ہم نے آمد کی خوشی تو منالی لیکن...

ماہ ربیع الاول کا تصور جیسے ہی انسانی دل و دماغ میں آتا ہے ایک عجیب سا پر کیف و سرور منظر نگاہوں کے سامنے چھا جاتاہے- شہر، گاؤں، دیہات اور محلوں میں جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے ایک دلکش اور جاذبِ نظر ماحول روشن ستارہ کی طرح جھلملاتا نظر آتا ہے- ہر طرف مسلمانوں کے چہرے روز روشن کی طرح اپنی چمک لٹاتے نظر آتے ہیں- ایسا کیوں نہ ہو اس لیے کہ یہ سب خوشی کا ماحول و منظر ایک ایسی شخصیت و ذات کے آمد کی علامت ہے جس ذات نے پیدا ہوتے ہی اپنی جبینِ ناز کو بارگاہِ خداوندی میں جھکا دیا تھا- اور اس وقت آپ نے اپنے اہل و عیال اور اپنے خاندان یا اور کوئی ذاتی فایدہ کو یاد نہیں کیا بلکہ اس وقت اگر کسی کو یاد کیا تو وہ ہم اور آپ تھے وہ امت مسلمہ تھی اور زبان فیض ترجمان سے آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ،، رب حبلی امتی ،، کی صدا لگائی تھی- سرکار دوعالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ صدا تو امت مسلمہ ہی کے لیے تھی- تو جس نبی نے اس خاندان گیتی پر تشریف لاتے ہی جس امت کو یاد کیا تو کیا وہ امت اپنے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بھول جائے؟ ایسا کرنا ایک وفا دار اور اسلامی تربیت کا مطبع و فرمانبردار مسلمان کا شیوہ نہیں ہے- اور مسلمان کی شایانِ شان نہیں ہے کہ اپنے پیاری آقا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کو بھلا دے- یہ تمام خوشیاں منانا اپنے اپنے اعتبار سے بالکل بجا و درست بلکہ باعث اجر و ثواب ہے-

لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں پر ہم اپنے نبی کی آمد کو جشن کی شکل میں مناتے ہیں اور نبی کی آمد کا مقصد کیا تھا؟ اور حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم  ہمارے لئے کیا تعلیمات لائے تھے ؟ اور اپنی پوری زندگی کو ہمارے لیے نمونہ عمل کیوں بنایا تھا ؟ اسکی طرف ہماری تھوڑی سی بھی توجہ نہیں- ہم نے تو آمد کی خوشی منالی- لیکن آمد کے عین مقصد کو ہم نے بھلا دیا- اور اس مقصد سے امت مسلمہ کوسوں نہیں بلکہ ہزاروں میل دور ہے- تاریخ انسانیت کا یہ کتنا بڑا فقدان ہے کہ ایک طرف تو ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم نبی کی امت ہیں جس کو قرآن کریم نے خیر امت کا لقب و مرتبہ دیا- اور ایک جانب اسی نبی کی تعلیمات سے روگردانی اور شریعت میں طبیعت کا دخل، قرآنی تقاضوں سے اجتناب، حد درجہ بے عملی، نمازوں کا فقدان، ایذائے مسلم، فحش گوئی اور بے جا آزادی، یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا جشن تو منالیا لیکن آمد کے مقصد کو پس پشت ڈال دیا- 

آئیے! ہم نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سیرت طیبہ کی کچھ اہم ہدایات آپ کی نظر کرتے ہیں جو آپ کو اپنی سماجی زندگی گذارنے کے لیے جگہ جگہ آپ کی رہنمائی کرتے نظر آئیں گے- انسانی سماج کا ایک اہم احساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے- اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لرز رہا ہے- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی حیاتِ طیبہ میں اس سے متعلق اصولی ہدایات کیسے روشن ہیں- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو مسلمان درخت لگائے گا اس سے جو انسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا تو اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا- ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے دوران جنگ بھی منع فرمایا- حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ٹھرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہی کی تربیت تھی کہ بلاوجہ یا بے جا پانی خرچ کرنا فضول اسراف ہے- عام راستوں اور گذرگاہوں پر گندی چیز پھیکنے یا غلاظت کرنے کو پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا بلکہ راستوں سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کی تعلیم فرمائی- بازار کی ایشیائے خوردنی میں ملاوٹ اور نفع خوری کے لئے دھوکہ دہی آج عام شیوہ ہوتا جارہاہے- رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جو دھوکہ دہی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں- ایک مرتبہ پیارے آقا صلی الله علیہ وسلم نے بازار میں کسی چیز کے اندر اپنا دست مبارک ڈالا تو وہ چیز اوپر سے خشک اور اندر سے تر تھی- تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ دھوکہ ہے تر حصے کو اوپر کرو-

صفائی ستھرائی کو حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے آدھا ایمان قرار دیا- روزانہ پانچ وقتوں کی نمازوں کے لیے وضو کرنے کی صورت میں جسم کے ان اعضاء کو دھونے کی ہدایت جو عموماً کھلے رہ کر مختلف جراثیم اور ماحولیاتی عوامل کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، غذائی اشیاء میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیا گیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ ان میں خباثت و گندگی اور وہ انسانی جسم و راحت کے لئے مضر ہے- قرآن مجید میں الله رب العزت نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: لوگوں کے لیے اچھی و طیب چیزوں کو حلال، گندگی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا -

آج ایک اہم مسئلہ شدت پسندی، تشدد اور جارحانہ مزاج کا ہے جس کے پس پردہ مختلف اسبابِ و عوامل کام کررہے ہیں- ان عوامل سے قطع نظر ہمیں رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پاکیزہ زندگی سے ایسی رہنمائیاں اور ہدایات اور مثالیں ملتی ہیں جو بڑی وضاحت کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ کسی بے گناہ پر ظلم و زیادتی ناقابلِ تسلیم عمل ہے- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں_

      حافظ افتخاراحمدقادری - کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت
                 iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter