جمعیّت ضروری یا اجتماع؟

آج کل جا بجا جلسوں، کانفرنسوں اور اجتماعات کا چلن عام ہے۔ بلکہ آج کل ہی کیا ذہن کو ذرا پیچھے لے جائیں تو ایک عرصے سے یہ چیز دیکھنے میں آ رہی ہے کہ کسی بھی سڑک یا چوراہے پر جلسہ گاہ سجا دی گئی جس میں ملک بھر کے شعلہ بار خطباء اور شعر و سخن کے تاجدار شعراء کے ساتھ ساتھ بھڑکیلے نقیب مدعو ہیں۔ خدا کی قسم! اشتہارات کی سجاوٹ اور ان کے نقش و نگار اتنے بھڑکیلے نہیں ہوتے جتنے بھڑکیلے اجلاس میں شرکت کرنے والے نقیب اور خود ساختہ شعراء کے زریں اور نفیس لباس ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اشتہار کا بھڑکیلا پن دیکھ کر جلسے کی کامیابی کی پیشین گوئی کر دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے کامیابی کی سند بھی عطا کر بیٹھتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار اشتہارات میں رنگ و روغن کی کمی کی بنیاد پر ان پیشین گوئی کرنے والوں کی باتوں میں کوئی کسر باقی رہ جائے اور جلسے کے انعقاد سے پیشتر اس کی کامیابی کی سند کا کوئی سراغ نہ مل پائے تو انعقاد کے فورا بعد شعراء اور نقباء کے زرق برق اور بھڑکیلے لباس اس کمی کو بآسانی پورا کر دیتے ہیں اور آغازِ اجلاس ہی سے جلسے کو کامیابی کی سند بہر حال مل جاتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ میرے بار بار لفظ ”بھڑکیلے“ کے استعمال سے ملک بھر کے شعراء و نقباء ”بھڑک“ اٹھیں گے مگرمیں کیا کروں مجبور ہوں کہ روز روز کے ان نام نہاد کانفرنسوں اور دور اندیشی و تاثیر سے یکسر خالی جلسوں اور ان میں ہونے والے بے جا ہنگاموں اور بے مطلب واہ واہیوں کی وجہ سے میرے دل کے نہاں خانے میں بھی حسرت و ندامت کا ایک شعلہ ”بھڑک“ رہا ہے۔ 

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عمل اپنی تاثیر کھو بیٹھے اور اس سے خاطر خواہ نتیجہ نکلنا سرے سے بند ہو جائے تو لوگ اس عمل کی شکل و صورت اور ہیئت کی تبدیلی پر غور و خوض شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس مخصوص عمل میں ہلکی ترمیم یا مکمل طور سے تبدیلی لائی جاتی ہے۔ مگر ہماری قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے زعماء اور قائدین جو عموما علماء اور پیران طریقت ہوتے ہیں نہ اس تعلق سے کبھی سوچتے ہیں اور نا ہی گنتی کے ان چند حضرات کی تائید کرتے ہیں جو اس قسم کی سوچ کے ساتھ ان کے حضور حاضر آتے ہیں۔ حد تو اس وقت ہو جاتی ہے جب ہماری قوم کے یہ پیشوا ان جدید بلکہ مفید سوچ کے حاملین کی سخت تنقید کرنے لگتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بعض اوقات تو بات اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ یہ ان کی سوچ کو بدعات سے تعبیر کرتے ہوئے ان پہ فتوؤں کی ایسی بوچھار کرتے ہیں کہ وہ قوم کی نظروں میں غدار بن کے رہ جاتے ہیں۔ بلا شبہ ایسے تنگ ذہن اور ناعاقبت اندیش پیشواؤں کی وجہ سے آج ملت اسلامیہ کو ایک بڑے خسارے کا اندیشہ ہمہ وقت لاحق ہے۔

سوال یہ ہے کہ قوم و ملت سے جڑے اس بڑے نقصان اور عظیم خسارے کا حساب کون لے گا؟ کون اس کے متعلق سنجیدگی سے سوچے گا اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں اجتماعات اور کانفرنسوں میں بنیادی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کے متعلق ٹھوس اقدامات کی پہل کرے گا؟ جواب ہے کوئی نہیں۔ جی ہاں! کوئی نہیں۔کیوں کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جس میں آج کی تاریخ میں تیس سے پینتیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں اہل سنت یا سوادِ اعظم کی کوئی ایسی مستحکم تنظیم، منظم جمعیت یا اعلی قیادت ہے ہی نہیں جو اس کی ذمہ داری اٹھائے اور وقت کے اس عظیم فریضے کو بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا خود قائد ہے۔ ہر کوئی اپنے خطے کا خود سپہ سالار ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ہی ایک مکمل جمعیت یا انجمن تصور کیے بیٹھا ہے جس میں کسی بھی دوسرے شخص کا دخول یا مداخلت اسے قطعا گوارہ نہیں۔

کلام کا حاصل یہ ہے کہ سواد اعظم اہل سنت کی کوئی ایسی بڑی اور متحرک وفعال تنظیم ہو جس کا دائرہء کار ملک بھر پر محیط ہو اور پوری سنیت اس کے حکم کی تابع ہو۔ ایک ایسی جمعیت جس کی قوم و ملت کے تمام افرادکے نہ صرف دینی اور مذہبی بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی تمام مسائل و معاملات پر گہری نظر ہو اور بوقت ضرورت مناسب فیصلے لینا بھی اس کے دائرہء اختیار میں ہو۔ اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے (جو حال کے تناظر میں محال معلوم ہوتا ہے) تو یقینا ہمارے اجتماعات اور جلسوں کی بھی اصلاح ہوگی اور بشمول مکاتب ہمارے مدارس و جامعات بھی مستحکم ہوں گے۔ اور یقین جانیے ان دونوں کی اصلاح وقت کا اہم تقاضہ ہے اور بلاشبہ انہیں دونوں کی درستگی میں امت مسلمہ کی فلاح مضمر ہے۔ کیوں کہ مدارس کی درستگی در اصل کتاب کی درستگی ہے اور جلسوں کی درستگی در اصل خطاب کی درستگی ہے۔ جس طرح مدرسے کا مطلب کتاب سیکھنا ہوتا ہے اسی طرح جلسے اور اجتماع کا مطلب ہوتا ہے خطاب سننا۔ بلفظ دگر خطاب جلسے کی اصل اور روح ہے۔ مگر آج ہمارے جلسوں کا حال یہ ہے کہ ان میں خطاب کم ہو رہا ہے اور نعتیں اور مناقب حتی کے بعض اوقات اسٹیجوں پہ موجود پیروں کے قصائد زیادہ پڑھے اور سنے جا رہے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جتنی زیادہ نعتیں پڑھی گئیں اور جتنے زیادہ نعرے لگے جلسہ اتنا کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔

مضمون کی ابتدا میں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہم نے طنز کے تیر فقط شعراء اور اجلاس کے نقیبوں پر ہی چلائے ہیں اور خطیب حضرات کی شان میں گستاخی سے خود کو دور ہی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بلا شبہ خطبائے اجلاس اور مقررینِ بزم میں بھی کمیاں ہیں اور بہت زیادہ ہیں۔ مگر چوں کہ یہ محفل کی روح اور مجلس کی اصل ہوتے ہیں اس لیے میں نے ان کے خلاف اپنی انگلیوں کو حرکت دینے سے باز ہی رکھا۔ خطیب کا چھوٹا بڑا ہونا، علم میں کمی بیشی اور اخلاص و عمل میں تفاوت الگ بات ہے، ہو سکتا ہے۔ مگر ہم پر ان کا احترام واجب ہے کیوں کہ یہ ہر طرح کی چھوٹی بڑی مجالس کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں جن کے بغیر کسی بھی اجلاس کا تصور ناممکن ہے اور بلاشبہ عوام اہل سنت میں دین کی رہی سہی رمق انہیں کی مرہون منت ہے۔ پھر خطاب کی روایت بڑی پرانی ہے جو بنفس خود ایک سنت عمل ہے جس کے ذریعے عوام کو سیدھی راہ چلنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ مگر نعت خوانی کی روایت کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی آج دی جا رہی ہے، خاص طور سے ان بڑے بڑے اجتماعات میں جن کے انعقاد کا مقصد قوم کو کوئی بڑا پیغام دینا ہو۔ اس حقیقت سے مجھے قطعی انکار نہیں کہ نعت پاک پڑھنا اور سننا بھی ایک خالص سنت عمل ہے اور جس میں دونوں جہان کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ مگر بڑے بڑے اجتماعات (جن میں ایک عالَم اور جم غفیر دین سیکھنے کی غرض جمع ہوتا ہے) کا اکثر حصہ نعت خوانی میں ضائع کر دینا اور خطابت کے لیے صرف ایک گوشہ نکال لینا کسی صورت درست نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ نعت خواں حضرات جنہیں گویّے کہنا زیادہ مناسب ہوگا جلسے کے بعد یا بعض اوقات اس سے پہلے اپنی فیس بھی وصولتے ہیں۔ ایک بات صاف کر دوں کہ نعت خوانی کو اپنا پیشہ بنا لینا کسی طور جائز نہیں ہاں ایک خطیب اپنی خطابت کا معاوضہ لے سکتا ہے کیوں کہ اس کا خطاب کتاب کی طرح ہے۔ یعنی جس طرح ایک مدرس کے لیے اپنے درس و تدریس کا وظیفہ لینا جائز ہے کیوں کہ اس کے لیے وہ اپنا وقت دیتا ہے۔ اسی طرح ایک خطیب کے لیے بھی اپنے خطاب کا وظیفہ لینا درست ہے کہ خطاب در اصل کتاب ہی ہے۔  

مروجہ نعت خوانی کے نقصانات پہ تو خیر الگ سے ایک مضمون تیار کیا جا سکتا ہے مگر موضوع کو طول دینا میرا مقصد نہیں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ آج کے نازک دور میں جب کہ ملت کا شیرازہ مکمل طور سے بکھرنے کے کگار پر ہے ہمارے جلسے جلوس کا بیش قیمت وقت نعت خوانی میں تو ضائع ہو ہی رہا ہے مگر افسوس کہ حال ہی میں ایک اور فرقے نے اپنا سر اٹھایا اور نہایت تیزی سے اس نے ہماری محفلوں کو اپنی گرفت میں لے کر محفل کے تقریبا نصف وقت پہ اپنا قبضہ مضبوط کر لیا۔ یہ فرقہ ہے نقبائے اجلاس یا ناظموں کا، جو اپنی تک بندیوں اور اچھل کود والی نقابت یا نظامت سے محفل میں چار کیا ہزار چاند لگا دیتے ہیں اور بزعم خود محفل کا حسن دوبالا کر دیتے ہیں۔ یہ اتنے بڑے ادیب ہوتے ہیں کہ اگر واقعی کوئی ادیب ان کے ادب بھرے جملے سن لے تو اپنے ناقص ادب پہ شرمسار ہو جائے، یہ اتنے بڑے شاعر ہوتے ہیں کہ اگر حقیقی شاعر ان کے اشعار سن لے تو فورا خود کشی کے مواقع تلاش کرنے لگے۔

عزیز قارئین! سوچنے کی بات ہے کہ ملک و ملت کے تعلق سے اس پر آشوب دور میں ہم اپنی دینی محافل میں کروڑوں خرچ کر کے کیا کیا بیہودگی سر انجام دے رہے ہیں۔ دینی اجتماعات میں اگر شعرائے کرام اور نعت خوانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کی گنجائش نکال بھی لی جائے تو مجھے بتائیں کہ وہاں ان نقیب حضرات کی کیا ضرورت ہے جو بلاشبہ جھوٹ، مبالغہ آرائی اور اپنے بے سر و پا کے آدھے ادھورے اور گھسے پٹے اشعار سے جلسے کا آدھا وقت کسی ڈائن کی طرح کھا لیتے ہیں۔ مجھے تو اس دن سے ڈر لگتا ہے جب جلسہ گاہوں پر ان کی پکڑ مزید مستحکم ہو جائے اور بھولے بھالے لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ نقابت یا نظامت بھی نہ صرف ایک سنت عمل ہے بلکہ عین دین کا حصہ ہے۔

الغرض ہمارے یک روزہ، دو روزہ اور بعض اوقات سہہ روزہ عظیم الشان کانفرسوں اور اجتماعات میں ڈھیر ساری کمیاں بلکہ خرابیاں ہیں جنہیں فی الفور نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر بات پھر یہیں آ کے اٹک جاتی ہے کہ اس نہایت ضروری کام کو انجام کون دے گا؟ ہمارے یعنی سواد اعظم اہل سنت والجماعت کے پاس کوئی ایسی بڑی اور مستحکم قیادت ہے ہی نہیں جس کا ایک اشارہ پاتے ہی ہمارے جلسوں میں برسوں سے در آئی یہ خرابی اپنی جڑیں چھوڑ دے اور صرف اور صرف خطاب ہی محفل کا محور و مرکز بن کر رہ جائے۔ حقیقی بات ہے کہ آج قیادت کا فقدان اہل سنت والجماعت کو قریب قریب لے ڈوبا ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے جناب ظفر الدین برکاتی (مدیر ماہنامہ کنز الایمان) کا ایک مضمون نگاہ سے گزرا جس کا عنوان تھا ”سواد اعظم اہل سنت میں جماعت گم ہو گئی“۔ یقین جانیے کلیجہ منہ کو آ گیا۔ اب ”اہل سنت والجماعت“ فقط ”اہل سنت“ رہ گئی ہے، ”جماعت“ واقعی کہیں گم ہو گئی ہے یا یوں کہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے اور بے وقعت ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئی ہے جسے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی اپنے ساتھ اڑا لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔

 گراں نہ گزرے توتجربے کی روشنی میں ایک آخری بات کے ساتھ اپنی تحریر کو سمیٹوں۔ ناچیز اپنی تعلیم اور اس کے بعد روزگار کے سلسلے میں ایک عرصے سے ریاست کیرلا میں مقیم ہے۔ اور یہاں کے سنی مسلمانوں کے حالات سے خوب واقف ہے۔ اس سر زمین کے اہل سنت و الجماعت کی ڈھیر ساری اچھائیوں اور ان گنت خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ اپنے مذہبی جلسوں اور دینی سمّیلنوں میں صرف اور صرف خطاب یعنی تقریر اور بیان ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے کانفرنسوں میں پیشہ ور شعراء و نقباء دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا بالکل نہیں کہ یہ نعت نبی نہیں سنتے یا اس سے بھاگتے ہیں بلکہ بات کا مطلب یہ ہے کہ اہم اور سنجیدہ محفلوں میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تاہم گاہے بگاہے حصول برکت کے لیے اجلاس کے آغاز میں یا پروگرام میں کسی وقفے کے دوران مدرسے کے کسی طالب علم سے نعت نبی ضرور سن لیتے ہیں۔ باقاعدہ شعراء کو اس کام کے لیے مدعو نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سر زمین پر پیشہ ور شعراء کی روایت کو فروغ نہ مل سکا۔ رہی بات نقابت و نظامت کی تو اس کے لیے پرواگرام کے منتظمین ہی سے ایک شخص منتخب ہوتا ہے جو مائک پہ آآ کر اگلے خطیب کا فقط نام پکارتا ہے۔ بعض اوقات یہ کام سرے سے آف اسٹیج کیا جاتاہے۔ یعنی ناظم اجلاس اسٹیج پہ جاتا ہی نہیں بلکہ اسٹیج کے نیچے ہی کسی گوشے سے اپنے مخصوص مائک کے ذریعے اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ اسی لیے شعراء کے ساتھ ساتھ یہاں کسی بھی طرح کے اجلاس کے لیے پیشہ ور نقباء کا بھی کوئی وجود یا تصور نہیں۔

اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پروگرام کا وقت بچتا ہے اور سامعین کی مکمل توجہ کا مرکز فقط خطباء ہوتے ہیں۔ یہ بھی بتا دوں کہ پروگرام کے اکثر مقررین مقامی ہوتے ہیں جو کم سے کم وقت میں اپنی بات سمیٹ لیتے ہیں اورباقی وقت باہر سے مدعو خصوصی خطیب (جن کی تعداد ایک یا بمشکل دو ہوتی ہے) کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہاں مقرر خصوصی کی گفتگو کافی طویل اور سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ خطیب صاحب منتظمین اجلاس کی سے طرف دیے گئے مخصوص و معین موضوع پہ مکمل تیاری اور باضابطہ کئی صفحات کے نوٹ کے ساتھ حاضر آتے ہیں اور جب مائک سنبھالتے ہیں تو سارا مجمع مکمل خاموشی کے ساتھ ہمہ تن گوش ہو کر ان کی گفتگو سماعت کرتا ہے۔ شاید آپ مبالغہ سمجھیں مگر یقین کریں کہ کچھ سامعین بھی ایسے ہوتے ہیں جو باضابطہ کاپی قلم کے ساتھ بیٹھتے ہیں تاکہ اہم نکات کو نوٹ کر سکیں۔ دوران خطاب نہ کسی طرح کا ہنسی مذاق ہوتا ہے نہ نعروں کی صورت میں شور شرابا اور ہنگامہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نہ جانے تحریر کے اس موڑ پہ مسلمانان کیرلا کے متعلق مجھے میرے ہی ہم جماعت اور نہایت عزیز دوست مولانا نورانی رضا صاحب کا دور طالب علمی میں کہا گیا یہ جملہ کیوں یاد آ رہا ہے کہ۔۔۔۔۔”یہ لوگ پروگرام کے باہر (روز مرہ کے ایام میں) زیادہ متحرک اور پرجوش نظر آتے ہیں اور جب پروگرام منعقد ہوتا ہے تونہایت ادب اور کمالِ خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر سماعت کرتے ہیں۔“  جبکہ ہمارا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ہم بوقت پروگرام بڑے پرجوش اور گرم نظر آتے ہیں اور پروگرام کے بعد بالکل سست اور نرم پڑ جاتے ہیں۔
 اب سوال یہ ہے کہ کیرلا میں یہ صورت حال کیوں بنی رہی؟ تو جواب یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سے مسلمانوں کی ایک مستحکم تنظیم اور زبردست قیادت رہی ہے جس نے ہمہ وقت اہل سنت و جماعت کے افراد کی نگرانی کی اور ہر محاذ پہ ان کی رہبری کا فریضہ انجام دیا ہے۔ یہاں کی عوام کی بھی داد دینی ہوگی جس نے ہمیشہ اپنی تنظیم اور قیادت کا ساتھ دیا اور کبھی اس کے خلاف بغاوت کا علم نہ لہرایا۔ نتیجۃ اس خطے کے مسلمانوں کی خوشحالی اور جماعت اہل سنت کی شادابی آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کاش ہم بھی اپنی اعلی قیادت کے قیام اور اس کے استحکام پہ توجہ دیے ہوتے اور ہر کام کو ایک منظم نظام کے تحت کرنے کے عادی ہوتے تو نہ صرف یہ کہ ہمارے مذہبی جلسوں اور دینی اجتماعات میں تبدیلی و بہتری آتی بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی ہر سطح پر ہماری حالت کا گراف مزید اونچا ہوتا۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter