شيخ ابو الحسن حضرت امام سَرِی السَقَطی- حیات اور افکار (قسط- 1)

سری سقطیؒ کا شمار ابتدائی عہد کے نمائندہ صوفیہ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے معروف کرخیؒ اور حبیب عجمیؒ جیسے متقدمین صوفیہ کی صحبت اختیار کی اور بغداد میں تصوف کی باضابطہ اشاعت کی۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ تصوف کی اشاعت و ترویج میں سری سقطی کی کوشش نمایاں ہے۔ )1(لیکن سری سقطی کا اصل کارنامہ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادیؒ کی تربیت ہے۔ تاریخ تصوف میں ان کی اصل اہمیت اسی لےے ہے کہ انھوں نے شیخ جنیدؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے دنیائے تصوف کو روشناس کرایا۔ شیخ جنید بغدادیؒ سری سقطیؒ کے بھانجے تھے۔ وہ بچپن ہی سے سری سقطی کی صحبت میں رہے اور ان کی پوری تعلیم و تربیت انہی کی نگرانی میں ہوئی۔ سری سقطی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے محدث تھے، لیکن شیخ جنید بغدادیؒ کی ولادت سے بہت پہلے انھوں نے تصوف کی راہ اختیار کرلی تھی اور اسی راہ پر انھوں نے اپنے بھانجے کو لگایا، جو آسمان تصوف کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔

مختصر حالاتِ زندگی:

          سری سقطیؒ کا پورا نام سری بن مغلّس السقطیؒ ہے۔ سقطی کباڑے کا سامان بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ سری بھی پہلے یہی کام کرتے تھے، اس لےے السقطی کے نام سے معروف ہوئے۔)2(

          سریؒ کی وفات253 ھ/ 867ءمیں ۸۹ سال کی عمر میں ہوئی، جیسا کہ شیخ جنید بغدادیؒ نے صراحت کی ہے۔(3) اس طرح ان کی ولادت 155ھ/772ءمیں قرار دی جاسکتی ہے۔ جائے پیدائش کی صراحت تو کہیں نہیں ملی ، لیکن یہ وہ عہد ہے جب بغداد کی تعمیر ہورہی تھی ، اس لےے قرین قیاس ہے کہ یا تو وہ بغداد ہی میں پیدا ہوئے ہوں گے یا اوائل عمر میں ہی بغداد میں سکونت اختیار کرلی ہوگی۔ سری سقطیؒ بغداد میں دکان کیا کرتے تھے ، ان کی دکان بازار کے وسط میں تھی۔ ایک دفعہ اس جگہ جہاں ان کی دکان تھی، آگ لگ گئی۔ کسی نے خبر دی تو انھوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ پھر خبر ملی کہ ان کی دکان محفوظ ہے تو کہا ’الحمد للہ‘۔ معاً خیال آیا کہ اس وقت میرے مسلمان بھائی مصیبت میں ہیں اور میں اپنی راحت پر الحمد للہ کہہ رہا ہوں تو نادم ہوئے۔ ابوبکر حربی نے روایت کیا ہے کہ سری فرمایا کرتے تھے کہ میں تیس سال سے اسی بات پر استغفار کررہا ہوں (4)یہ واقعہ جزوی اختلاف کے ساتھ متعدد کتابوں میں منقول ہے۔

          سری سقطی کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد و ورع کی زندگی کا آغاز ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔ خطیب بغدادی اور ذھبی نے لکھا ہے کہ سری سقطیؒ نے ایک لڑکی کو دیکھا کہ اس کا مٹکا ٹوٹ گیا، انھوں نے اپنی دکان میں سے ایک برتن اس لڑکی کو دے دیا۔ یہ واقعہ معروف کرخیؒ دیکھ رہے تھے، انھوں نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تیرے دل میں دنیا سے نفرت پیدا کردے۔(5) ابو نعیم اصفہانی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ سری سقطی عید کی نماز پڑھ کر واپس ہوئے تو ان کی دکان پر معروف کرخی ایک بچے کو لے کر آئے جس کے بال الجھے تھے، سری نے پوچھا: یہ کون ہے؟ معروفؒ نے بتایا: ایک جگہ بچے کھیل رہے تھے، لیکن یہ بچہ ایک طرف کھڑا ہوا تھا، میں نے پوچھا: تم کیوں نہیں کھیل رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: میں یتیم ہوں، میں نے کہا: کیا چاہےے؟ اس نے کپڑے مانگے ، یہ کہہ کر معروف کرخیؒ نے وہ بچہ سری سقطی کے حوالہ کردیا کہ تم اس کی مدد کرو، اللہ تمھیں دولت دنیا سے بے نیاز کردے۔ (6) یہ واقعہ جزوی اختلاف کے ساتھ الرسالہ القشیریہ میں بھی مذکور ہ۔(7) ممکن ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہوں، یا ایسے اور بھی واقعات پیش آئے ہوں، چنانچہ کشف المحجوب میں اس سے ملتا جلتا واقعہ موجود ہے، لیکن اس کی نسبت معروف کرخی کی جگہ حبیب عجمی کی طرف کی گئی ہے۔(8)

          معروف کرخیؒ اور حبیب عجمیؒ کی صحبت سے سری سقطی میں بتدریج دنیا سے بے زاری اور زہد کا رجحان بڑھتا گیا۔ آخر کار دکان چھوڑدی اور ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہنے لگے۔ خود کو گھر تک محدود کرلیا، زیادہ وقت عبادت میں بسر کرتے اور جماعت کی نماز او رجمعہ کے علاوہ بہت کم گھر سے نکلتے تھے۔ یہ واقعات شیخ جنید بغدادیؒ کی ولادت سے بہت پہلے کے ہیں، اس لےے کہ ان کے مربی معروف کرخی شیخ جنید کی ولادت سے بہت پہلے 200ھ/ 816ءمیں وفات پاچکے تھے۔

          سری سقطیؒ نے جب دکان ترک کردی تو ان کی ایک بہن ان کی کفالت کرنے لگیں۔ امام قشیری نے لکھا ہے: ”جب سری نے تجارت چھوڑی تو ان کی بہن اپنا سوت بیچ کر ان پر خرچ کرتی تھیں“۔9بعد میں انھوں نے یہ سلسلہ بھی موقوف کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کو معلوم ہوا کہ لوگ ان کی بہن کے کاتے ہوئے سوت میں ملاوٹ ہونے کا عیب لگاتے ہیں، چنانچہ انھوں نے سوچا کہ یہ کمائی مشکوک ہے۔ اس کے بعد ان کی بہن نے دیکھا کہ سری کے گھر میں ایک بڑھیا صفائی بھی کرتی ہے اور روزانہ دو روٹیاں بھی لاتی ہے۔ یہ دیکھ کر ان کو بڑا افسوس ہوا۔ انھوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے شکایت کی کہ میرے بھائی میرا کھانا نہیں کھاتے، دوسروں کا کھاتے ہیں۔ امام احمدؒ نے کسی موقعہ پر ان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے جواب دیا: ”میں نے اس کا (یعنی اپنی بہن کا) کھانا چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لےے دنیا کو مسخر کردیا کہ میری خدمت کرے اور میرے اوپر خرچ کرے“۔( 10)

          سری سقطیؒ نے سلوک و معرفت کی راہ میں بعض اسفار بھی کےے تھے۔ ان کا ایک سفر تو بیس سال کی طویل مدت کو محیط ہے۔ اس سفر میں ان کا پورا وقت ساحلی علاقے میں گزرا۔ ابن الملقن نے لکھا ہے ”ومکث سری عشرین سنة یطوف بالساحل یطلب صادقاً“ (11) (سری بیس سال ساحل پر تلاشِ صادق میں سرگرداں رہے)۔ انھوں نے اپنے سفر میں کچھ وقت طرطوس میں بھی بسر کیا۔ جس مکان میں ان کا قیام تھا اس میں ان کے ساتھ اور بھی لوگ رہتے تھے۔ یہ سب بڑے متقی اور اصحاب ورع تھے۔ گھر میں ہی ایک تنور تھا جس میں وہ کھانا تیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ تنور ٹوٹ گیا۔ سری کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پیسے سے ان کے لےے دوسرا تنور بنوادیا ، لیکن انھوں نے اس تنور میں اپنا کھانا تیار کرنے سے تورّعا اعراض کیا۔( 12)طرطوس کے دورانِ قیام وہ بیمار ہوگئے، ان کو ذرب(اسہال) کی بیماری ہوگئی تھی ، ایک روز ان کے بہت سے احباب ان کی عیادت کے لےے آئے اور بہت دیر تک بیٹھے رہے، جس سے وہ تنگ آگئے، ان میں سے کسی نے کہا: حضرت دعا کردیجےے، سری نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی: ”اے اللہ تو ہم کو عیادت کا ادب سکھادے“۔ (13)آخر میں سری سقطی مستقل بغداد میں رہنے لگے وہاں ان کا بڑا حلقہ تھا، ایک قدیم فارسی کتاب ’ہزار حکایاتِ صوفیاں‘ (مجہول المولف) میں لکھا ہے کہ جب شیخ جنید بغدادی اورابوالحسین نوری کو الحاد و زندقہ کا الزام لگاکر خلیفہ کے دربار میں پیش کیا گیا تو سری سقطی بھی ان میں شامل تھے .(14) لیکن اس کتاب کے علاوہ اور کہیں یہ نہیں ملا کہ سری بھی ان آزمائشوں سے گذرے تھے۔

          سری سقطی کا انتقال 98 سال کی عمر میں بغداد میں ہوا۔ سنہ وفات میں اختلاف ہے۔ ابن الملقن نے تحقیق کرکے ۳۵۲ھ لکھا ہے۔ (15)ذہبی نے بھی اس کو ترجیح دی ہے، (16)قشیری نے ۷۵۲ھ لکھا ہے۔ (17)طبقات الصوفیہ میں ۱۵۲ھ ہے۔ (18)تاریخ وفات معلوم نہیں، لیکن انتقال رمضان المبارک میں ہوا۔ (19)شونیزیہ کے قبرستان میں دفن ہوئے، جہاں ان کی قبر آج بھی زیارت گاہِ خلائق ہے۔ ابوعبید بن حریوے سے روایت ہے کہ انھوں نے سری سقطی کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ (20)

          سری سقطی کے اخلاف میں ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان کے بیٹے کا شمار بھی بغداد کے مشائخ کبار میں ہوتا ہے۔ ابن الملقن نے لکھا ہے کہ سری سطقی کے بیٹے ابواسحاق ابراہیم بڑے زاہد و متقی اور صاحبِ احوال و معاملات تھے، ان کے احوال ان کے والد سری کے مماثل تھے۔ (21)ان کی بیٹی کا تذکرہ ایک خاص واقعہ کے ضمن میں آیا ہے۔ الرسالہ القشیریہ میں ہے کہ شیخ جنید فرماتے ہیں : ایک دفعہ میں سری سطقی کے یہاں گیا تو دیکھا وہ رو رہے ہیں۔ سبب دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ آج بیٹی نے یہاں پانی کا کوزہ لٹکایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ ابا، جب پانی ٹھنڈا ہوجائے تو پی لینا، اس اثناءمیں میری آنکھ لگ گئی، خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک نہایت خوبصورت باندی اتری، میں نے پوچھا: تو کس کی باندی ہے؟ اس نے جواب دیا: اس کی جو کوزہ کا ٹھنڈا پانی نہ پےے۔ یہ کہہ کر وہ کوزہ توڑ دیا۔ شیخ جنید فرماتے ہیں کہ کوزے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے وہاں پڑے تھے۔ (22) بعض تذکروں میں ہے کہ خواب سے بیدار ہوکر خود سری سقطی نے ہی وہ کوزہ توڑا تھا۔ (23)دیگر متعلقین میں بہنوں کا ذکر ملتا ہے جن میں ایک حضرت جنید بغدادیؒ کی والدہ تھیں۔

          سری سقطی کا رنگ سانولا تھا، (24) لباس عموماً قمیص شلوار پہنتے اور چادر ڈال لیتے تھے۔ ان کا لباس صاف ستھرا ہوتا تھا (25) صوفیہ کے یہاں جو خرقہ پوشی کا رواج ہے وہ اس عہد میں یا تو بالکل نہیں تھا یا برائے نام تھا، چنانچہ نہ سری سقطی نے کبھی خرقہ پہنا اور نہ ان کے شاگر حضرت جنید بغدادی نے۔

آثار:

          سری سقطی کی کوئی تصنیف یاتحریر دستیاب نہیں ہے اور کسی کتاب میں ان سے منسوب کسی کتاب کا تذکرہ بھی نہیں ہے، احباب سے ان کی خط و کتابت رہتی تھی، لیکن اتفاق یہ ہے کہ ان کے خطوط زیادہ معروف نہیں ہوئے۔ ابوبکر الکلاباذی نے جہاں صوفیہ کے خطوط و رسائل کا تذکرہ کیا ہے وہاں سری سقطی کا ذکر ہی نہیں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اللُمَع فی التصوف میں ان کا ایک خط مذکور ہے، جو یہ ہے:

          ”بھائی! میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس خدا کے عذاب سے ڈرو جو اپنے اطاعت گذار بندوں کو سعادت مند بناتا ہے اور جو اس کی نافرمانی کرتا ہے خدا اس سے اس کی نافرمانی کا انتقام لیتا ہے، لہٰذا تمہاری اطاعت گذاری اللہ کے عذاب سے بے خوف ہوجانے کا سبب نہ بنے اور نہ تمہاری نافرمانی اس بات کا باعث بنے کہ تم اس کی رحمت ہی سے مایوس ہوجاو، خدا ہمیں بھی اور تمھیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں بغیر اس کے کہ اس سے مایوس ہوںاور اسی سے امید لگاتے ہیں بغیر اس کے کہ دھوکہ میں مبتلا رہےں“۔ (26)

          اس خط کے علاوہ ان کی کوئی اور تحریر دستیاب نہیں ہے، البتہ ان کے ملفوظات اور روایات ملتے ہیں۔ ان ملفوظات و روایات اور اس خط کی روشنی میں ان کے افکار اور ان کا نظریہ تصوف کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔

تصوف میں مقام و مرتبہ:

          سری سقطی اپنے عہد کے زبردست صوفی اور بلند پایہ عابد و زاہد تھے۔ ان کے معاصرین اور بعد کے تذکرہ نگاروں نے ان کا ذکر تعریف و تحسین کے الفاظ میں کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل کے ان سے روابط تھے اور اندازہ ہوتا ہے کہ قریبی روابط ہوںگے، اس لےے کہ جیسا کہ ذکر آچکا ہے، سری کی بہن نے ان کی شکایت امام احمد سے کی تھی۔ حلیة الاولیاءمیں ہے کہ جب سری سقطی سرحدی علاقے سے واپس بغداد آئے تو ابوعلی حسن البزاز نے امام احمد سے ان کے بارے میں سوال کیا۔ امام احمد نے پوچھا: وہی شیخ جو غذا کی پاکی کے لےے مشہور ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ امام احمد نے فرمایا: وہ یہاں سے جانے سے قبل بھی اسی انداز سے رہتے تھے“۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ابونعیم نے لکھا ہے کہ پاکی غذا، صفائی قلب اور شدتِ ورع کے لےے وہ مشہور تھے۔ (27)

