ناموس رسالت : اسلام کا حساس ترین مسئلہ (قسط اول)
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک مسلمان سب سے زیادہ بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ سرور کائنات فخر موجودات جنابِ ارواحنا فداہ ﷺ سے محبت کرتا ہے اور یہی ایمان کی کمالیت ہے جیسا کہ نبیِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: "لا یؤمن احدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولد والناس أجمعين “(بخاری ج1 کتاب الایمان ) يعنی تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک اس کے دل میں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن ہشام نے فرمایا کہ ہم حضور پاک ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور حضور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے حضرت عمر نے حضورﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ! ہم اپنے نفس کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا والذى نفسي بيده حتى اكون احب إليك من نفسك" نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے! یہاں تک کہ میں تمہیں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ترین نہ یو جاؤں۔ {بخاری}
لہذا جو مسلمان اپنے آقا سے اس درجہ کی محبت رکھتا ہو وہ انکی عزت و ناموس پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیگا مگر حضورﷺ کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی برداشت نہیں کرے گا
گستاخئ رسول پر صحابہ کرام کا ردعمل:
طلوع اسلام ہی سے دشمنان دین شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں نازیبا کلمات کہتے چلے آرہے ہیں (اس زمانے میں شعر و شاعری کا دور دورہ تھا لہذا کسی کی ہجو کے لیے قصیدہ کہا جاتا تھا آج کافروں نے توہین کا انداز بدل لیا ہے اب فلموں اور کارٹونوں کے ذریعے مذاق اڑایا جاتا ہے)
نبی پاک ﷺ نے شانِ نبوت میں گستاخی کرنے والوں کو بعض مواقع پر قتل کروایا کبھی صحابہ کرام کو حکم دے کرکے تو کبھی پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے، کبھی کسی صحابی نے حبّ رسول میں خود گستاخِ نبی کے جگر کو چیردیا، کبھی عزم کر لیا کہ اسے قتل کرونگا یا خود ہو جاؤں گا، کبھی نذر مان لی کہ فلاں گستاخ کو ضرور قتل کروں گا۔
اللہ عزوجل نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: وان نكثوا أيمانهم من بعد عهدهم وطعنوا في دينكم فقاتلوا ائمة الكفر انهم لا ايمان لهم لعلهم ينتهون (توبہ 12) اور اگر عہد کر کے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں ( اعتراض و طعن کریں) تو کفر کے سرغنوں سے لڑو! بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں(کنزالایمان)
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کرے وہ قتل کیا جائے گا (تفسیر قرطبی سورہ توبہ، تفسیر ابن کثیر)
ابوعکف یہودی اور اس کا انجام:
بنی عمرو بن عوف کا ایک شخص جسے ابو عکف کہتے تھے 120سال بوڑھا آدمی تھا۔ جب سرکاردوعالمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ مسلمان نہ ہوا اور لوگوں کو آپ کی عداوت پر اکساتا تھا جب اللہ عزوجل نے حضور کو بدر میں بہترین کامیابی عطا فرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور سرکشی پر اتر آیا۔
رسول گرامی وقارصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی ہجو کرتے ہوئے اس نے ایک قصیدہ کہا جسے سن کر عاشق رسول جناب سالم بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کی غیرت ایمانی کانپ گئ چنانچہ آپ نے نذر مانی کی میں ابو عکف کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود اپنی جان دے دوں گا۔
پس اب صرف حضور ﷺ کی اجازت کی ضرورت تھی سو وہ بھی مل گئی حضرت سالم رضی اللہ عنہ موقع کی تلاش میں تھے کہ ایک رات ابو عکف قبیلئہ عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا، آپ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی اور اس مردود کا کام تمام کر دیا (الصارم المسلول صفحہ 149)
ایک گستاخ رسول عورت:
ایک عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''من يكفيني عدوى'' میری دشمن کی خبر کون لے گا یہ سن کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آقا میں حاضر ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت عطا فرمائی اور آپ نے اس عورت کو قتل کر دیا۔ (الصارم المسلول صفحہ 143)
جاری...