نکاح میں سادگی: سنتِ نبوی ﷺ اور اسراف سے اجتناب

دینِ اسلام ایک ایسا کامل و جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہےجس میں انسانی زندگی کے تمام معاملات، چاہے وہ معاشرتی ہوں، سماجی ہوں یا اقتصادی، سب کے لیے واضح اصول و ضوابط موجود ہیں۔ اسلام نے انسان کو نہ صرف عبادات کا طریقہ سکھایا بلکہ باہمی تعلقات، اخلاقیات، رہن سہن، معاملاتِ زندگی اور معاشرتی روابط کے بھی بہترین اصول بیان کیے ہیں -اسلام نے جہاں عبادات کا ایک منظم نظام دیا ہے، وہیں معاملاتِ زندگی کے لیے بھی اصول وضع فرمائے ہیں۔ انہی میں سے ایک نہایت اہم اور بابرکت اصول نکاح ہے۔ نکاح نہ صرف انسان کی فطری ضرورت ہے بلکہ یہ ایمان کی تکمیل کا بھی ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

جس شخص نے نکاح کیا، اس نے اپنا آدھا ایمان مکمل کر لیا۔ اب اُسے چاہیے کہ باقی آدھے کے لیے اللہ سے ڈرے۔ )     مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح(

اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

نکاح میری سنت کا حصہ ہے لہٰذا جو میری سنت پر عمل نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ شادی کر لو، کیونکہ میں تم میں سے قوموں سے بڑھ کر رہوں گا اور جس کے پاس استطاعت ہے وہ شادی کر لے اور جو نہ پائے۔ اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ روزہ اس کے لیے اجر ہے نکاح انسان کی فطری ضرورت ہے. اسلام نے نکاح کو نہ صرف ایک معاشرتی معاہدہ قرار دیا بلکہ اسے عبادت کا درجہ بھی عطا فرمایا اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے

وَمِنْ آیَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ )   (سورۃ الروم(21

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

یہ آیت نہ صرف ازدواجی زندگی کی فطری حقیقت بیان کرتی ہے بلکہ یہ بتاتی ہے کہ نکاح انسان کے سکونِ قلب، باہمی محبت، اور رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔

اسی طرح سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

> فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ)سورۃ النساء( 3

ترجمہ:ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں، دو دو، تین تین اور چار چار۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح ایک عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔ نکاح کے ذریعے انسان اپنی فطری خواہش کو پاکیزہ طریقے سے پورا کرتا ہے، نسلِ انسانی کا تسلسل برقرار رکھتا ہے، اور معاشرتی فساد سے محفوظ رہتا ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں صرف مرد پیدا فرماتا اور عورتوں کو کسی دوسری مخلوق، مثلاً جنّات یا حیوانات، سے پیدا فرماتا تو انسان کبھی سکون نہ پاتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسانوں ہی کی جنس سے عورتیں پیدا فرمائیں تاکہ باہمی انسیت اور قربت قائم ہو۔

نکاح کی حکمت یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت، ہمدردی، اور رحمت قائم ہوتی ہے , وہ ایک دوسرے کے لیے سکون، راحت اور تکمیلِ زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی رشتہ ایک صالح خاندان اور مضبوط امت کی بنیاد ہے۔

نکاح کیسا ہونا چاہیے؟  

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے اچھا نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ میں ہو ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے اچھا نکاح وہ ہے جو حسب نسب مال اور دیانت داری کے حساب سے ہو مگر افسوس کہ آج مسلم معاشرہ پورا اس کی مخالفت کر بیٹا ہے آج انسان اس نکاح کواچھا مانتا ہے جس میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ ہو، حالانکہ یہ اسلامی لحاظ سے بالکل غلط ہے کیونکہ نکاح میں اگر زیادہ خرچ کریں گے تو اسراف پایا جاتا ہے اور شریعت مطہرہ میں اسراف بالکل حرام ہے کیونکہ خدا تعالی نے اسراف کے بارے میں قران شریف میں ارشاد فرمایا کہ بے شک زیادہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔

تو ہم کو اس سے سمجھنا چاہیے کہ نکاح میں اسراف نہ کریں بلکہ جتنے کم خرچ میں ہو اپنا نکاح کرنے کی کوشش کریں آج کل یہ رواج بن گیا ہے کہ لوگ بارات لے کے جاتے ہیں تو پان پان سو ہزار ہزار لوگوں کی تعداد میں جاتے ہیں حالانکہ یہ شریعت کی رو سے بالکل غلط ہے کیونکہ یہ ایک طریقے کا لڑکیوں کے گھر والوں کے اوپر بوجھ ہے اور بعض دفعہ تو ایسا بھی دیکھنے کو آتا ہے کہ کچھ لوگ بے شرم بے حیائی کے ساتھ لڑکیوں سے جہز مانگتے ہیں جو کہ اسلام میں بالکل سخت ناجائز و حرام ہے۔

جہیز اور غیر اسلامی رسم و رواج کی خرابی:

اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے سادگی کو سنت قرار دیا اور کبھی اپنی ازواجِ مطہرات یا بیٹیوں سے جہیز طلب نہیں کیا۔ آج کے دور میں جہیز مانگنا ناجائز، حرام اور ظلم ہے، جو نہ صرف گناہ کا سبب بنتا ہے بلکہ لڑکی کے خاندان پر معاشی و ذہنی بوجھ بھی ڈال دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس غیر اسلامی رواج سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے روکیں تاکہ معاشرے میں عدل و برابری قائم ہو۔

مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو سادگی، اعتدال اور سنتِ نبوی کے مطابق ہو۔ جب نکاح دکھاوے، فضول خرچی اور غیر شرعی رسموں سے پاک ہو تو وہ اللہ کی رحمت، محبت اور سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔ بدقسمتی سے آج نکاح کو عبادت کی بجائے نمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، جس سے برکت ختم اور نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ لہٰذا ہمیں نکاح کو سادہ، پاکیزہ اور دینی اصولوں کے مطابق بنا کر اپنی زندگیوں اور معاشرے میں حقیقی خوشی و برکت پیدا کرنی چاہیے۔)مرات المناجیح جلد 5 صفحہ ۱۱(

 

مہر کا نصاب:

حنفی مسلک کے مطابق مہر نکاح کے بنیادی ارکان میں سے ہے، جو عورت کے حقوق، نکاح کی برکت اور ازدواجی اخلاص کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اس کی کم از کم مقدار دس درہم (تقریباً 30.618 گرام چاندی یا مساوی قیمت) مقرر ہے، جو شرعی لحاظ سے لازمی ہے۔ مہر معجل ہو یا مؤجل، دونوں صورتیں جائز ہیں، اور اگر عورت خوشی سے مہر معاف کر دے اور شوہر قبول کرے تو وہ معاف ہو جاتا ہے، بشرطیکہ کوئی جبر یا دباؤ نہ ہو۔ مہر کی معافی میں دونوں فریق  کی رضامندی ضروری ہے، ورنہ عورت کو دوبارہ طلب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ احادیث اور فقہی کتب جیسے بہارِ شریعت، ردالمحتار، فتاویٰ امجدیہ وغیرہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہر کا کم اور آسان ہونا نکاح کی کامیابی، گھریلو سکون، اور والدین پر مالی بوجھ کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سادہ اور آسان مہر کو بہتر قرار دیا، اور علمائے کرام نے بھی اس کی تاکید کی ہے کہ نکاح میں مہر نہ صرف مالی حق بلکہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی سکون کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نکاح کے مہر کو شریعت کی روشنی میں سادہ، مناسب اور باہمی رضامندی کے ساتھ طے کرے تاکہ نکاح بابرکت، خوشحال اور دینی اصولوں کے مطابق  ہو۔

نکاح کی مشکلات اور ولیمہ کی سنت:

آج کے دور میں نکاح، جو اسلام میں ایک آسان، پاکیزہ اور بابرکت عمل ہے، فضول رسومات، دکھاوے، مہنگے جہیز اور غیر ضروری اخراجات کے باعث ایک مشکل اور بوجھ بن چکا ہے۔ شریعت نے نکاح کو سادگی، دین داری اور اخلاق کی بنیاد پر آسان بنایا ہے، مگر والدین کی دولت، حسب و نسب اور دنیاوی معیار کی خواہش نے اس عمل کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شادیوں میں تاخیر، مالی دباؤ، ذہنی پریشانی اور معاشرتی بے سکونی عام ہو گئی ہے۔ مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نکاح کو آسان، سنت کے مطابق، اخلاص اور توکل سے انجام دینا ہی برکت، محبت اور گھریلو سکون کا ضامن ہے۔

اسلام نے نکاح کے بعد ولیمہ کو بھی سنت مؤکدہ قرار دیا ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہو" (صحیح البخاری، ج2، ص280)۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ولیمہ بعد نکاح سنت ہے مگر سنن مستحبہ سے ہے" (فتاویٰ رضویہ، ج11، ص278)۔ علماء کے مطابق ولیمہ کا افضل وقت دخول کے بعد ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شبِ زفاف کے بعد صبح ولیمہ کیا۔ مشکوٰۃ المصابیح میں بھی آیا ہے کہ پہلے دن کا کھانا حق، دوسرے دن کا سنت، تیسرے دن کا ریاکاری ہے (مشکوٰۃ، ج2، ص591)۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دوسرے دن یعنی زفاف کے بعد ولیمہ سنت ہے جبکہ تیسرے دن کا کھانا صرف نمود و نمائش ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ نکاح اور ولیمہ دونوں کو سادگی، سنتِ نبوی ﷺ اور اعتدال کے ساتھ انجام دیں تاکہ ہمارے گھروں اور معاشرے میں محبت، برکت اور سکون پیدا ہو۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter