امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ عالم اسلام کی ایک انقلابی شخصیت
شجر اسلام کی آبیاری کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے اس دنیا میں انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس جماعت کو مبعوث فرمایا۔تاکہ وہ دنیائے جہالت کی تاریکی کو نور الٰہی سے دور کر دیں- ان نفوس قدسیہ نے دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جب جب باطل قوتوں نے اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے کی کوشش کی ان کی قوتوں اور ان کے ناپاک عزائم کو تہ تیغ کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے انبیائے کرام، صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی مقدس جماعتوں کو اس دنیا میں بھیجتا رہا۔ چودہویں صدی ہجری میں جب ان شخصیات کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں تو ان بندگان خدا میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضامحدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات ایک امتیازی مقام رکھتی ہے۔ اب حیات اعلیٰ حضرت کے چند درخشاں پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ۱۰/ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴/جون ۱۸۵۶ء کو ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور ۲۵/صفر المظفر۱۳۴۰ھ،۱۹۲۱ء میں اسی شہر میں وصال فرمایا۔ آپ نے بریلی کے ایک علمی گھرانے میں پرورش پائی۔ آپ کے آباؤاجداد وقت کے بڑے عالم اور عارفِ کامل تھے۔ ساتھ ہی علومِ عقلیہ و نقلیہ میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ایسے نیک اور عارف کامل آباؤ اجداد کی تربیت نے امام احمد رضا کو علم و فضل وکمال کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔آپ نے محض چودہ سال کی عمر میں مروجہ علوم وفنون سے فراغت حاصل کر لی اور اپنے والد ماجد جو کہ وقت کے بڑے مفتی تھے، ان سے سند اعتماد حاصل کر لی اورکم عمری میں ہی اپنی تبحر علمی کی بنیاد پر فتویٰ نویسی کا کام شروع کر دیا۔ آپ نے بیشتر علوم اپنے والد ماجد حضرت علامہ مفتی نقی علی خاں علیہ الرحمہ (متوفیٰ؛ ١٢٩٧ہجری) سے ہی حاصل کیا، اپنے والد ماجد کے علاوہ اپنے زمانے کے جلیل القدر علما و فقہا سے بھی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کیا۔
امام احمد رضا نے مروجہ علوم کے ساتھ ان علوم و فنون کی بھی تحصیل کی جس پر عام طور سے کم دسترس حاصل کی جاتی ہے۔ آپ کے ایسے تما م علوم وفنون کی تعدادپچپن کے قریب ہے، جن پر امام اہل سنت نے سیکڑوں کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ کون سا علم ہے جس پر اعلیٰ حضرت نے قلم نہیں اٹھایا، تفسیر و حدیث اور فقہ و فتاویٰ کے امام تو تھے ہی۔علم ریاضی، ہیئات،توقیت، فلسفہ اور علم جفر، نجوم، ہندسہ میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی۔
امام احمد رضا ایک سچے عاشق رسول تھے، آپ کا عشق رسالت آپ کی نعتیہ شاعری سے عیاں ہوتا ہے۔ آپ کے نعتیہ دیوان ”حدائق بخشش“ میں جگہ جگہ اس کے جلوے نظر آتے ہیں۔ آپ نے جہاں عشق رسالت کا درس دیا وہیں اپنے علم و عمل سے عالم اسلام کو مستفید فرمایا۔ لوگوں کے اعمال و عقائد کی اصلاح کی بہت کوششیں کیں، کتابیں لکھیں، رسائل ترتیب دیے، فتاوی جات کے ذریعے بھی آپ نے دینی فریضے کو انجام دیا۔ ملک اور بیرون ملک سے آپ کے پاس شرعی سوالات آتے، آپ ان سب کے جوابات ان کی زبان میں عطا فرماتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ نے تقریباً سات سو سے زائد کتب و رسائل تحریر فرمائے۔ اس طرح آپ کی خدمات کا دائرہ ملک و بیرون تک پھیلا ہوا ہے۔ بس ضرورت ہے کہ آپ کی حیات و خدمات کا مطالعہ کیا جائے اوراہل علم و تحقیق اور عوام تک پہنچایا بھی جائے۔ آپ کی ذات علم ظاہر اور علم باطن دونوں سے مزین تھی، اسی لیے تو آپ کے پیر ومرشد حضور خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی علیہ الرحمۃ والرضوان نے آپ کے باطن پر ایک نظر کی اور اپنے سلسلے میں بیعت کرنے کے ساتھ ہی خلافت بھی عطا فرما دی جو عام طور پر ہر کسی کو نہیں دی جاتی تھی، اس کی ایک جھلک پیش ہے:
امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ۱۲۹۴ھ /۱۸۷۷ء میں عاشق رسول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی کے مشورے پر اپنے والد ماجد کے ساتھ حضرت سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کیا اور بیعت کے ساتھ ہی اجازت و خلافت بھی عطا کر دی گئی۔ آپ کے پوتے اور خلیفہ خاص حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری بھی موجود تھے۔ عرض کیا، حضور آپ کے یہاں تو بڑی ریاضت و مجاہدہ کے بعد خلافت عطا کی جاتی ہے، پھر ان کو ابھی کیسے عطا کردی گئی؟ حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی نے جو جواب ارشاد فرمایا اس سے جہاں ان کے مقام ولایت کا پتا چلتا ہے وہیں اعلیٰ حضرت کے روحانی مرتبہ اور شیخ کامل کی نظر میں آپ کی عزت و عظمت کا بھی پتا چلتا ہے۔ سید آلِ رسول مارہروی نے فرمایا: ”اور لوگ میلا کچیلا زنگ آلود دل لے کر آتے ہیں، اس کے تزکیہ کے لیے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت پڑتی ہے، یہ مصفیٰ و مزکیٰ قلب لے کر آئے، اِنہیں ریاضت ومجاہدے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف اتصال ِنسبت کی حاجت تھی جو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوگئی۔ (امام احمد رضا اور تصوف،صفحہ۹،۱۰)
آپ کی عظمت و بلندی کا مظاہرہ عہد طفولیت سے ہی ہو رہا تھا،کیو ں کہ اللہ عزوجل جس پر اپنا خاص فضل فرمانا چاہتا ہے اس کی نشانیاں بچپن سے ہی ظاہر فرماتا ہے۔آپ کی بچپن میں یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجائیں تو کرتے کے دامن سے منہ چھپا لیتے جب کہ آپ کی عمر بہت کم ہوتی۔ حضرت ملک العلماعلیہ الرحمہ نے سوانح اعلیٰ حضرت میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تھا ”الحیاء شعبۃ من الایمان“اور فطری تقویٰ کا مظاہرہ جس سے ان کا باطن بالکل صاف جھلکتا تھا۔ ایسے واقعات جابجا آپ کے تذکرے میں ملتے ہیں۔ ہمیں ان واقعات سے نصیحت حاصل کرنا چاہیے کیوں کہ اللہ کے نیک بندوں کے اقوال وافعال لائق اتباع ہوتے ہیں، بلکہ اللہ عزوجل دین کے احکام ان کے ذریعے جاری فرماتا ہے۔
جب اعلیٰ حضرت نے پہلا روزہ رکھا توآپ کے والد محترم نے روزہ کشائی بڑے دھوم دھام سے کی۔ سارے خاندان اور دوست احباب کو مدعو کیا۔ گھر میں افطار کا اور بہت قسم کا سامان رکھا تھا۔کھانے پینے اور افطاری کا انتظام کیا گیا۔ ایک کمرے میں فیرنی کے پیالے جمانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ رمضان المبارک گرمی کے موسم میں تھا۔ اعلیٰ حضرت ابھی چھوٹے تھے، مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا، ٹھیک دوپہر میں چہرہ بھوک اور پیاس کی شدت سے خشک ہو چکا تھا۔ آپ کے والد ماجد نے دیکھا تو آپ کو اس کمر ے میں لے گئے، جس میں فیرنی کے پیالے رکھے ہوئے تھے اوراندر سے دروازہ بند کرکے ایک پیالہ اٹھاکر دیا اور فرمایا کہ اسے کھالو۔ آپ نے کہا کہ میرا تو روزہ ہے، کیسے کھاؤں؟ والد نے کہا کہ بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے، میں نے دروازہ بند کر دیا ہے۔ کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ جس کا روزہ ہے، وہ تو دیکھ رہاہے۔ یہ سنتے ہی والد کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور کمرہ کھول کر باہر لے آئے۔
آپ نے اپنے بچپن کے اس واقعے سے ہمیں یہ درس دیا کہ اللہ عزوجل بندے کو ہر جگہ دیکھتاہے۔ بندے کو گناہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دنیا میں کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، وہ توضرور دیکھتا ہے۔ اس نصیحت کو اگر ہم ہر وقت پیش نظر رکھیں توآسانی کے ساتھ گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ورنہ شیطان تو ہمیں گناہوں کے گڑھے میں ڈالنے کے لیے پوری کوشش میں لگاہوا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی ناپاک کوششوں کوناکام کرکے رب عزوجل کی رضا و خوشنودی حاصل کر لیں۔ اس سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ ہمیں بچپن سے ہی روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ زیادہ چھوٹے بچے ہوں تو مہینے میں ایک دو ہی روزہ رکھ لیں اور جب بالغ ہو جائیں تو ضرورپورا رکھیں۔
ایک بار اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کا پاؤں کا انگوٹھا پک گیا ان کے خاص جراح (جو شہر میں سب سے زیادہ ہوشیار اور ماہر جراح تھے) جن کو بعض سول سرجن بھی خطرناک آپریشن میں شریک کرتے تھے ان کا نام مولیٰ بخش مرحوم تھا)، انہوں نے اس انگوٹھے کا آپریشن کیا، پٹی باندھنے کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ حضور اگر حرکت نہ کریں گے تو یہ زخم دس بارہ روز میں خشک ہو جائے گا ورنہ زیادہ وقت لگے گا وہ یہ کہہ کر چلے گئے،
یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ مسجد کی حاضری اور جماعت کی پابندی ترک کر دی جائے، جب ظہر کا وقت آیا آپ نے وضو کیا کھڑے نہ ہو سکتے تھے تو بیٹھ کر باہر پھاٹک تک آگئے،لوگوں نے کرسی پر بیٹھا کر مسجد پہنچا دیا اور اس وقت اہل محلہ اور خاندان والوں نے یہ طے کیا کہ علاوہ مغرب کے ہر اذان کے بعد ہم سب میں سے چار مضبوط آدمی کرسی لے کر زنانہ میں حاضر ہو جایا کریں گے اور پلنگ پر سے کرسی پر بیٹھا کر مسجد کے محراب کے قریب بیٹھا دیا کریں گے اور مغرب کی نماز کے وقت کے اندازے سے حاضر ہو جایا کریں گے، یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک بڑی پابندی سے چلتا رہا، جب زخم اچھا ہو گیا اور آپ خود چلنے کے قابل ہو گئے تو یہ سلسلہ ختم ہوا کرسی اٹھانے والے چار آدمیوں میں سے التزام کے ساتھ اکثر میں (علامہ حسنین رضا خان) بھی ہوتا تھا اس عمل کو میں اپنی بخشش کا بڑا ذریعہ سمجھتا ہوں نماز تو نماز ہے ان کی جماعت کا ترک بھی بلا عذر شرعی شاید کسی صاحب کو یاد نہ ہوگا۔ (سیرت اعلیٰ حضر ت،صفحہ۴۴، ۴۵)
یہ تھی امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے شب و روز کی ایک جھلک۔ اللہ کا خوف، شریعت مصطفےٰ کا پاس و لحاظ اتنا تھا کہ پیر میں شدید زخم ہونے کے باوجود نماز تو نماز جماعت کو بھی ترک نہیں کیا۔ ایسی حالت میں بھی جماعت کا اہتمام کیا۔ ان واقعات سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ قرآن مجید کی آیت ”اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا“ کے سچے مصداق تھے جیسا کہ دنیا والوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔آپ کی زندگی میں اس قسم کے بے شمار واقعات ملتے ہیں، جس سے آپ کے شریعت پر سختی سے عامل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ”حیاتِ اعلیٰ حضرت،امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں،امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات“کا مطالعہ مفید ہوگا۔