اسیران جمال مصطفی ﷺ کی خوش رنگینیاں
اس کائنات رنگ وبو میں جو کچھ حسن وجمال نظر آرہا ہے وہ سب سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال کا صدقہ ہے۔ محبوب پاک ﷺ کے جمال جہاں آراء کو آج تک کوئی بیان نہ کرسکا اور کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ جیسے کہ فاضل بریلوی فرماتے ہیں۔
اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مَدَّاحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مِدحت رسول اللہ کی۔
اسی معنی میں ایک عربی شاعر مولانا عمر لبا القاہری رحمہ الله فرماتے ہیں
بَـالَغَ الْمُدَّاحُ فِي أَوْصَافِهِ فَـمَا بَـلَغ
بَالِغٌ مِـعْشَارَ مَا أُوتِي بِمَا فِي الْبَالِ بَال۔
اسی لئے تو مداح رسول ﷺ علامہ بوصیری فرماتے ہیں۔
دَعْ مَا ادَّعَتْہُ النَّصَارٰی فِی نَبِیِّھِم
وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحاً فِیْہِ وَاحْتَکِمِ
فَانْسُبْ اِلٰی ذَاتِہِ مَا شِئْتَ مِنْ شَرَفٍ
وَانْسُبْ عَلٰی قَدْرِہِ مَا شِئْتَ مِنْ عِظَمِ
فَاِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللہِ لَیْسَ لَہُ
حَدٌّ فَیُعْرِبُ عَنْہُ نَاطِقٌ بِفَمِ
ترجمہ : عیسائیوں نے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السَّلام کے بارے میں جو دعویٰ کیا تھا (یعنی انہیں خدا یا خدا کا بیٹا کہا تھا) اسے چھوڑ دو اور اس کے علاوہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف میں جو چاہو کہو۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ذات کی طرف جو شَرَف چاہو منسوب کرو اور آپ کی قدر و عظمت کو جس قدر چاہو بلند و بالا کہو کیونکہ آپ کی فضیلت کی ایسی کوئی حد نہیں ہے جسے انسان بیان کرسکے۔یہ انسانی دماغ کی آخری رسائی ہے کہ تعریف کرنے والے سب آکر یہاں رک جاتے ہیں اور قلم کی نوک توڑتے ہوئے کہتے ہیں۔
تیرے تو وَصف عیب تناہی سے ہیں بَری
حیراں ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالِق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
فَمَبلَغُ الْعِلْمِ فِيْهِ انَّهُ بشَر وَانَّهُ خيْر خلْقِ اللهِ كُلِّهِمِ
آج ہم اس مختصر مضمون میں ان عظیم اسیران جمال مصطفیٰ ﷺ کے حسن کی تصویر کشی کو بیان کرینگے۔ جن کے ذریعے وہ اس جمال جہاں آرا کو اپنی بساط بشری کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو وہ اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔تو آئیے ہم صحابی رسول ﷺ شاعر رسول ﷺ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے شروع کرتے ہیں۔ تاکہ ہمارے اس مضمون میں محبت رسول ﷺ کے فوارے پھوٹنے لگے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔ لما نظرت الی انوارہ وضعت کفی علی عینی خوفا من ذھاب بصری“میں جب بھی حضور پر وقار ﷺ کے انوار وتجلیات کا مشاہدہ کرتا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لیتا اس لئے کہ روئے منور کی تابانیوں وضیاپاشیوں سے کہیں میری بینائی نہ چلے جائیں۔ حسن مصطفیٰ ﷺ کی دنیا میں کوئی تاب نہیں لا سکتا۔ پھر بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
واحسن منک لم ترقط عینی ِِ
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرءاََ من کل عیب
کاَنک قد خلقت کما تشاءِِ
اردو کے مشہور شاعر شاہد فاروق نے ان دلکش اشعار کا کچھ یوں ترجمہ کیا۔
نہ دیکھا میری آنکھوں نے کوئی تم سا حسیں جاناں
صدف نے تم سا اگلا ہی نہیں درِ ثمیں جاناں
تمہیں پیدا کیا ہر عیب سے یوں پاک فرما کر
کہ جیسے اپنی مرضی سے بنے ہو نازنیں جاناں
اور ایک جگہ حبیب پاک ﷺ کو چاند سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں
وَاللَهِ رَبّي لا نُفارِقُ ماجِداً
عَفَّ الخَليقَةِ ماجِدَ الأَجدادِ
مُتَكَرِّماً يَدعو إِلى رَبِّ العُلا
بَذلَ النَصيحَةِ رافِعَ الأَعمادِ
مِثلَ الهِلالِ مُبارَكاً ذا رَحمَةٍ
سَمحَ الخَليقَةِ طَيِّبَ الأَعوادِ
ترجمہ:مجھے اپنے پروردگار عالم کی قسم! میں کبھی حضور ﷺ سے جدائی اختیار نہیں کروں گا۔جو معزز ومحتشم، بہترین عادت کے خوگر، تمام سرداروں کے سردار ہیں آپ ﷺ۔ آپ عزت والے ہیں۔ اور اللہ تعالی کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔ آپ ﷺ خیر خواہ اور آپ کا گھرانہ حسب ونسب اور سخاوت وفیاضی کا سرچشمہ ہے۔ آپ چاند کی طرح ہیں، برکت ورحمت والے ہیں۔ بہترین اخلاق کے حامل اور عمدہ ودلآویز خوشبو والے ہیں۔
ایک دوسری جگہ اپنے دیوان میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ آپ کے جبین مبارک کی حسن دلفریب کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
مَتى يَبدُ في الداجي البَهيمِ جَبينُهُ
يَلُح مِثلَ مِصباحِ الدُجى المُتَوَقِّدِ
فَمَن كانَ أَو مَن قَد يَكونَ كَأَحمَدٍ
نِظامٌ لِحَقٍّ أَو نَكالٌ لِمُلحِدِ
یعنی جب تاریکی سمندر میں ان کی جبین مبارک ظاہر ہوتی تو ایسا لگتا کہ جیسے کوئی روشن جگمگاتا اور دہکتا چراغ نمایاں کردیا گیا ہے۔ پہلے لوگوں میں آپ جیسا کوئی نہ گزرا اور آئندہ بھی کوئی آپ ﷺ جیسا ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ حق کے محافظ اور باطل کا قلع قمع کرنے والے ہیں۔ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو حضرت حسان اس ہجر وفراق میں بے تاب ہوکر عرض کرتے ہیں کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِی
فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِر
مَن شاَءَ بَعدَکَ فَلْیَمُت
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اَحَاذِر
ان اشعار کا مشہور شاعر فاتح الدین بشیر نے کچھ یوں منظوم ترجمہ کیا کہ
تم کہ پتلی تھے میری آنکھوں کی
دیدے ویراں ہوئے تمھارے بعد
مجھے دھڑکا فقط تمھارا تھا
اب جو چاہے مرے تمھارے بعد
مزید تڑپتے ہوئے سوز و کیفیت میں فرماتے ہیں کہ
فَبَکِّی رَسُوْلَ اللّٰہِ یَا عَیْنُ عَبْرَۃٌ
وَلَاْ أعْرِفَنٰکِ الدَّھْرِ دَمْعَکِ یَجْمَدُ
وَ مَالَکِ لَاْ تَبْکِیْنَ ذَاالنَّعْمَۃِ اللَّتِیْ
عَلَی النَّاسِ مَنْہَا سَابِغٌ یَتَغَمَّدُ
فَجُوْدِیْ عَلَیْہِ باِلدُّمُوْعِ وَاَعْوِلِیْ
لِفَقْدِ الَّذِیْ لَاْ مِثْلُہٗ الدَّھْرَ یُوْجِدُ
وَ مَا فَقَدَ الْمَاضُوْنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ
وَلاَْ مِثْلُہٗ حَتّٰی الْقِیَامَۃِ یُفْقِدُ
کسی شاعر نے ان اشعار کا اردو میں کچھ اس طرح منظوم ترجمہ کیا ہے۔
سو، اب رسولِ خدا ﷺ کی جہاں سے رحلت پر
ہو اشک بار مری چشم غم زدہ تو بھی
یہ ایسا غم ہے جسے بھولنا نہیں آساں
نہ ہوں گے غالباً اب تیرے اشک خشک کبھی
یہ کیا ہوا تجھے، تو کیوں نہیں ہے گریہ کناں
نبی ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات کے غم میں
کہ تھی جو باعثِ اتمامِ نعمتِ باری
کہ جس کے فیض کے مرہون سارے انسان ہیں
تو خوب اشک بہا، میرے دیدۂ بیتاب
وفاتِ سرورِ عالم ﷺپہ چیخ چیخ کے رو
کہ جن کا مثل نہیں تھا کبھی زمانے میں
ملے گا مثل نہ جن کا کبھی زمانے کو
نہ کھویا لوگوں نے گزرے ہوئے زمانوں میں
رسولِ پاک ﷺ سا کوئی عظیم فردِ بشر
نہ اب کبھی کوئی ایسی عظیم تر ہستی
اٹھے گی منظرۂ زندگی سے تا محشر
یہ تھا حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بےتابییاں جس کو انہوں نے عشق رسالت مآب ﷺ کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اپنی عقیدت والفت کا اظہار کیا۔ اپنی بساط کے مطابق حسن مصطفی ﷺ کی عکاسی کرنے کی کوشش کی۔ شاعر ہونے کی حیثیت سے حسن کے متلاشی بھی تھے کئی بار حسن مصطفی ﷺ کے جلووں سے فیض یاب بھی ہوئے لیکن حسن کی تشنگی کبھی بجھی نہیں۔ اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کبھی وہ تشنگی بجھ بھی نہیں سکتی۔
اب آئیے تھوڑا اردو کلام سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اردو سنتے ہی دل میں رس کھل جاتی ہے اور زبان پر مٹھاس پیدا ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اردو عشق و محبت کی آفاقی زبان ہے۔ عشق مجازی سے لیکر عشق حقیقی تک محبت والفت کی داستان پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری کوتاہ نظر میں اردو کے ایک سے ایک سنخنوران زمانے گردش کر رہے ہیں لیکن ہم سب سے پہلے بر صغیر ہندوپاک کے عظیم نعت گو شاعر اور سچے عاشق رسول ﷺ کو پیش کرینگے۔ جن کے عشق رسول ﷺ کو اپنے تو کیا غیر بھی اعتراف کرتے ہیں۔ بر سبیل مثال ہم اس دعویٰ کے ثبوت میں دیوبندی مکتب فکر کے عظیم رہنما اور حکیم امت جناب اشرف علی تھانوی کا قول نقل کرتے ہیں ۔دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا شفیع دیوبندی سے میں نے سنا کہ جب مولانا احمد رضا صاحب کی وفات ہو گئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو آکر کسی نے اطلاع کی۔مولانا تھانوی بے اختیار دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔
حاضرین مجلس ہی میں سے کسی نے پوچھا کہ وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں!فرمایا:’’یہی بات سمجھنے کی ہے۔مولانا احمد رضا نے ہم پر کفر کے فتوے اس لیے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے۔اگر وہ یقین رکھتے ہوئے ہم پر کفر کا فتوی نہ لگاتے تو وہ خود کافر ہو جاتے اور وہ سچے عاشق رسول ﷺ تھے‘‘۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت،ص:7)۔
عشق رسول ﷺ کے سمندر میں ایسا غوطہ زن تھے کہ محبوب پاک ﷺ کے خلاف ایک جملہ سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ کسی نے سرکار کے بابت یتیم کہہ دیا تو آپ کا قلم سیال اس کے خلاف چل گیا اس کا تیور ذرا ملاحظہ کیجئے۔
:حضور اقدس قاسم النعم، مالک الارض ورقاب الامم،معطی منعم، قثم، قیم، ولی، والی، علی، عالی، کاشف الکرب، رافع الرتب، معین کافی، حفیظ وافی، شفیع شافی، عفو عافی، غفور جمیل، عزیز جلیل، وہاب کریم، غنی عظیم، خلیفہ مطلق حضرت رب، مالک الناس ودیان العرب، ولی الفضل جلی الافضال، رفیع المثل، ممتنع الامثال صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وآلہ وصحبہ وشرف اعظم کے شان ارفع واعلیٰ میں الفاظ مذکورہ کا اطلاق ناجائز وحرام ہے۔ایسے الفاظ شان اقدس میں استعمال کرنا حرام ہے۔اگر تنقیص ظاہر ہوتو کفر ہے( فتاویٰ رضویہ جلد 14 ص 625-626)
یہ صرف ایک نمونہ ہے۔ اگر آپ کی تمام تصنیفات کا جائزہ لیں گے تو عشق رسالت مآب ﷺ کا ایک عظیم وضخیم دفتر تیار ہو جائے گا۔
خود آپ فرماتے ہیں
کلکِ رضاہے خنجرِ خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
اب آئیے اس عاشق صادق نے اپنے محبوب کو کس کس انداز میں خطاب کیا۔ اور کن کن اشیاء سے تشبیہ دی دیکھتے ہیں آپ فرماتے ہیں۔
سر تا بقدم ہے تن سُلطانِ زَمن پھول
لب پھول دَہن پھول ذَقن پھول بدن پھول
وَاللہ جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عِطْر نہ پھر چاہے دُلہن پھول
دندان و لب و زلف و رُخِ شہ کے فِدائی
ہیں دُرِّ عدن ، لعلِ یمن ، مُشکِ ختن پھول
ایک دوسری جگہ اپنے محبوب ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے پرکیف وسرور ومستی میں کہتے ہیں۔
سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے
باغِ خلیل کا گلِ زَیبا کہوں تجھے
گلزارِ قدس کا گلِ رنگیں اَدا کہوں
دَرمانِ دَرْدِ بُلبُلِ شیدا کہوں تجھے
اللہ رے تیرے جسمِ منوّر کی تابِشیں
اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے
تیرے تو وَصف عیب تناہی سے ہیں بَری
حیراں ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
کہہ لے گی سب کچھ اُن کے ثناخواں کی خامُشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کے میں کیا کیاکہوں تجھے
اپنے محبوب کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
سب سے اَولیٰ و اعلیٰ ہمَارا نبی
سب سے بالا و وَالا ہمَارا نبی
اپنے مولیٰ کا پیارا ہمَارا نبی
دونوں عالَم کا دُولہا ہمَارا نبی
کیا خبر کتنے تارے کِھلے چھپ گئے
پر نہ ڈُوبے نہ ڈُوبا ہمارا نبی
سب چمک والے اُجلوں میں چمکا کیے
اندھے شیشوں میں چمکا ہمَارا نبی
کہیں محبوب پاک کی قدرت وتصرفات کو بیان کرتے ہوئے جھوم جھوم کر کہتے ہیں۔
عرشِ حق ہے مسندِ رِفعت رسول اللہ کی
دیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی
لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو مِلا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
سُورج اُلٹے پاؤں پلٹے چاند اِشارے سے ہو چاک
اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی
ٹُوٹ جائیں گے گنہگاروں کے فوراً قید و بند
حشر کو کھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی
قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نُور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی۔
حضور پر نور ﷺ کی سخاوت وفیاضی کو گوناگوں و مختلف دلفریب انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جن کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔
میرے کریم سے گر قطرہ کِسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں
واہ کیاجُود و کرم ہے شَہِ بَطْحا تیرا
نہیں ُسنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کِھلتے ہیں َ َسخا کے وہ ہے ذَرّہ تیرا
فیض ہے یا شَہِ تسنیم نِرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تَجَسُّس میں ہے دریا تیرا
اَغنیا پلتے ہیں دَر سے وہ ہے باڑا تیرا
اَصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رَستا تیرا
محبوب پاک ﷺ کی عظمت ورفعت کی علو کو کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ آپ فرماتے ہیں۔
فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خُسروا عرش پہ اُڑتا ہے پَھریرا تیرا
میں تو مالِک ہی کہوں گا کہ ہو مالِک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
یہ امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کے عشق کی انتہا ہے۔ محبوب پاک ﷺ کو ہر چیز سے انفس اعلیٰ سمجھتے تھے۔ ذرا برابر محبوب کی شان کے خلاف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم اس مضمون کے اس حصے کو آپ کی آخری وصیت سے ختم کرتے ہیں تاکہ آپ بخوبی اندازہ لگا سکیں کہ امام کا عشق رسول ﷺ کس درجہ کا تھا۔ آج محبت و عشق کے نام پر ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور روحانیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں جو امام کی شان میں گستاخی کرتے تھکتے نہیں ہیں اور اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں۔ اس سے امام کا مقام کچھ گھٹنے والا نہیں۔ عاشق رسول ہمیشہ محبوب دنیا بنا رہتا ہے محبوب ہی نہیں وہ اس خاکدان گیتی کا سب سے خوبصورت وحسن وجمال کا مرقع وپیکر رہتا ہے۔ جیسے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیباتر و محبوب تر
اب آئیے اس عاشق صادق کی آخری نصیحت ووصیت بھی پڑھ لیجئے اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ امام کا عشق و وارفتگی کس منزل پر فائز ہے۔ پڑھئے اور سر دھنئے آپ ارشاد فرماتے ہیں۔جس سے اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں ادنی توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا ہو فورا اس سے جدا ہو جاؤ ۔ جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینک دو ۔
واہ رے امام کیا عشق ہے۔ کیا وارفتگی ہے۔ کیا عقیدت و محبت ہے۔ اس کا چھوٹا سا حصہ بھی ہم بد نصیبوں کی خوابیدہ قسمت میں آجائیں تو رب کعبہ کی قسم دنیا و آخرت میں بیڑا پار ہوجائے گا۔ اللہ تعالی ان اسیرانِ گیسوئے مصطفی ﷺ جیسا عشق ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ اس ماہ نور میں حبیب لولاک ﷺ کے جمال جہاں آرا کا دیدار نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ السید الامین ﷺ