مسلم معاشرے کو مؤمن قائدین کی ضرورت ہے (آخری قسط )
تنازعات کا نمٹانا اور گروہ واریت کا خاتمہ کرنا بھی قائدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جبکہ موجودہ دور میں مفاد پرست قائدین کی وجہ سے ہی طبقہ واریت کو بڑھاوا مل رہا ہے ۔ ایسی نازیبا حرکات میں مومن قائد کسی صورت ملوث نہیں ہوسکتا چونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ اگر آج میں کسی پر ناجائزظلم و ستم کروں گا تو کل رحمت کردگار سے محروم ہوجائوں گا۔ حضرت سیدنا عمرو بن مرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا ہے جو بھی امام ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے اللہ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔ (ترمذی، ابودائود، ابو یعلی، حاکم، احمد) سورۃ القصص میں یہ واقعہ مذکورہ ہے کہ حضرت سیدنا موسیؑ نے حضرت سیدنا شعیب ؑ کی صاحبزادیوںکی ریوڑ کو پانی پلانے میں مدد فرمائی تو ایک صاحبزادی نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کو اجرت پر رکھ لینے کی استدعا کی جس کو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ’’ ان دو میں سے ایک خاتون نے کہا میرے (محترم) باپ اسے نوکر رکھ لیجیے۔ بیشک بہتر آدمی جس کو آپ نوکر رکھیں وہ ہے جو طاقتور بھی ہو یا دیانتدار بھی ہو‘‘۔ (سورۃ القصص آیت 26) اس آیت پاک میں خادم کے لیے دو صفات بیان کی گئی (1) طاقتور اور (2) دیانت دار۔ چونکہ قائدین بھی عوام کے خدمت گذار ہوتے ہیں اسی لیے ان میں بھی عزم و استقلال کی قوت، فکر سلیم اور امانت و دیانتداری کا پایا جانا از حد ضروری ہے۔ رسول رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’سید القوم خادمھم‘‘ قوم کا خدمت گذار ہی قوم کا قائد ہوتا ہے۔ (مواھب اللدنیہ للقسطلانی، شرح زرقانی) اس بات کا بلالحاظ مذہب و ملت ہر انسان معترف ہے کہ موجودہ قائدین صرف الیکشن کے وقت دکھائی دیتے ہیں یہ روش نہ صرف غیر ذمہ داری پر دلالت کرتی ہے بلکہ دین متین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے نبی مکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں وہ مومن جو (اجتماعی روابط) لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہونچنے والی تکالیف و آلام پر صبر کرتا ہے تواللہ تعالی اسے اجر عظیم سے سرفراز کرتا ہے اس مومن کے مقابل جو نہ لوگوں سے میل جول بڑھاتا ہے اور نہ اسے کوئی رنج و تکلیف پہنچتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ترمذی، حاکم، صفوۃ التصوف، مشکل الآثار للطحاوی، حیلۃ الاولیاء لابی نعیم)
اس حدیث پاک میں ان مسلمانوں کے لیے بھی نصیحت ہے جو سیاست کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں اور کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ لوگ اپنا قائد اس لیے چنتے ہیں تاکہ وہ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرے نہ کہ اپنا سیاسی قد بڑھانے میں مصروف رہے۔ لیکن یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انتخابات سے قبل ووٹروں کو لبھانے کے لیے قائدین ان کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کے بعد جب ووٹر اپنے مسائل کو حل کروانے کے لیے ان کا رخ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ انتہائی نازیبا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور غربت و افلاس کے پنجوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو دھتکارا جاتا ہے۔ اکثر قائدین ان اشخاص کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں جو معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتے ہوں یا مال دار ہوتے ہیںاگرچہ وہ باطل پر ہوں۔ غریب عوام کے مسائل کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے اگرچہ وہ حقدار ہوں۔ مومن قائد اس روش کا شکار اس لیے نہیں ہوسکتا چونکہ اس کے سامنے حضوراکرمﷺ کا یہ ارشاد مبارک ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص کسی مظلوم کی مدد کے لیے اس کے ہمراہ چلے گا تو اللہ تعالی بروز قیامت جو قدموں کے پھسلنے کا دن ہے اس کے قدموں کو پُل صراط پر ثابت قدم رکھے گا اور جو شخص ظالم کے ساتھ اس کے ظلم پر اس کی مدد کرنے کے لیے جاتا ہے تو اس دن اُس کے قدم پلصراط سے پھسل جائیں گے۔ (تفسیر قرطبی)
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اطلاعات سے اکثر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائدین اکثر متمول حضرات کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں جبکہ ایک عام انسان کو قائد بنانے میں متمول طبقے سے کہیں زیادہ رول غریب طبقہ کا ہوتا ہے ۔ مومن قائد کا یہ طرۂ امتیاز ہوتا ہے کہ وہ متمول حضرات کے ساتھ ساتھ غریب کی تقریب میں بھی شرکت کرتا ہے ۔ چونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ غریب کی تقریب میں شرکت کرنے سے اگرچہ دنیوی فوائد حاصل نہ ہوتے ہیں لیکن اخروی نعمت یعنی نیکی ضرور مل جاتی ہے ۔ حضور پور نورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کسی نیکی کو چھوٹی مت سمجھواگر تم اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات کرتے ہو تو یہ بھی نیکی کا کام ہے (ابو دائود) ۔ اس کے برعکس متمول حضرات کی تقاریب میں شرکت کرنے سے انسان بسا اوقات گناہوں کے ارتکاب کی طرف آمادہ ہوجاتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علیؓ ارشاد فرماتے ہیں امیروں کی محفل ایمان کو تباہ و تاراج کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ آج کے اکثر قائدین میں جذبۂ خدمت خلق کم اور پیسہ بٹورنے کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے اس روش کو بھی صرف مومن قائد ہی بدل سکتا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایوبی سلطنت کے بانی، فاتح بیت المقدس حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ (1137-1193/532-589)جنہوں نے فلسطین، اردن، لبنان اور مصر پر بھی فتح حاصل کی تھی لیکن تاریخ عالم کے اس عظیم حکمران نے معاشی تنگدستی کے باعث حج کی سعادت سے محروم رہے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کی تجہیز و تکفین کے لیے بھی پیسہ نہ تھا۔ یہ ہے ہمارے اسلاف کی تعلیمات اور ان کی مومنانہ زندگی جو ہمارے لیے تاقیام شمس و قمر مشعل راہ ہے۔ عصر حاضر کا انگریز مورخ لین پول نے اس عظیم فاتح کے بارے میں لکھتا ہے ’’ آپ کے ہمعصر بادشاہوں اور آپ میں ایک عجیب فرق تھا بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہر دلعزیزی کی دولت کمائی‘‘ ۔ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ دنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا البتہ اللہ کی محبت سے دنیاو آخرت دونوں سنورجاتے ہیں اور اللہ سے محبت کی عملی دلیل خدمت خلق ہے جس کا موقع اللہ رب العزت نے قائدین کو دیا ہے وہ اسے غنیمت جانیں اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ دنیا تو فانی ہے زندگی کا کیا بھروسہ اس کی کبھی بھی شام ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اس کی آنکھ بند (یعنی موت) ہوجاتی ہے ۔ آنکھ کھلنے سے پہلے آنکھ کھول لینا ہی عقلمندی کی نشانی ہے۔ چونکہ حقیقی کامیابی طاقت، دولت، شہرت اور مرتبے میں نہیں بلکہ غلامی مصطفیﷺ میں مضمر ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