صرف مدارسِ اسلامیہ پر ہی نظریں کیوں؟
بھارت میں مدارسِ اسلامیہ کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرنے والے فرقہ پرستوں کو اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کر دیا۔ جس نے سیکولرزم کا حوالہ دیتے ہوئے ایکٹ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے سے یوپی کے مدرسہ بورڈ کے مدارس اور طلبہ کو راحت ملی جن کے مستقبل کے بارے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو صریح طور پر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی قانون کو صرف اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب آئین کے حصہ سوئم کے تحت بنیادی حقوق یا قانون سازی کی اہمیت سے متعلق دفعات کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ محض آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کے نام پر کسی قانون کے آئینی جواز کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سیکولرزم کے اصولوں کی بنیاد پر قانون کو چیلنج کرنے کے لئے یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ قانون سیکولرزم سے متعلق آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔
جب سے بی جے پی برسرِ اقتدار ہوئی ہے تب سے بھارت کے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی زعفرانی ٹولہ کے ذریعہ مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ اب تک کئی مدارسِ اسلامیہ پر صرف اس لئے بلڈوزر چلا دیا گیا کہ یہاں دی جانے والی تعلیم و تربیت ملک کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ ملک کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مدارسِ اسلامیہ نے قوم و ملت کی آزادی، ترقی اور س کے وقار کو بلند کرنے میں ایک بنیادی رول ادا کرتے ہوئے اتحاد و یک جہتی کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ جب بھارت غلامی کے سنگین حالات سے گزر رہا تھا اور یہاں کی تہذیب و ثقافت اور بھارت میں رہنے والے باشندوں کا مذہب و خودداری کو خطرہ لاحق تھا تو اسے بحال کرنے، اس عظیم مصیبت سے چھٹکارہ دلانے کے لئے ملک کے مدارسِ اسلامیہ کے علماء کرام اور طلباء نے ایک بنیادی رول ادا کیا تھا۔ ملک میں مدارسِ اسلامیہ کے خلاف زہر افشانی کرنے والے اور اس کی تعلیم و تربیت پر شکوک وشبہات کے نظر سے دیکھنے والا شر پسند عناصر طبقہ اگر عدل و انصاف کی نظر سے مدارسِ اسلامیہ میں دی جانے والی تعلیم و تربیت یہاں کی تہذیب وتمدن کا مطالعہ کرے تو واضح ہوگا کہ یہاں دینی تعلیم و تربیت ہی نہیں بلکہ انسانیت، بلد اخلاقی، اعلیٰ کرداری، نیک نفسی، آپسی اتحاد و مساوات، بھائی چارے اور امن و امان کے عملی درسگاہوں کے مضبوط ترین قلعے ہیں۔ جہاں ملک و قوم سے محبت کا درس پڑھایا جاتا ہے۔ انسانیت کی خدمت، غریبوں، یتیموں، بیکسوں، مجبوروں، ضعیفوں اور بیواؤں کی خدمت کا درس پڑھایا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ مدارسِ اسلامیہ ہی ہیں جہاں قوم و ملت کے نونہالوں کو روحانی غذا فراہم کرکے ان کے سینوں میں دین کی شمع روشن کی جاتی ہے۔
مدارسِ اسلامیہ کی اسی قدر و منزلت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ ملت کے دردمند اور ہوشمند طبقے کو مدارس کے موضوع پر مستقل غور وفکر کرنے اور ان کے لئے ترقی کے نئے نئے راستے دریافت کرنے اور ان کی صورتحال کا بھرپور تجزیہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور اسی اثر انگیزی کی صلاحیت کی بدولت مدارسِ اسلامیہ ہر لمحہ دشمنوں کی ناپاک سازشوں اور خطرناک ریشہ دوانیوں کا نشانہ بھی رہے ہیں۔ اس وقت مدارسِ اسلامیہ پر الزامات اور تہمتوں کا گویا ایک سیلاب آیا ہوا ہے جو مدارسِ اسلامیہ کو اپنے حصار میں لینے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ یاد رہے کہ بلندیوں کی فکر اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والے ہمیشہ تنقیدوں کو اپنی ترقی کا زینہ بناتے ہیں۔ وہ اصلاح طلب خامیوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں اور ناحق تنقیدیں اور بیجا ملامتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ وہ کشادہ ظرف اور وسیع القلب ہوتے ہیں اور کسی اپنائیت یا اجنبیت کے جذبے کو راستہ دیئے بغیر تنقیدوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل ترقی کے سفر میں رواں دواں رہتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنے احتسابی عمل کے ذریعے ماضی کی فروگزاشتوں کی تلافی کرتے ہوئے مستقبل کی خوب سے خوب تر منصوبہ بندی اور نقشہ سازی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ بھی ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لئے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے اور کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لئے تنخواہیں دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اور بری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو، قتل و غارت گری کی جگہ امن و آشتی آئے، چوری اور رشوت کا جنازہ نکالا جائے، زناکاری اور بد کاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ بری کارستانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جب کہ یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ مسجدوں میں، دینی جلسوں میں، مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے اربابِ نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لئے قابلِ فخر سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہو سکا بلکہ اس کے بر خلاف اُنہیں ملک وملت کے لئے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈہ سمجھا جانے لگا۔ صرف انہی باتوں پر بس نہیں بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلاً مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں، ان مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کئے جاتے ہیں، ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، ان مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے، ان مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لئے موزوں نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے یعنی ان مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلا تفریق مذہب و ملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کار بند ہونے کا درس دیا جاتا ہے۔ مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے۔ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ امن وامان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکر و بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر و ترقی کی تحریک ہیں۔
بھارت میں اس وقت ایسے بہت سارے مسائل ہیں جن پر حکومت وقت کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ حکومت وقت ان تمام تر مسائل سے پہلو تہی اختیار کرکے صرف مدارسِ اسلامیہ ہی کے پیچھے کیوں پڑی ہے؟ تو یاد رہے کہ دنیا میں جب کسی قوم کو ختم کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے تعلیمی اداروں، اس کی اہم شخصیات، اس کی سماجی و تہذیبی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تن کے گورے من کے کالے انگریزوں نے بھارت پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔ آج بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ آج مسلمانوں کو اس کے جواب میں نہایت دانشمندی اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں ٹکراؤ کا نہیں بلکہ سمجھداری کا راستہ اپنانا ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے۔ تخریب کے راستے پر چل کر نہیں بلکہ تعلیم کے راستے پر چل کر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے وطن عزیز میں بہتر اور محفوظ مستقبل کی تعمیر کرنی ہے۔ یہ صرف مدارسِ اسلامیہ پر حملہ نہیں ہے بلکہ آج مسلمانوں کو ہر چہار جانب ٹارگیٹ کرنے کی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو نہایت ہی صبر سے کام لینا ہوگا۔ اپنی تعلیم اور کاروبار پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکولر سماج سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کوصرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں جس سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کو ووٹ بینک بننے کے بجائے سیاسی جماعتوں کا ہتھیار بننے کے بجائے ملک کے ذی ہوش عناصر سے ہاتھ ملا کر وطن عزیز کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ مسلمانوں کو قدم قدم پر اپنی محنت، صلاحیت، ڈسپلن، ایمانداری، خلوص اور نیک نیتی سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھارت کے کسی دوسرے شہری سے زیادہ ایماندار شیدائی ہیں۔ انھیں اپنی صلاحیتوں سے ملک میں اپنے لئے بہتر مقام بنانا ہوگا۔ انشاء ﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام ہونگی اور برادرانِ وطن جو آج مسلمانوں کے ایمان پر شک کررہے ہیں کل خود یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مسلمانوں سے زیادہ وطن پرست اور وفادار کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی تعمیر ناممکن ہے اور مسلمانوں کے بغیر ہندوستان نامکمل ہے۔