شہادتِ بابری مسجد: عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ عقل مند وہ انسان ہے جو ایک بار ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھل جاتا ہے اور کوئی ایسا عمل انجام نہیں دیتا جس کے سبب اسے بار بار ٹھوکر کھانا پڑے۔ لیکن اگر ٹھوکر کھانے کے باوجود کوئی انسان نہیں سنبھلتا اور ٹھوکر کھانے جیسے اعمال کو انجام دیتا رہتا ہے تو ایسا شخص انسانی معاشرے میں نہ وقار و عزت حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی کامیابی و کامرانی حاصل کر پاتا ہے۔ چناں چہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہم ہندوستانی مسلمانوں کے اعمال و کردار اور احوال کافی حد تک مماثل نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج سے تقریباً اکتیس بتیس سال پہلے 1992 میں ہماری آنکھوں کے سامنے اور وہ بھی دن کے اجالے میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا اور اس کے بعد ہندوستانی مسلمان بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے تھے جس کا اثر آج تک برقرار ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تمام ہندوستانی مسلمان معاشی، سیاسی اور تعلیمی طور پر متاثر تو ہوئے ہی تھے لیکن بالخصوص عزت و وقار اور اتفاق اتحاد کی سطح پر جس نقصان سے ہم مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا تھا وہ بیان سے باہر ہے اور اس پر جس قدر افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی ہم مسلمانوں نے ہوش کا ناخن نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہندوستانی مسلمانوں نے اس سے کوئی عبرت لینے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کے بجائے ہم مسلمانوں نے محض یوم شہادت پر غم و غصّے کا اظہار اور سوگ بنانا اپنا معمول بنالیا ہے۔ لہذا سال میں جب کبھی یہ دن اور تاریخ آتی ہے ہم منظم طور پر سوگ منا لیتے ہیں اور بابری مسجد سے متعلق کچھ تحریر و تقریر کا اہتمام کرلیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کیوں عمل میں آئی اور اس کے پیچھے عوامل کیا تھے اس پر غور و فکر کی جائے لیکن اس پہلو پر ذرہ برابر بھی نظر کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ اس تعلق سے عوام کے اندر بیداری لانے کے لیے کچھ پہل کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس موقع بالخصوص منظم طور پر مسلم نوجوانوں کے اندر دینی اور قومی احساس بیدار کیا جانا چاہیے تاکہ جو عزت و وقار سیاسی و سماجی اور تعلیمی و دینی سطح پر ہم مسلمان کھو چکے ہیں وہ پھر سے بحال ہو جائے۔

اس سلسلے میں باہم مشورے سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر گاؤں، بلاک، ضلعی، صوبائی اور ملکی سطح پر ایک ایسی تنظیم بنائی جائے جو عوام الناس کے درمیان پیدا شدہ دوریوں کو ختم کرے اور اسے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرے۔ خیال رہے کہ یہ عمل انجام دیتے فرقہ بندی اور جماعت بندی کو نظر انداز کردیا جائے اور محض بحیثیث مسلم سب کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہفتہ واری، پندرہ روزہ یا پھر ماہانہ نششتوں میں یہ منصوبہ نافذ العمل کیا جائے کہ کوئی بھی عبادت گاہ ہو اور خواہ وہ کسی بھی فرقہ اور جماعت کی ہو اسے کبھی بھی خالی اور تنہا نہ چھوڑا جائے۔ مساجد کی کثرت تعمیر اور تزئین و آرائش سے زیادہ انھیں آباد کرنے پر زور دیا جائے۔

اس کے برعکس ہندوستانی مسلمانوں کا جو حال ہے کہ ان کی اکثر مساجد نمازیوں سے خالی ملتی ہیں۔ بمشکل ایک صف پوری ہوپاتی ہے اور گاؤں محلے کی مساجد تو نمازیوں کے لیے بھی ترس جاتی ہیں اور صرف امام و موذن پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ چناں چہ اس طرح کے حالات جہاں کہیں بھی ہو اس پر نظر رکھی جائے اور ایسی خامیوں کو جڑ سے ختم کیا جائے۔

مزید یہ مساجد کے تعلق سے ایک بڑی بیماری جو ہم مسلمانوں کے اندر پیدا ہوگئی ہے کہ مساجد کی تعمیر و تزئین پر لاکھوں لاکھ کا صرفہ کرتے ہیں۔ لیکن امام و موذن کے مشاہرے دینے کے نام پر بالکل ساکت و جامد پتھر بنے رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی نہج سے اچھی بات نہیں ہے۔ ہم میں ہر فرد اپنے دل پر ہاتھ رکھے اور غور کرے کہ ایک انسان لاکھوں کا مکان بنائے اور اسے آباد کرنے کی بجائے اسے یوں ہی ویران چھوڑ دے، تو کیا ہم اور آپ اسے عقل مند کہیں گے۔ ہرگز نہیں!! پھر مساجد کے سلسلے میں اس طرح کا غیر دانشمندانہ رویہ اپنانا ہمارے حق میں کیوں مفید ثابت ہوگا۔

القصہ! بابری مسجد کی شہادت سے عبرت پکڑتے ہوئے ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنی اپنی عبادت گاہوں کو آباد کریں اور دین و عبادت کے نام پر خود کو متحد رکھیں اور جماعت بندی اور فرقہ بندی کے نام لاکھ اپنی اپنی مساجد الگ الگ بنائیں لیکن سیاست و معاشرت کی سطح پر ہم سبھی ایک زنجیر بن جائے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ تمام عیش و عشرت اور وسائل و فراوانی کے باوجود نہ ہم معزز ہوں گے اور نہ ہماری آواز سنی جائے گی۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter