بھارتی میڈیا: دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ

جمہوریت میں میڈیا کو چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے جس کے بغیر ایک آزاد و انصاف پسند جمہوریت کا قیام نا ممکن ہے۔ لیکن اس وقت اس میڈیا کا یہ حال ہے کہ ٹویٹر پر نشر کیے جانے والے ٹویٹس کی ان حق کے علمبرداروں سے زیادہ اہمیت ہے۔ جب صحافی خود حکومت سے سوال پوچھنے کی بجائے ان کی طرف داری میں سارے ملک کو سمجھانے بیٹھ جائیں اور حکومت کی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لانے کی بجائے خود عوام کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوں تو سمجھیے جمہوریت کے ساتھ اس سے بڑا مزاق اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

       آج جب ڈالر کی قیمت۸۰ روپے تک پہنچ چکی ہے تو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن بجائے اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے کے یہ بیان دیتی ہیں کہ ”دراصل روپیہ کمزور نہیں ہو رہا بلکہ ڈالر مضبوط ہو رہا ہے۔“ یہ بات اس قدر بچکانہ ہے کہ سوشیل میڈیا پر ان کا جم کر مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ کسی کے یہ بات ہضم ہونے سے رہی لیکن اس کے بر عکس کچھ میڈیا چینل کے صحافی باقاعدہ طور پر لوگوں کو یہ باور کرانے میں جٹ گئے کہ دراصل یہ بات صد فی صد صحیح ہے۔ ان میں آج تک، اے بی پی نیوز، انڈیا ٹوڈے اور نیوز ۱۸ جیسے قومی سطح پر چلنے والے  نیوز چینل اور ان کے نام نہاد صحافی شامل ہیں۔ یہ تو رہی حالیہ مثال۔ دراصل ۲۰۱۴کے بعد سے ملک بھر میں جو نفرت کی لہر چل رہی ہے اس میں سب سے زیادہ ذمہ دار میڈیا ہی ہے۔

        جرمنی میں ۱۹۳۳ ء/سے قبل کل ۴۷۰۰/ اخبارات میں سے حکومت کے تحت کام کرنے والے صرف تین فیصد اخبارات تھے۔ لیکن جیسے ہی ہٹلر نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تمام اخبارات کو حکومت کے تحت کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ نئے نئے قانون بنائے اور ایک کے بعد ایک اخبار اس کے جال میں پھنستے گئے۔ ان میں سے جو حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کرتا انہیں مجبور کیا جاتا یا جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر انہیں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جاتا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مہم چلائی اور ریڈیو کو سستے داموں میں بیچنے لگے۔ اس دور میں ریڈیو تقریبا جرمنی کے ۰۷ فیصد گھروں میں ہوتا تھا۔ ان پر سارا سارا دن یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں نشر کی جاتی۔ حاکم اگر عادل ہو تو وہ عوام کی خدمت پر باقی رہتا ہے لیکن اگر بے ایمان ہو تو اسے لوگوں کے جذبات پر اپنی کرسی بچانی پڑتی ہے۔ ہٹلر کو لوگوں کے سامنے کوئی ایسا گروہ چاہیے تھا جسے ملک کے لیے خطرہ اور دشمن بتایا جا سکے۔ اس لیے ریڈیو پر سارا دن اس طرح کی باتیں نشر کی جاتی کہ یہودی ہی اس ملک کے دشمن ہیں اور محض آرین نسل ہی پاک نسل ہے۔ اس لیے یہودیوں کو اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

       اس وقت ملک کے حالات اس سے محتلف نہیں ہیں۔ جہاں ۷۰ فیصد ہندؤوں کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ وہ خطرے میں ہیں اور این آر سی کے ذریعے تمام مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جانا چاہیے۔ ہٹلر کے ذریعہ جرمنی میں جو نسل کشی ہوئی اس میں تقریبا ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اور زیادہ تر قتل کرنے والے عام لوگ تھے جو ذہنی طور پر متاثر ہو چکے تھے۔ تاریخ ِ عالم کا یہ ہیبت ناک واقعہ ممکن ہوا میڈیا کی کارکردگی کی وجہ سے۔اب تو زمانہ اور بھی ترقی کر چکا ہے اور میڈیا کے نئے نئے روپ ہمیں ہر روز دیکھنے ملتے ہیں۔ ان میں سے بالخصوص ٹی وی میڈیا کو جاری رکھنے کے لیے بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور ملک بھر میں جتنے نیوز چینل ہیں انہیں اشتہار کے پیسے بھی ان کی مقبولیت کے حساب سے ملتے ہیں۔ جسے دوسرے لفظوں میں ٹی آر پی TRPکہا جاتا ہے۔ یعنی جو چینل عوام میں جتنا مقبول ہو گا اسے اتنے زیادہ اور مہنگے اشتہار کرنے کا موقعہ ملے گا۔ یہی وہ دوڑ ہے جہاں ہر چائنل ایک دوسرے پر سبقت لے  جانے کی فراق میں ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جو چاہے آداب کے خلاف ہو ں یا پھر انسانیت کے خلاف ہوں۔

       ۲۰۱۹/ میں ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزیر اعظم کے دفتر سے یہ کہا گیا کہ بی جے پی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک۳۰۰ ۴/ ہزار کروڑ روپے صرف حکومت کے اشہار کے لیے خرچ کئے گئے ہیں۔ اسی لیے تو یہ سارے نیوز چائنل نہ ان کے خلاف کچھ بول سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ جبکہ اشتہار کے پیسے بھی عوام سے وصولے جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ زیادہ تر نیوز چائنل تو از قبل ہی بی جے پی کی مٹھی میں ہیں۔اس بات کا ایک چھوٹا سا نمونہ یہاں ارشاد فرمائیں:

ذی نیوز کے مالک سبھاش چندر ہیں جو بی جے پی کے حالیہ رکن اسمبلی ہیں۔

رپبلک ٹی وی ارنب گوسوامی کا ہے جن کے والد گرامی منورنجن گوسوامی بی جے کے لیڈر تھے اور دوسرے راجیو چندرا ہیں جو بی جے پی کے حالیہ رکن اسمبلی ہیں۔

انڈیا ٹو ڈے اور نیٹورک ۸۱  ارون پوری اور مکیش امبانی کے تحت ہیں جنہیں اپنے  کاروبار کے لیے حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہمیشہ دیکھا گیا ہے۔

انڈیا ٹی وی رجت شرما چلاتے ہیں جو کہ آر ایس ایس کے طلبہ کی انجمن کے صدر رہ چکے ہیں۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جو آپ کو آسانی سے گوگل پر مل جائیں گی۔ اس کے علاوہ کتنے راز ہوں یہ خدا بہتر جانے۔ حد تو یہ ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی صحافی کے خلاف عدالتوں سے گرفتاری کے فرمان جاری ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے ارنب گوسوامی، رجت شرما، دیپک چورسیہ اور سدھیر چودھری، جنہیں آئے دن لوگ سوشیل میڈیا پر آئینہ دکھاتے رہتے ہیں۔ عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں اس سال ہم ۱۸۰ میں سے ۵۰ ۱ویں مقام پر ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی چرم سیما پر ہے۔ لیکن ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا خاص طور مسلم قوم کو۔ کیونکہ آج بھی ہمارے لیے یہ ضروری نہیں کے ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہو گا بلکہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ کوئی مولانا

کار میں تو سفر نہیں کر رہا یا کوئی اپنے فرقے کو چھوڑ کر کسی اور فرقے کی تائید تو نہیں کر رہا(ویسے یہ جملہ بھی بعض علماء کے نزدیک صلح کلّیت کی فہرست میں آتا ہے)۔اگر یہ قیامت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے؟

                     سینکڑوں ہیں خدا جن کے ایک جگہ کھڑے ہیں

                     ایک خدا والے سارے بکھرے ہوئے پڑے ہیں

      

                     نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانو!

                     تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter