یوپی کا چناؤ - بی جے پی میں تناؤ اور فرقہ پرستی پہ دباؤ

آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی اور اہم ریاست اتر پردیش کے اسمبلی چناؤ کا بگل بج گیاہے اور انتخابات کی تواریخ کا رسمی طور پر اعلان بھی ہو چکاہے۔ یوں تو یو پی کے ساتھ چار اور ریاستوں پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں مگر ملک بھر کی نگاہیں یوپی کے چناؤ پہ اس لیے مرکوز ہیں کہ یہاں کی اسمبلی نشستیں دیگر کسی بھی ریاست کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور یہ سیٹیں لوک سبھا چناؤ پہ بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں پچھلے پانچ سالوں سے بی جے پی یعنی زعفرانی پارٹی کی حکومت ہے جس کی قیادت نہ صرف وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ بلکہ ملک کے وزارت عظمی کی اعلی ترین کرسی پہ فائز نریندر مودی بھی کر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں سے ڈبل انجن کی اس سرکار کی کارکردگی چاہے جیسی بھی رہی ہو مگر اس بار اس الیکشن کو جیتنا نہ صرف یوگی جی کے لیے ضروری ہے بلکہ وزیر اعظم کے لیے بھی عزت کا سوال ہے۔ کیوں کہ الیکشن میں متعلقہ پارٹی کی سست شمولیت اور برے نتائج کے نتیجے میں یوگی مودی دونوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے والی ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ شکست ملک میں مودی لہر کے مکمل خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ اس لیے ریاست میں انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بی جے پی نے اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا ہے اور ریاست کے لوگوں کو رجھانے کا ہر ممکن حربہ استعمال میں لا رہی ہے۔

ریاست کی دوسری پارٹیاں بھی اس مرتبہ پورے حوصلے اور جذبے کے ساتھ میدان انتخاب میں کود گئی ہیں۔ پانچ سالوں سے بی جے پی کی ناقص و ناکارہ حکومت نے ان کے حوصلوں کو مزید تقویت پہنچائی ہے اور وہ پورے وثوق اور کافی توقعات کے ساتھ انتخابی عمل میں مصروف ہیں۔ یوپی میں بی جے پی کو براہ راست ٹکر دینے والی سماج وادی پارٹی کے ستارے ان دنوں عروج پر ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اکھلیش یادو کی ریاست میں زبردست مقبولیت اور پارٹی کے تئیں ان کی محنت اس بار بی جے پی کے پرانے ہندو مسلم کارڈ کا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی طرف سے پرینگا گاندھی کے دیئے گئے نعرے ”لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں“ کا جادو بھی ریاست کی عورتوں کے بیچ سر چڑھ کے بول رہا ہے اور اس کی گونج ریاست بھر میں سنی جا رہی ہے۔ مانا کہ ہندوستان کی قدیم ترین پارٹی کی کارکردگی ہندوستان کی عظیم ترین ریاست میں کافی مدت سے حوصلہ افزا نہیں رہی ہے مگر سیاسی ماہرین کے مطابق اس نے بھی اس بار قدم جمانے کا سوچ لیا ہے اور اس تعلق سے مسلسل تگ و دو میں ہے۔ خاص طور سے یہاں کے مسلمانوں کی خاصی تعداد کو بی جے پی کی فرقہ واریت کے مقابلے خود کو سیکولر ثابت کر رجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم موجودہ ریاست کے مسلمان اکھلیش یادو کے سیکولرزم کے مقابلے کانگریس کے برسوں آزمودہ سیکولرزم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

مجلس اتحاد المسلمین کو جاریہ الیکشن میں چوتھی بڑی پارٹی کے طور پہ دیکھا جا رہا ہے۔ اگر چہ ریاست میں مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی جیسی بڑی اور اہم پارٹیاں موجود ہیں جو اسمبلی کی سبھی403نشستوں پہ چناؤ لڑیں گی مگر باوجود اس کے کہ مجلس صرف سو سیٹوں پہ اپنے امیدوار اتارے گی اسے اہمیت اس بنا پہ حاصل ہے کہ توقع کے مطابق ریاست کے کم و بیش 20فیصد مسلمانوں کا خاصہ حصہ اپنے ہاتھ میں پتنگ کی رسی تھامنے والا ہے۔ ذرائع کے مطابق برسوں سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ظلم و ستم اور ان کی جانب سے برتی گئی حد درجہ بے اعتنائیوں کے شکار نیزمذہب و ملت کے تئیں بہتر قیادت سے محروم اتر پردیش کے مسلمانوں کو بالآخر ایک زندہ دل مسلم قائد اور مجلس اتحاد المسلمین کی صورت میں بہترین قیادت نصیب ہوئی ہے اس لیے وہ اس کا دامن خوشگوار مستقبل کی امید کے ساتھ مضبوطی سے تھام لینا چاہتے ہیں اور فسطائی طاقتوں یا سیکولرزم کا جھانسہ دے کر مسلم ووٹ بٹورنے اور سادہ دل مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی بے حیا پارٹیوں کو اتر پردیش کی کرسی سے چلتا کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست میں مجلس اتحاد المسلمین کے حوصلے اس لیے بھی بلند ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی سابقہ حکومت کے ہاتھوں زخم خوردہ دلت بھی اس کے شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں بلکہ پارٹی نے کئی دلت امیدواروں کو باضابطہ ٹکٹ بھی دے رکھی ہے جس سے اس کی سیکولر ذہنیت کا پتا ملتا ہے۔

توقع کے خلاف بہوجن سماج پارٹی کی جاریہ الیکشن میں سست مصروفیت دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم ریاست کی سابقہ وزیر اعلی کی پارٹی کو فقط عدم فعالیت کی بنیاد پہ مسلم شناخت والی مجلس اتحاد المسلمین جیسی نووارد پارٹی سے بھی کمزور اور کم اثر کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مایاوتی نے جس طرح سے انتخابات کے شروعاتی مراحل میں کثرت سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ فراہم کیا ہے اور ریاست کے مسلمانوں کے تئیں اعلی ظرفی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے ساتھ ہی زبردست سیکولرزم کا اشارہ دیا ہے مجلس کے ساتھ ساتھ دیگر سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے اور سخت ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔بہر حال نتائج کا علم تو دس مارچ کو ہی ہوگا مگر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مایاوتی کے اس فیصلے نے مسلم ووٹروں کے درمیان سخت تشویش پیدا کر دی ہے اور ووٹوں کے بٹوارے کے خوف سے متذبذب مسلمان مزید پس و پیش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ مسلم ووٹوں کو منتشر کرنا براہ راست بی جے پی کو فائیدہ پہنچانے کے مصداق ہوگا اور اس بار یو پی کے مسلمان یہ ہرگز نہیں چاہتے۔ گو ریاست میں رہائش پذیر مسلم قوم کا بیشتر حصہ بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی بے باکی، شعلہ بیانی اور ملک و ملت کے مفاد سے لبریز خطابات کے اثر میں آ چکا ہے مگر ابھی بھی قوم کا بڑا طبقہ ریاست میں مجلس کی کم عمری اور عدم مقبولیت کے سبب اس پہ آنکھ موند کے بھروسہ کر لینے کو اپنی ہلاکت کا سبب تصور کر رہاہے۔

مسلمانوں کے نزدیک اس وقت اویسی اور مجلس کی صورت میں اپنی برسوں سے مفقود قیادت کو ڈھونڈنے سے بھی زیادہ اہم مدعا اتر پردیش کی گدی سے بھاجپا کو بے دخل کرنا ہے۔ اور اس کے لیے انہیں کسی بھی حتمی فیصلے سے قبل نہایت غور و خوض کی ضرورت درپیش ہے کیوں کہ اس بار وہ جذبات سے مغلوب کسی بھی غلط فیصلے کے نتیجے میں اپنے اوپر زعفرانی پارٹی کو مسلط کرنے کے موقف میں نہیں۔ ریاست کے دس گیارہ فیصد دلتوں کا بھی یہی حال ہے۔پچھلے پانچ سالوں سے یوگی کی سربراہی میں بی جے پی سرکار کی طرف سے برتی گئی بے اعتنائیوں کے شکار دلت بھی اس الیکشن میں بھگوا پارٹی کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہیں۔ اس بنا پہ دیکھا جائے تو یو پی کے مسلمان اور دلت دونوں ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ ان کے علاوہ مجموعی طور پر بھی ریاست کے لوگوں میں بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا رجحان ہے کیوں کہ گزشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی کو سامنے رکھیں تو بھاجپا کسی بھی زاویئے سے ووٹ کی حقدار نظر نہیں آتی۔ یوپی کے عوام کے مطابق بی جے پی نے پچھلے پانچ سالوں میں اپنے ہی ہم وطنوں کو آپس میں لڑانے، ان کے درمیان خلیج پیدا کرنے اور نفرت کی سیاست کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی بھلائی اور ریاست کی ترقی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے نزدیک فقط حکومت کی کرسی اور سرکردہ سرمایہ کاروں کی خوشنودی عزیز ہے۔ اور ان دو چیزوں کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے چاہے اس کے لیے عوام اور ملک کی سالمیت کو خطرے میں ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے۔