          حسن بزاز سری کے بڑے عقیدت مند تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ احمد بن حنبلؒ اور بشر بن حارثؒ جب تک زندہ رہے ہم دعا کرتے تھے کہ ”اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ہماری حفاظت فرمائے، پھر ان دونوں کا انتقال ہوگیا تو ہم دعا کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ سری سقطیؒ کے ذریعہ ہماری حفاظت فرمائے“ (ان یحفظنا اللہ بالسری) (28)۔

          تاریخ تصوف کی کتابوں اور تذکروں میں ان کا نام بڑی اہمیت کے ساتھ مذکور ہے۔ ابوعبدالرحمن السلمی نے طبقات الصوفیہ میں ان کو اپنے عہد کا شیخ اور بغدادیوں کا امام لکھا ہے ۔(29) ذہبی نے انھیں اپنے وقت کے زاہدوں میں شمار کیا ہے۔ قشیری نے ان کو ورع، احوال اور علوم توحید میں یکتا لکھا ہے۔ (30)

 

حواشی و مراجع:

1۔      آدم متز: الحضارة الاسلامیة، عربی ترجمہ: عبدالہادی ابوریدہ، دارالکتاب العربی، بیروت، غیر

          مورخہ، ج:ص:28

2۔      فرید الدین عطار: تذکرة الاولیائ، مع مقدمہ از امجد خاں قزوینی، چاپخانہ مظاہری، ایران،

          (سنہ1336ش)، ج:1ص:246

3۔      ذہبی: تاریخ الاسلام، تحقیق الدکتور عمر عبدالسلام تدمری، دارالکتاب العربی، بیروت، 1994ئ، ج:18ص151

4۔      خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، مطبعة السعادة مصر، 1931ئ، ض:9ص188، تاریخ الاسلام (ذہبی)،

ج:18ص:151، امام قشیری، الرسالہ القشیریہ، اردو ترجمہ: پیر محمد حسن، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1986ئ، 130، طبع دوم۔

5۔      تاریخ الاسلام،ج:18ص:151 تاریخ بغداد، ج:9ص188

6۔      ابونعیم اصفہانی: حلیة الاولیائ، دارالکتاب العربی، بیروت لبنان، غیرمورخہ، ج:10ص:123

7۔      الرسالة القشیریة، ص:129

8۔      علی ہجویری: کشف المحجوب، تصحیح والنیتن روکوفسکی، موسسة المطبوعات امیر کبیر، ص

9۔      الرسالة القشیریة، ص:645           10۔    ایضاً، ص:646

11۔    ابن الملقن: طبقات الاولیائ، تحقیق نورالدین شریبہ، دارالمعرفة ، طبع دوم ئ، ص:161

12۔    حلیة الاولیائ، ص:117                                 13۔    طبقات الاولیائ، ص:163

14۔    ہزار حکایات صوفیاں، ورق 34، ب              15۔    طبقات الاولیائ، ص:160

16۔    تاریخ الاسلام، ج:18ص:152                        17۔    الرسالة القشیریة، ص:131

18۔    السلمی : طبقات الصوفیة ، تحقیق نور الدین شریبہ، دار الکتاب العربی، مصر، 1953ئ، ص48

19۔    تاریخ الاسلام،ج:18ص:152                        20۔    طبقات الاولیائ، ص164

21۔    ایضاً، ص۵۶۱، تاریخ بغداد، ج:1ص:89حلیة الاولیائ، ج10،ص123

22۔    حلیة الاولیائ، ض:10،ص:122                                23۔    الرسالة القشیریة، ص131

24۔    ایضاً، ص130                                           25۔    ایضاً، ص646

26۔    ابونصر سراج: اللمع فی التصوف، ترجمہ ڈاکٹر پیر محمد حسن، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، 1958ئ، ص348

27۔    حلیة الاولیائ، ص126                                  28۔    ایضاً، ص126

29۔    طبقات الصوفیة، ص48                         30۔    تاریخ الاسلام، ج:18ص150، الرسالة القشیریة، ص129

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter