اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں(7)
آج ہم اللہ کے رسولﷺکی تین دعاؤں پربحث کریں گے۔پہلی دعا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔اللہ کے رسول ﷺاس طرح دعا کرنے کا حکم دیتے تھے"اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ"۔ ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ناکارہ عمر میں پہنچا دیا جاؤں، میں تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے “(بخارى)۔
دوسری حدیث کے راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔آپ فرماتے ہیں اللہ کے رسولﷺاس طرح سے دعافرمایا کرتے تھے: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ"۔ ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی سے ‘ بزدلی اور بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے“(بخارى)۔دونوں دعاؤں میں دس چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔بڑھاپے کو ایک جگہ" أرذل العمر" اور ایک جگہ "الھرم "کہا گیا ہے تو اس طرح نو چیزیں بنتی ہیں۔ہم اس سے پہلے "بخل،جبن،عجز اور کسل" کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔آج ہم بڑھاپے،دنیا کے فتنے،قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کے فتنوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ کے رسول ﷺنے بڑھاپے سے کیوں پناہ مانگی اس کی خاص وجہ ہے۔یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر آدمی کا بڑھاپا ایک جیسا نہیں ہے۔وہ نیک لوگ جو اللہ کی اطاعت میں رہتے ہیں یقینا ان کا بڑھاپا ان کے لیے مزید کارخیر کرنے کا باعث بنتا ہے۔بڑھاپا سے غالبا اس وجہ سے پناہ مانگی گئی ہے کہ انسان اس عمر میں پہنچ کر بالکل ناکارہ ہوجاتا ہے۔اللہ نے جنہیں صحت دی ہے وہ تو ٹھیک رہتے ہیں لیکن جو لوگ بڑھاپے کی وجہ سے بیمار ہوجاتے ہیں ان کے لیے بڑھاپا کئی ایک برائیاں لے کرآتا ہے۔اولاد صحیح اور نیک ہے تو ٹھیک ورنہ انہیں اولاد کے ہاتھوں ہی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔بڑھاپے کی یہی سب صورتیں ہیں جن کی وجہ سے غالبا اللہ کے رسول ﷺنے اس سے پناہ مانگی۔اللہ ہمیں بھی دنیا میں جب تک رکھے صحت اور تندرستی کے ساتھ رکھے اور ہمیشہ نیک کاموں میں مصروف رکھے۔آمین۔
دنیا کے فتنوں سے مراد کئی ساری چیزیں ہوسکتی ہیں۔ایک قول بہت مشہور ہے کہ جو بھی تمہیں اللہ کی راہ سے دور کرے وہ دنیا ہے۔دنیا کا معنی یہاں منفی انداز میں لیا گیا ہے یعنی ہر وہ چیز جو نیک کام میں رکاوٹ پیداکرتی ہے یا برائی کی طرف کھینچتی ہے اسے ہم دنیا کہہ سکتے ہیں۔ایک ہی چیز برائی اور بھلائی دونوں کاسبب بن سکتی ہے۔تجارت اگر ایمان داری سے کی جائے تو لائق اجروثواب ہے اور اگر جھوٹ،دھوکہ اور بے ایمانی سے تو سراسر عذاب ہے۔نیک اولاد اللہ کی بہترین نعمت ہے مگر بری اولاد ایک آزمائش۔علم اگر فائدہ دے تو اس کا حاصل کرنا افضل ہے مگر جو علم فائدہ نہ دے وہ آخرت میں خود اس کے حاصل کرنے والے کے لیے عذاب کا سبب بن جائے گا۔
قبر کا عذاب حق ہے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور اس نے قبر میں ہونے والے عذاب کا ذکر کیا۔اس کے جانے کے بعد اللہ کے رسولﷺتشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھاکہ کیا واقعی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔اللہ کے رسولﷺنے فرمایا ہاں قبر میں عذاب ہوتا ہے اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق عذاب دیے جانے کی آواز کو سنتی ہے۔حدیثوں میں قبر کے عذاب کا ذکر ہے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺایک جگہ سے گزرے تو آپ کو قبر کا عذاب سنائی دیا۔آپ قبر کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ایک آدمی پیشاب سے نہیں بچتا تھا (ناپاک رہتا تھا) اور دوسرا چغلی کرتا تھااسی لیے ان پر عذاب ہورہا ہے۔پھر آپ نے دو ہری بھری شاخیں منگا کر دونوں کی قبر پر گاڑدیں۔صحابہ نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے عذاب میں تھوڑی بہت کمی کی جائے گی۔قبر کے عذاب سے متعلق بہت سی احادیث ہیں جن کایہاں بیان کرنا مقصود نہیں ہے بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ قبر میں واقعی عذاب ہوتا ہے۔
زندگی اورموت کے فتنوں سے کئی ساری چیزیں مراد لی جاسکتی ہیں۔انسان اپنی زندگی میں بہت ساری آزمائشوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ان تمام آزمائشوں میں اللہ سے راضی رہنا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے۔جو شخص ایسی آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ یقینا اللہ کے قریب ہوجاتا ہے مگر جو ان آزمائشوں میں کما حقہ کامیاب نہیں ہوپاتا اسے اللہ کی ناراضگی مول لینی پڑتی ہے۔زندگی کے فتنوں میں کفر وشرک اور ضلالت و گمرہی بھی شامل ہے۔ایمان پر خاتمہ بھی ایک بڑی آزمائش ہے۔موت کے فتنوں سے مراد قبر میں فرشتوں کے سوال مراد ہیں۔قبر میں سوال تو یقینی ہے مگر کامیاب شخص وہ ہے جو ان سوالوں کا صحیح جواب دے کر کامیاب ہوجائے ورنہ جو شخص ان سوالوں کا صحیح جواب نہ دے سکے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب ِ قبر میں مبتلا کردیا جائے گا۔حدیث میں اسی عذاب سے پناہ مانگی گئی ہے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے موت کے وقت پیش ہونے والے فتنے مراد ہیں۔موت کے وقت انسان کو شدید پیاس لگتی ہے،شیطان حاضر ہوتا ہے،شرک کی دعوت دیتا ہے۔ایسے وقت میں بھی ایمان پر قائم رہنا مشکل ہی ہے۔
ام المؤمنین سيده عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور حدیث مروی ہے ، بیان کرتى ہیں کہ نبی کریم ﷺاكثر یہدعا کیا کرتے تھے:"اللَّهُمَّ إنِّي أعُوذُ بكَ مِن عَذابِ النَّارِ وفِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، ومِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطايايَ بماءِ الثَّلْجِ والبَرَدِ، ونَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطايا كما يُنَقَّى الثَّوْبُ الأبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وباعِدْ بَيْنِي وبيْنَ خَطايايَ كما باعَدْتَ بيْنَ المَشْرِقِ والمَغْرِبِ"۔ ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، ناکارہ عمر سے، بڑھاپے سے، قرض سے اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے، دوزخ کی آزمائش سے، قبر کے عذاب سے، مالداری کی بری آزمائش سے، محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ مشرق و مغرب میں ہے “(بخارى)۔
مذكوره حديث کے مطابق دوزخ میں آگ ہی آگ ہے اس لیے اسے 'نار' یعنی آگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔'عذاب النار' سے جہنم میں دی جانے والی مختلف سزاؤں سے پناہ مانگی گئی ہے۔'فتنۃالنار' سے مراد دوزخ کے داروغہ کا یہ سوال ہے جو وہ دوزخ میں داخل ہونے والے سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا۔ڈر سنانے والے سے مراد نبی یا رسول ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے اور اس کی بات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں مرنے کے بعد آگ کا عذاب دیا جاتا ہے۔قرآن اور حدیث میں دوزخ میں دی جانے والی سزاؤں کا ذکر ہے، نيز حدیث میں قبر اور دجال کے فتنے کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے کی قسطوں میں لکھ دیا ہےجن کا یہاں اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
'غِنی' دولت و ثروت کی فراوانی کو کہتے ہیں اور 'فقر 'محتاجی کو۔دولت و ثروت کی فراوانی انسان کو مغرور بنادیتی ہے اور بعض صورتوں میں اللہ سے غافل بھی کردیتی ہے۔امیروں پر زکات فرض ہے۔اگر کوئی شخص صحیح طریقے سے زکات ادانہیں کرتا تو یہ مال اس کے لیے عذاب کا سبب بن جائے گا۔مال کی محبت انسان کو اس بات پر بھی ابھارتی ہے کہ وہ جائزو ناجائز صحیح و غلط ہر طریقے سے مال جمع کرے۔یہ بھی شریعت میں مذموم ہے۔'فقر 'یعنی محتاجی انسان کے اندرمایوسی پیداکرتی ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ مایوس ہوکر خود اللہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ کفر میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے۔غریب اور محتاج شخص مال کی چاہت میں جرم کرنے پر بھی تیار ہوجاتا ہے۔
دعا کے آخری حصے میں 'مغفرت اورخطاؤں سے دوری 'بنائے رکھنے کا سوال ہے۔علامہ توربشتی لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے پاک کرنے والی ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہیں اور مکمل پاکی انہیں کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے یہ مغفرت کے ان انواع واقسام کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے بعد کوئی بھی گناہ باقی نہیں رہے گا۔کپڑے کو پانی سے دھونے کے بعد برف اور اولے کے پانی سے بھی دھونا اسے اور زیادہ پاک و صاف کردیتا ہے اسی طرح اللہ کی طرف سے مغفرت کے بھی الگ الگ درجات ہیں اور دعا میں وہ سبھی مطلوب ہیں۔آخرت میں عذاب زیادہ تر آگ سے دیا جائے گا۔دعا میں آگ کے بدلے برف کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مغفرت کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے مزید رحمت کی بارش ہوگی جس سے آگ کی تپش اور اس کی حرارت میں کمی واقع ہوگی۔خطاؤں سے دوری بنائے رکھنا ضروری ہے لیکن بغیر اللہ کی مدد کے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔اس لیے یہ دعا اہم ہوجاتی ہے کہ اس میں اللہ کی مدد اور اس کی تائید کے ذریعہ برائی سے دوری بنائی جاتی ہے۔