارس میں باقاعدہ تعلیم کا انتظام کیا؟ کیا ہمارے مدارس کی تعلیم وتربیت کا نظم و ضبط درست ہے؟ دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں: مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔ اب ہم ذرا خود سے پوچھ لیں کہ کیا ہمارے مذہبی اخبار شائع ہو رہے ہیں؟ کیا ہم نے مذہبی مضامین شائع کرنے اور اُنہیں قیمتاً یا بلا قیمت تقسیم کرنے میں کوئی کوشش کی؟ یا ایسا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی، اُنہیں مالی مدد فراہم کی؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زمانے میں لادینی قوتوں نے اسلام اور اسلامی شخصیات کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہی کچھ امام احمد رضا خان قادری کے ساتھ بھی ہوا کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر یا نادانی میں امور بدعات و خرافات کو امام احمد رضا خان قادری کی جانب منسوب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر آپ کی کتب کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے کسی نئے دین کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ پوری زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوششیں کی۔ آج مزاراتِ اولیاء پر خرافات کی محفلیں سجائی جاتی ہیں، بعض لوگ ان خرافات کو امام احمد رضا خان قادری کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جو کہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔ اسی طرح آج کل کچھ لوگ عقیدت میں آکر مزارات کو سجدہ کرتے ہیں اور اسلام کے اصول سے بے خبر ہیں کہ ہماری شریعت نے غیر اللہ کے لیے سجدہ عبادت کو کفر و شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں امام احمد رضا خان قادری نے’’الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ ‘‘ کے نام سے ایک مبسوط رسالہ لکھا جس میں متعدد قرآنی آیات، چالیس احادیث مقدسہ اور تقریباً ڈیڑھ سو نصوص فقہیہ سے یہ ثابت کیا کہ عبادت کی نیت سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا شرک و کفر ہے اور تعظیم کی نیت سے حرام۔ اس کی دلیل میں آپ یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مخلوق کو جائز نہیں کہ وہ کسی کو سجدہ کرے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے"۔ (مدارک التنزیل) سجدۂ تعظیمی کی حرمت پر امام احمد رضا خان قادری فرماتے ہیں: ’’غیر خدا کو سجدہ عبادت شرک ہے، سجدہ تعظیمی شرک نہیں مگر حرام اور گناہ کبیرہ ہے، متواتر حدیثیں اور متواتر نصوص فقہیہ سے اس کی حرمت ثابت ہے، ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحریم پر چالیس حدیثیں روایت کیں اور نصوص فقہیہ کی گنتی نہیں، فتاوٰی عزیزیہ میں ہے کہ اس کی حرمت پر اجماع امت ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۲؍۵۶۵) کچھ لوگ کم علمی اور نادانی کی وجہ سے بڑے بڑے علماء کے آگے زمین کو بوسہ دیتے ہیں اس سلسلے میں امام احمد رضا خان قادری نے فرمایا: "یہ فعل حرام ہے لہٰذا! یہ فعل کرنے والا اور اس سے خوش ہونے والا (دونوں) گنہگار ہیں، اس لیے کہ یہ کام بت کی عبادت سے مشابہت رکھتاہے"۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے والا کافر ہو جائے گا یانہیں؟ اگر اس نے یہ کام بطورِ عبادت کیا اور اس کی تعظیم کی تو بلا شبہہ کافر ہوگیا اور اگر تعظیم و بزرگی کی خاطر ایسا کیا تو کافر نہ ہوا لیکن پھر بھی گنہگار ہوا۔ گناہ کبیرہ بجالانے والا ہوا۔ ( فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍۴۱۲)
آج کل اولیاء اللہ اور بزرگوں کے مزارات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ عقیدت میں مزار کو بوسہ دیتے ہیں اور بعض لوگ جہالت کی انتہا کر دیتے ہیں کہ مزار کا طواف شروع کر دیتے ہیں۔وہ اپنی اندھی عقیدت میں سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کی شریعت نے قطعی اجازت نہیں دی۔آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے- مزار کو بوسہ دینا نہ چاہیے، علماء اس میں مختلف ہیں اور بہتر بچنا اور اسی میں ادب زیادہ ہے"۔ (فتاویٰ رضویہ: ۹؍ ۵۲۸) ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں: "بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کو اختلاف ہے اور احوط منع ہے۔ خصوصا ًمزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو یہی ادب ہے پھر تقبیل کیونکر متصور ہے"۔ (فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۳۸۲) اسی طرح روضۂ رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے متعلق امام احمد رضا خان قادری فرماتے ہیں:" روضہ انور کا طواف نہ کرو، نہ سجدہ کرو، نہ اتنا جھکو کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے"۔ (فتاویٰ رضویہ: ۱۰؍ ۷۶۹) امام احمد رضا خان قادری سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بے کار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں۔ (احکام شریعت :حصہ اول ص۷۲) اسی طرح بعض لوگ مزارات پر جاکر بزرگوں کی قبروں کے سامنے نماز شروع کر دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ قبروں کے سامنے نماز پڑھنا جائز ہے۔ ان کے اس قبیح فعل کو بعض حضرات امام احمد رضا خان قادری کی طرف منسوب کر دیتے ہیں کہ یہ آپ کی تعلیمات کا حصہ ہیں اور آپ نے اپنی تحریروں میں اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر امام احمد رضا خان قادری کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات چڑھتے سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے فتاویٰ یا ملفوظات میں کہیں بھی اس امر کے جواز کا قول تحریر نہیں کیا۔اس امر کے حرام ہونے کے سلسلے میں آپ احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ابومرثد غنوی رضی الله عنہ سے روایت ہے؛رسول الله صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو نہ ان پر بیٹھو"۔(مسلم وترمذی بحوالہ فتاویٰ رضویہ : ۲۲؍ ۴۵۱۔ ۴۵۲) بزرگوں سے اظہار عقیدت کا ایک طریقہ بعض لوگوں نے یہ بھی ایجاد کیا کہ ان کے فرضی مزارات بنانا شروع کرکے ان کی تعظیم شروع کردی۔ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اپنے زمانے میں اس پر خوب تنقید و تنکیر فرمائی۔ آپ سے سوال ہوا کہ کسی ولی اللہ کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب ولحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کو فرضی مزار بنانے کی خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل سا معاملہ کرنا ناجائز وبدعت ہے اور خواب کی بات خلافِ شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی۔( فتاویٰ رضویہ: ۹؍ ۴۲۵) اسی طرح قبروں پر چراغ اور اگربتی جلانا ایک معمول بن گیا اور لوگوں میں یہ رواج بہت عام ہوگیا ہے۔کچھ لوگوں نے اس امر کو مردے کے لیے باعثِ تسکین سمجھا۔ امام احمد رضا خان قادری فرماتے ہیں: قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے۔ عود، لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ اس امر کی دلیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں: رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ رکھنے والوں پر لعنت فرمائی۔ (ترمذی) اس حدیث کی تشریح میں آپ فرماتے ہیں: یہ لعنت ان لوگوں پر ہے جو بغیر کسی فائدہ کے قبروں پر چراغ جلاتے ہیں ورنہ اگر کوئی قبر کے پاس چراغ اس لیے روشن کرے کہ وہاں آنے جانے والوں کے لئے روشنی ہو یا کوئی وہاں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہے تو ایسی صورت میں منع نہیں ہے۔ لیکن احتیاط اس میں بھی یہ ہے کہ چراغ یا شمع کو قبر کے اوپر نہ رکھا جائے بلکہ قبر سے تھوڑا دور رکھا جائے۔(فتاویٰ رضویہ: ۹؍ ۴۹۱) اسی طرح دور حاضر میں کم علمی اور جہالت کی بناء پر خواتین اولیاء الله اور بزرگانِ دین کے مزارات پر جاتی ہیں۔ بعض حضرات نے اس کو بھی امام احمد رضا خان قادری سے منسوب کردیا کہ انہوں نے عورتوں کو مزارات پر جانے کی اجازت دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ سے خواتین کے مزارات پر جانے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس سے منع فرمایا اور سخت تنکیر فرمائی۔اس سلسلے میں آپ اپنے ملفوظات میں صاحب غنیہ کا قول نقل کرتے ہیں: یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پرجانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے الله تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحبِ قبر کی جانب سے۔جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک وہ واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے ہیں۔ (غنیۃ المتملی بحوالہ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت : ص ۳۱۵) اسی طرح اندھی عقیدت کی بناء پر اکثر بے پردہ خواتین کا پیروں، فقیروں اور بزرگوں کے پاس رش لگا رہتا ہے۔ وہ اپنے معمولی معمولی سے مسائل ان سے حل کروانے کے لئے چلی جاتی ہیں۔ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا اگر کوئی عالمِ شریعت اور واقفِ طریقت بھی ہو پھر بھی اس کے پاس خواتین کا بے پردہ ہوکر جانا جائز نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے مزید وضاحت فرمائی کہ پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جوان عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے۔(فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۲۰۵)طآ گے فرماتے ہیں: جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا ًحرام ہے خواہ وہ پیر ہو یا عالم۔ (فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۲۳۹۔ ۲۴۰)
تعلیماتِ امام احمد رضا خان قادری کی روشنی میں روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ خواتین کا بے پردہ ہوکر پیروں، فقیروں، ملنگوں یہاں تک کہ رہبر شریعت وطریقت کے پاس جانا بھی جائز نہیں۔ بعض لوگ وظائف میں قرآنی آیات اور سورتوں کو معکوس (یعنی الٹا) پڑھتے ہیں، اس سلسلے میں آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے اس امر کے حرام ہونے کے متعلق فرمایا: یہ حرام ہے اور اشد حرام، کبیرہ اور سخت کبیرہ قریب کفر ہے۔ یہ تو درکنار سورتوں کی صرف ترتیب بدل کر پڑھنا اس کی نسبت تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: کیا ایسا کرنے والا ڈرتا نہیں کہ الله تعالیٰ اس کے قلب کو الٹ دے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص ۳۵۴) بعض مذہبی طبقوں کی جانب سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں جو بدعات وخرافات رائج ہیں وہ امام احمد رضا خان قادری کی تعلیمات ہیں۔ درحقیقت یہ سراسر بددیانتی اور جھوٹ ہے۔تعصب کی عینک اتارکر حقیقت کی نظروں سے دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ اس طرح کی خرافات اور بدعات کا بھرپور رد بلیغ فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی کوششیں اسلام میں نت نئی بدعات ایجاد کرنے کے بجائے ان کو ختم کرنے کے لئے ہوتی تھیں۔ لیکن آج آپ کے اور آپ کے عقیدت مندوں کے متعلق بدگمانی کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔ ان بدگمانیوں کی وجہ سے آج امت مسلمہ فرقوں در فرقوں میں بٹتی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بے بنیاد الزام تراشی سے پہلے ان کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کے بجائے اتفاق و اتحاد پیدا کیا جائے-