سچ پوچھیں تو اقتدار کے نشے میں چور بھاجپا کی اسی ہٹ دھرمی اور جارحانہ رویے نے اس کے اندرونی تانے بانے کو بکھیر کے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر وہ دم خم دکھائی نہیں دے رہا جو 2017 میں تھا۔ وزیر اعظم اور امیت شاہ کے بشمول اس کے انگنت قدآور نیتا مختلف ریلیوں اور روڈ شوز میں خطابات کے نام پر چیختے چلاتے نظر تو آ رہے ہیں مگر چہرے سے ان کی پریشانی اور شکست کا خوف صاف ظاہر ہو رہاہے۔ بی جے پی حکومت میں ملک بھر میں پھیلی بے تحاشہ مہنگائی، بے روزگاری اور شرپسند ہندوتو کی کھلے عام دہشت گری اور غنڈہ گردی اپنے عروج پر ہے۔ خاص طور سے ملک کے مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ اس کی دشمنی سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں یو پی کے لوگ اگرکسی بہتر سیاسی متبادل کی تلاش میں ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اور اس کا احساس کہیں نہ کہیں بی جے پی کو بھی ہو چلا ہے۔ ظاہرا تین سو پار کی بات کرنے والی زعفرانی پارٹی زمینی حقیقت کو بھانپتے ہوئے اندر ہی اندر متزلزل نظر آ رہی ہے۔ جس سرعت سے اور جس تعداد میں بی جے پی کے ایم ایل اے اور یوگی کابینہ کے وزراء پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں ریاست میں حکمراں بھگوا پارٹی کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ہے۔ یقینا بی جے پی کے خیمے میں یہ تناؤ اس پہ دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔ ایک طرف اپنے ہی لوگوں کی بغاوت اور پارٹی سے بیزاری اور دوسری طرف دیگر پارٹیوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی مقبولیت سے اس دفعہ بی جے پی مکمل سکتے میں آ گئی ہے۔

جب حکمراں جماعت اقتدار کے غرور میں خود سر اور مطلق العنان ہو جائے تواس کی لگام عام جنتا ہی کھینچتی ہے اور اس چناؤ میں یو پی کی جنتا یہی کرنے والی ہے۔ کیوں کہ ظلم، فریب، جھوٹ اور بد دیانتی کے بل پہ بنائی گئی سرکار کی جڑیں زیادہ دیر تک استوار نہیں رہتیں اس لیے نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک سے زعفرانی پارٹی کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ بلکہ اس کی شروعات تو 2019 کی جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات سے ہی ہو چکی ہے جس میں بر سر اقتدار بی جے پی کو جے ایم ایم اور کانگریس کے اتحاد نے اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس کے بعد 2021 کے مغربی بنگا ل اسمبلی الیکشن میں ممتا کے ہاتھوں اسے منہ کی کھانی پڑی اور اب باری ہے اتر پردیش کی جس کے عوام نے اسے بر طرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یو پی کے علاوہ تین اور ریاستوں اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھی بر سر اقتدار بی جے پی کو کانگریس، عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی بڑی اور خود سے زیادہ پر اعتماد، پر عزم اور حوصلہ مند فریقوں سے سامناہے اس لیے صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان دنوں فرقہ پرست طاقتوں کے ستارے گردش میں ہیں۔

 

صدام حسین پروازؔ

6204629852

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter