امت مسلمہ کی شہزادیوں کو ارتداد سے بچانا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے

عزیزان گرامی!
ہماری قوم کی بیٹیاں ایک قیمتی گوہر ہیں ان کی حفاظت و صیانت ہر مسلمان پر بیحد ضروری ہے۔اکیسویں صدی کے اس خطرناک ماحول میں امت مسلمہ کی شہزادیوں کو ناپاک عناصر کے گھناؤنے منصوبوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔اسی ذمے داری کے ساتھ ایک نہایت ہی ذمے داری یہ ہے کہ سماج کے نحیف و ناتواں کمزور طبقہ کو اس کے شدید مایوسی و ذہنی تناؤ سے باہر نکالا جائے اس کے درد و کرب کا ازالہ نہایت ہی فراخدلی سے کیا جائے۔ تاکہ سماج کی کسی بیٹی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ میں کسی اپنے کا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتی۔جب کوئی بیٹی ایسا کہتی ہے کہ تو اس وقت بڑے بڑے بہادروں کے پیروں تلے زمین سرک جاتی ہے۔اس سے پہلے بھی میری بہت ساری تحریریں اس تعلق سے وائرل ہوچکی ہیں۔پھر بھی دل ناداں اسی طرف لکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔کہ مسلم معاشرے کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مضبوط حکمت عملی اور احسن طریقے سے جہیز کی لعنت کا خاتمہ کرنے کیلئے جہد مسلسل کی اشد ضرورت ہے اس پر کچھ لکھا جائے۔

میرے بھائیو!آج ہماری قوم جہیز جیسے معاملات کو فیشن سمجھتی ہے جو اس کیلئے کسی ناسور سے کم نہیں ہے۔اسے یہ معلوم نہیں کہ اس فعل قبیح سے بہت ساری برائیوں کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی ہیں یہی وہ مذموم فعل ہے جس سے خودکشی اور ارتداد جیسے راستے ہموار ہوتے ہیں یہی نہیں بلکہ وہ امیر و غریب سب کی دہلیز تک جاتے ہیں۔ پھرغریب بیچارہ اسی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ امیروں کی دیکھا دیکھی غریب بھی شادیوں کو فیشنیبل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا وہ اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کردیتا ہے کہ ہم بھی کسی سے کم تھوڑی ہیں۔دیکھنے میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ غریب اپنی بچیوں کی شادیوں میں جہیز کے لئے اپنی کھیتی تک بیچنے میں پیچھے نہیں ہٹتا جو سراسر تکلیف دہ عمل ہے وہ میری نظر میں جہیز نہیں بلکہ ایک قسم کا ظلم ہے۔مسلم سماج اور اس میں بسنے والے لوگوں کے ذہن و دماغ کو خراب کرنا کسی دہشتگردی سے کم نہیں ہے جہیز جیسے سنگین گناہ کو معاشرے سے دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان شادیوں میں شرکت کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ہرگز ہرگز ایسی شادیوں میں شرکت نہ کی جائے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اگر کوئی شخص شادیوں میں جہیز کی تشہیر کرتا ہے تو اس شادی کا بائیکاٹ اس انداز میں کرنا چاہئے تاکہ دوبارہ اس قسم کی کوئی جرأت و حرکت نہ کرسکے۔

میری نظر میں اس بائیکاٹ میں سب سے زیادہ علمائے کرام کی ذمےداری بنتی ہے اگر علمائے کرام نے یہ بیڑا اٹھا لیا تو یقین جانیں کہ معاشرے میں غربت زدہ لوگوں کے لئے یہ عمل تریاق ثابت ہوگا اور وہ رسم و رواج جن کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ خود بخود راہ فرار اختیار کرجائیں گے۔ایسے میں پھر ان لوگوں کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا جو لوگ مقدس ترین فریضہ نکاح کو دشوار بنا رکھے ہوئے ہیں کچھ تو ایسے امیر ہیں جن کے اندر جہالت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ان کی سوچ کے مطابق بغیر جہیز کی شادی بے مزہ بے وہ اپنے بچوں کی شادیاں اتنے دھوم دھام سے کرتے ہیں جس کو دیکھنے کے بعد بڑی کوفت محسوس ہوتی ہے۔آپ نے بھی اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھا ہی ہوگا کہ اسٹیج و غیرہ کسی راجہ مہاراجہ کی کوٹھی سے کم نہیں دکھتا ان میں اکثر انہیں لوگوں کی تعداد ہوتی ہے جو اپنے مال سے زکوٰۃ تک نہیں نکالتے ار غریبوں،یتیموں، بیواؤں،لاچاروں،مسکینوں، مسجدوں،مدرسوں کا تعاون کرنے میں کتراتے ہیں۔یہاں تک کہ اپنی بچیوں کو اپنی جائیداد میں سے حصہ تک نہیں دیتے وہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بچیوں کی شادی میں جتنا خرچ کرنا تھا کردیا اب ہم ان کے حق سے بری الذمہ ہوگئے۔جب کہ شریعت مطہرہ نے والد کی جائیداد میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کا بھی حق رکھا ہے۔والد اپنی بچی کی شادی کتنے ہی دھوم دھام سے کردے پھر بھی اس نے اس کا حق نہیں ادا کیا جب تک کہ وہ اپنی پراپرٹی میں سے اسکو اس کا حق نہ ادا کردے۔

میرے عزیز!دنیا چند روزہ ہے کل قیامت کے دن رب کے حضور حاضر ہونا ہے اس وقت اگر رب نے یہ سوال کیا کہ میرے بندے دنیا میں تونے کیا اپنی اولاد کو ان کا حق ادا کیا تھا تو میرے بھائی اس وقت کیا جواب دوگے۔ابھی بھی وقت ہے کہ سنت رسول ﷺ کے مطابق نکاح کو آسان بناؤ اور اسلام نے جو ضابطۂ حیات دیا ہے اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔بات چل رہی ہے شادیوں میں نام و نمود کی خاطر بےدریغ خرچ کرنے والوں کی جب ان کے سامنے شریعت کی باتیں کی جاتی ہیں تو سب سے پہلے وہ شریعت کا مسئلہ سمجھانے لگ جاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نہیں تکھتے کہ ہم نے تو شادی میں خوب خرچ کردیا بچی کی شادی کرکے اپنا حق ادا کردیا جب کہ انہوں نے بچی کا حق نہیں بلکہ اپنی جھوٹی شان و شوکت کا پرچار کیا ہے۔ تاکہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ بہت بڑا آدمی ہے۔ ارے ظالموں شرم کرو کل خدا کے سامنے پیش ہونا ہے کیا جواب دوگے اپنے رب کو جب رب تم سے پوچھےگا کہ میرے بندے میں نے دنیا میں تجھے تیری اولاد کا منصف بنایا تھا تونے اپنے بچوں کو اپنی جائیداد دینے میں انصاف سے کام کیوں نہیں لیا تو بتاؤ فانی دنیا کے متوالوں اس وقت کیا جواب دوگے اپنے رب کو۔جھوٹی شان و شوکت اور بیجا اصراف کرنے والوں کیا منہ دکھاؤ گے۔

اسلامی طریقوں سے روگردانی کرنے والوں کا میدان محشر میں جو حال ہوگا وہ بیان سے باہر ہے۔اس لئے قوم و ملت کا درد رکھنے والے مخلص حضرات آگے آئیں اور اپنی قوم کو اس دلدل سے باہر نکالیں تاکہ ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائے۔کیونکہ جہیز کی ڈیمانڈ کرنے والے منحوسوں نے غریب گھروں کی بیٹیوں کو سالہا سال بن بیائی گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس لئے کہ ان کے والدین اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ جہیزی بھیکمنگوں کی جہیزی لسٹ کی بھرپائی کرسکیں۔اگر کسی صورت جہیز دینے والوں کی بیٹیوں کی شادیاں ہوبھی جاتیں ہیں تو وہ اپنی سسرالیوں کے طعنوں سے اپنی حسین زندگی کو خودکشی کے حوالے کرنے دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ بہتیری دینی و دنیاوی تعلیم یافتہ بچیاں ارتداد کی راہ جاچکی ہیں۔ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے ایک ڈبل گریزویشن کی ہوئی مسلم بچی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور اس لئے ہوئی کہ اس کے گھر جتنے رشتہ دیکھنے والے آتے ان میں کسی کی ڈیمانڈ چار پہیئہ گاڑی مع دیگر اشیاء تو کسی کی مانگ کیا کیا ملے گا براتی آئیں گے تو ان کے کھانے میں فلاں فلاں ڈش ہونا ضروری ہے۔بچی کا باپ سب کی باتوں کو ہاں ہوں کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ان ساری فرمائشوں کو بچی بھی سنتی رہتی بالآخر باپ کی لاچاری کو دیکھتے ہوئے بچی اسی راستے پہ چلی گئی جو پوری قوم کیلئے ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں ہے۔اسطرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

لمبی لمبی ڈینگیں مارنے والوں،اسٹیج توڑنے والوں،اپنے منہ میاں مٹھو بننے والوں،قوم کے ٹھیکیداروں،بےجا اصراف کرنے والے سرمایہ داروں، جھوٹی شان وشوکت کے نشے میں چور بیان بازی کرنے والوں،کام کرنی والی تنظیموں کی برائی کرنے والوں،اکابرین کی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے والے دلالوں،مذہب و ملت کا درد رکھنے والوں کی توہین کرنے والے مکاروں سے میرا سوال ہے کہ قوم کے بیچ پنپنے والی برائیوں کی طرف تمہاری نظر کیوں نہیں جاتی؟قوم کی بیٹیوں کی عفت وعصمت کی فکر کیوں نہیں کرتے؟جہیز جیسی بری لعنت سے معاشرے کو پاک کیوں نہیں کرتے؟جہیز مانگنے والے بھیکاریوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟چلتے چلتے علمائے کرام سے بھی میری مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ پر بھی خاموشی کیوں طاری ہے آپ نے تو قوم کی ہمیشہ رہنمائی فرمائی ہے۔اسلاف کے دلوں میں امت مسلمہ کے تئیں جو دھڑکتا دل تھا وہ آپ سے دور کیوں ہوگیا؟کیا آپ کے اندر حالات کو دیکھتے ہوئے بزدلی پیدا ہوگئی ہے؟ماضی کی تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ علمائے ذوی الاحترام نے امت مسلمہ کو راہ راست پر لانے کے لئے ہرطرح کی تکلیفوں کا سامنا کیا ہے۔آپ بھی تو انہیں کے جانشین کہلائے جاتے ہیں آج وہ باتیں آپ میں بالکل دکھائی نہیں دیتیں اگر آپ چاہ لیں تو ایک دن میں مسلم معاشرے کی ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔کہاں چلے گئے سماج کے سرمایہ دار،کہاں چلے گئے مساجد و مدارس کے ذمے داران سب کو ملکر امت کی شہزادیوں کی عزت و عفت اور ان کی جان کی حفاظت ہرحال میں کرنی ہوگی ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ غریب بچیوں کی شادیوں کو آسان بنانے کے لئے امراء ہمت و جرأت کیساتھ آگے آئیں اور غریب بچیوں کو وہی مقام و مرتبہ دیں جو اپنی بچیوں کو دیتے ہیں۔

ان کو اپنی بہو بناکر اپنے گھر کی زینت بنائیں۔جہیز کا مطالبہ نہ خود کریں اور نا دوسروں کو کرنے دیں اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو اس کا سماجی بائیکاٹ کریں پھر دیکھئے ہمارا معاشرہ کتنا سندر بن جائے گا۔یاد رکھیں اگر اب بھی آنکھ نہ کھلے تو سمجھ لیں کہ ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔یقین جانیں جہیز کا مطالبہ وہ فتنہ ہے جوارتداد کی راہ ہموار کرتا ہے ظاہر سی بات ہے کہ جب معاشرے میں غریب بچیوں کے والدین کا جہیز کے نام پر خون چوسنے والے افراد دولت بٹورنے کے چکر میں پڑ جائیں گے تو غریبوں کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ غریب بڑی محنت و مشقت کے ساتھ دو وقت کی روٹی حاصل کرپاتا ہے ایسے لوگوں کا اگر خیال نہیں کیا جائے گا تو یقینا معاشرے میں جرائم کا سیلاب آئے گا جو زندگی کے ہر شعبے کو متأثر کردے گا یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ جس معاشرے میں جہیز مانگنے کا رواج عام ہو جائے تو اس میں مذہبی و خونی رشتے تار تار ہوجاتے ہیں اپنائیت،الفت و محبت کا جذبہ ختم ہونے لگ جاتا ہے۔جب انسان خود غرضی کی زنجیریں اپنے پیروں میں ڈال لیتاہے تو بد امنی اور لاقانونیت کا بازار گرم ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب سے یہ وبا پھیلی ہے تب سے خود غرضی مفاد پرستی اپنی چرن سیما پر پہونچ گئی ہے جس کی وجہ سے ارتداد جیسے گھناؤنے واقعات روز بروز سننے میں آرہے ہیں میرے دوست اسلام جہیز کے مطالبہ جیسے بہت سارے جرائم کی بیخ کنی کرتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نکاح کو آسان بنائیں اور اپنے معاشرے کو جہیز جیسے ناسور اور ہر طرح کے جرائم سے پاک بنائیں۔

شریعت مطہرہ نے جہیزی مطالبات کو یکسر ممنوع قرار دیا ہے اگر میں یہ کہوں کہ جہیز کا مطالبہ بھی ایک سودی کاروبار جیسا ہے تو کوئی بیجا نہ ہوگا اگرچے میری اس بات پر کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے کیونکہ یہ وہ ناسور ہے جو معاشرے کو کھوکھلا کئے ہوئے ہے اس سے جہیز کے پجاری چند دنوں کیلئے مالدار تو ہو جاتے ہیں لیکن غریب پر حصول معاش کے دروازے مسدود ہونے لگ جاتے ہیں۔ یہی جہیز کے ذرائع معاشرے میں ناانصافی کو جنم دیتے ہیں جہیز کا مطالباتی ٹولہ پوری قوم کا سرنگوں کئے ہوئے ہے.آج اسی مہلک مرض میں امیر و غریب سب مبتلا ہوتے نظر آرہے ہیں ایک دن ایسا آتا ہے کہ دوسروں کی دولت پر عیش وعشرت کرنے والوں کی زندگیاں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں یاد رکھیں جو مال کسی کو تکلیف دے کر حاصل کیا جاتا ہے وہ شریعت مطہرہ کی نظر میں حرام ہے یہی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی جہیز کا متوالا کسی سے جہیز کا مطالبہ کرتا ہے اگرچہ جہیز دینے والا جہیز دیتا تو ضرور ہے مگر اسے اس معاملے میں کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اسے کتنی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اس کا اندازہ دوسروں کو نہیں ہوتا۔ایسے میں وہ بچیاں جو شعور و آگہی سے واقف ہوتی ہیں ان کی سوچ منفی رخ اختیار کرنے لگ جاتی ہے پھر ہوتا وہی ہے جو آج ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے جو جہیز کے ناسور اور بیجا مطالبوں کی وجہ سے خودکشی اور ارتداد کی کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔
ظفرالدین رضوی ممبئی۔

9821439971
مورخہ 3 جنوری 2023

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter