لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے!
ہندوستان میں ہر سال آزادی کا جشن منایا جاتا ہے لیکن حقیقی معنیٰ میں خوشی و شادمانی اس وقت پوری ہوتی ہے جب اس کے ہر شہری کو آزادی کے ثمرات مساوی طور پر ملتے ہیں۔ برخلاف اس کے آزادی کے پھل اگر عوام کے کسی ایک خاص طبقہ کی حد تک محدود ہو جائیں اور دیگر باشندگان ملک کو اس سے محروم رکھا جائے تو یہ سراسر نا انصافی اور دیگر برادرانِ وطن کی حق تلفی و شرافت سے فراری اور ایک مہذب سوسائٹی کے لیے بدنما داغ ہے۔ اس ملک میں یہاں کے رہنے والے اکثریتی طبقے کے لوگ پچھلے کئی سالوں سے آزادی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور برسرِ اقتدار لوگوں نے بھی انہیں دریا دلی سے کام لیتے ہوئے خوب نوازتے رہے۔ اگر کوئی برادری اس ملک کی آزادی اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے ثمرات سے محروم ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا عظیم ملک اس وقت جشن آزادی منانے کی تیاریوں میں ہے کیا یہ اس کا مستحق بھی ہے؟ جبکہ اس ملک کی ایک بڑی اقلیت آزادی کے ثمرات سے یکسر محروم کر کے رکھ دی گئی ہے؟ کیا ہمارے اربابِ اقتدار نے اس جانب کبھی توجہ دی؟ پچھلے کئی دہائیوں سے مسلمانوں کی جو حالت تھی آج کے ہندوستان میں ان کی جو حالت بنا کر رکھ دی گئی ہے اگر اس کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کو مسلسل تنزل کی طرف ڈھکیلا جاتا رہا ہے۔ آزاد ہندوستان کا (مسلمان) ہر شہری یہاں کے ہر باضمیر اور اس کے دستور پر یقین رکھنے والے انصاف پسند آدمی سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ کیا مسلمانوں نے اس ملک کی کوئی خدمت ہی نہیں کی؟ کیا مسلمانوں نے اس ملک کو آزادی دلانے کے لیے اپنے خون کی قربانی پیش نہیں کی؟ کیا مسلم قائدین و عوام نے لاکھوں کی تعداد میں آزادی کی خاطر موت کو گلے نہیں لگایا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لیے سب سے پہلے کسی میں احساس پیدا ہوا ہے تو صرف مسلمانوں میں ہوا۔ اگر کسی نے اس سلسلہ میں پیش قدمی کی تو وہ مسلمان ہیں۔ اگر ملک کی خاطر کسی نے جام شہادت نوش کیا تو سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے کیا۔ پھر آخر کیوں ہمارے ملک کے ارباب سیاست و دانشوران قوم ’’مسلم جانثاران وطن‘‘ کے کارناموں کو اپنی زبان پر نہیں لاتے؟ اسی طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کو آزادی دلانے کی جد و جہد میں سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے اپنا قدم بڑھایا اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے اگر کسی کا خون اس سر زمین پر بہا تو وہ سراج الدولہ کا خون تھا۔ اس مرد مجاہد نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے جدو جہد کی اور پلاسی کی مشہور جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان عزیز قربان کردی۔ مسلم مجاہدین آزادی جن کی تعداد لاکھوں میں ہے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنے سینوں کو انگریز فوجوں کے گنوں توپوں کے سامنے پیش کردیا۔ آج ٹیپو سلطان شہید کے نام کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا حالانکہ چار مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان نے سری رنگا پٹنم کے میدان جنگ میں ملک کی بقاء اور اس کی آزادی و سلامتی کے لیے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور اپنی زندگی میں کبھی بھی انگریزوں کو اس سر زمین پر جمنے نہیں دیا۔ انگریز ٹیپو سلطان ہی کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے۔ جب ٹیپو سلطان شہید ہوئے تو انگریزوں نے اطمینان کی سانس لی اور کہا کہ آج ہندوستان ہمارا ہے۔ 1803ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوتے ہی شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے کہا کہ اب ہمارا ملک غلام ہوگیا ہے اور فتویٰ دیا کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے جدو جہد کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس طرح جہاد آزادی کا یہ سلسلہ 1818ء تک چلا جس کے بعد ایک اور تحریک چلائی گئی جس کی قیادت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے سارے ملک میں تیرہ سال تک مسلح جدو جہد کی اور سارے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور نفرت کا ماحول پیدا کر دیا۔ آخر کار دس جنوری 1831ء کو بالاکوٹ کے میدان جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے وہ شہید ہوگئے۔ ان علماء کی شہادت کے باوجود مسلمانوں کے جذبہ جہاد آزادی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اور بھی زیادہ جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔
1857ء میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں شمالی کے میدان میں انگریزوں سے سخت مقابلہ ہوا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے مسلم قائدین اٹھتے رہے اور انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی ہوتی رہی۔ چنانچہ انگریز اپنا حقیقی دشمن مسلمانوں کو ہی تصور کرنے لگے اور جہاں کہیں بھی مسلم وضع کے لوگ نظر آتے ان کو پکڑا جاتا اور پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ اس طرح کئی لاکھ مسلمان تختہ دار پر چڑھا دیے گئے جن میں ایک چوتھائی تعداد علمائے کرام کی تھی۔ 1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم کے لیے جبری طور پر بھرتی کی جانے لگی تو اس کی مخالفت میں بھی مسلمان پیش پیش رہے، ان کو گرفتار کرکے طرح طرح کی اذیتیں دی جانے لگیں لیکن یہ مسلمانوں کی ہی جد وجہد رہی کہ دوسری جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کے لوگوں کو قربانی کا بکرا بننے سے بڑی حد تک بچایا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس صرف نعرے لگاتی اور میمورنڈم پیش کرتی جبکہ عملی طور پر جدو جہد صرف مسلمان کرتے۔ اس طرح مسلمانوں کی جد وجہد اور قربانیوں کے باعث آزادی کی راہیں ہموار ہوتی گئیں۔ اس سلسلہ میں اگر صرف کانگریس پارٹی کو ’’آزادی‘‘ دلانے والی پارٹی کہا جائے تو یہ تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق اور عوام کو دھوکہ دینا ہے جیسا کہ عام طور پر مسلم دشمن صحافت کا رول رہا ہے۔ اس طرح کی دروغ گوئی میں ’’مسلم لیبل‘‘ کے ساتھ شائع ہونے والے بہت سے جرائد اور اخبارات بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کروانے میں (سوائے ایک دو مشہور مسلمانوں کے) صرف ہندوؤں نے اپنا رول ادا کیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور صریحاً حقائق کو دفن کرنا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کانگریس عین موقع پر آکر آزادی کی جد وجہد میں کود پڑی اور مسلم قیادت سے اسے ’’ہائی جیک‘‘ کرلیا اور ’’سہرا‘‘ اپنے سر باندھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے آنے والے ایک وکیل صاحب ایم کے گاندھی کو جامع مسجد دہلی لے جاکر ’’علی برادران‘‘ نے عوام سے متعارف کروایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان شروع سے ہی انگریز سامراج کے خلاف لڑتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے پانچ اگست 1942ء کو انگریز سامراج سے کہہ دیا کہ ’’تم ہندوستان چھوڑ دو‘‘ جس کے بعد کانگریس نے 8 اگست 1942ء کو اپنے بمبئی اجلاس میں قرارداد پاس کی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ دیں۔ چنانچہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں فرنگیوں کی تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا شرف بھی مسلمانوں ہی کو حاصل رہا۔ یہاں کے ارباب اقتدار و سیاست نے آزادی کی نعمتوں اور ثمرات سے مسلم برادری کو یکسر محروم رکھا اور مسلمانوں پر ’’چوٹ‘‘ لگائی جاتی ’’سنبھل کے رہنا اس دیش کے چھپے ہوئے غداروں سے‘‘ جس میں روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے۔
اس ملک میں آزادی سے قبل ہی سے ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج جیسی مسلم دشمن تنظیمیں (جن کی ذریت آج آر ایس ایس نہ جانے اور کتنے ناموں سے کار کرد ہیں) مسلمانوں کے خلاف منظم سازشیں کرتی رہیں اور آج بھی ان کی وہی حکمت عملی جاری ہے۔ ان کے کرتا دھرتا یہی چاہتے ہیں کہ یہ ملک مکمل طور پر ہندو راشٹر میں تبدیل ہو جائے۔ ہندوستان کو تقسیم کرنے میں بھی اسی ذہن کی کار فرمائی رہی تاکہ ہندو راشٹر کا خواب پورا ہوسکے۔ اس نے کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ مسلمان ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور تقسیم ہند کی ذمہ داری آسانی کے ساتھ مسلمانوں کے سر تھوپی جاسکے۔ حالانکہ مسلمان جب انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے اس وقت ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ اپنا ملک عزیز ہندوستان کبھی تقسیم ہوگا۔ مسلم مخالف ذہن نے نفرت کے بیج بوئے اور سارے ہندوستان میں منصوبہ بند طریقے سے فرقہ وارانہ فسادات کروائے۔ اسی نے شدھی سنگٹھن کی بنیاد رکھی اور بعد میں آر ایس ایس کا روپ دھار لیا جس نے میڈیا اور انتظامیہ وغیرہ پر قبضہ کرلیا جو آج پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے نام سے عیاں ہوچکی ہے۔
پچھلے پون صدی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو ہر میدان میں کمزور کرنے اور ان کو پست تر بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے رہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جو کام کیا وہ یہ کہ تعلیمی اداروں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس کو بدل ڈالا اور اس میں دروغ گوئی کی انتہا کردی۔ تاریخ کی کتابوں سے مسلم مجاہدینِ آزادی کے ناموں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور اس کی جگہ ہندو سورمائوں کے نام ٹھونس دیئے۔ اس سلسلہ میں اترپردیش سرکار کی موجودہ پالیسی یکے بعد دیگرے سامنے آرہی ہیں۔ علاوہ ازیں نونہالوں کے ذہن خراب کرنے کے لیے اسکولی نصاب میں بھی ایسی باتوں کو درج کروایا گیا جس کے پڑھنے کے بعد نئی نسل کو اس بات کا تاثر دیا جاسکے کہ مسلمانوں نے اس ملک پر بہت ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ اردو کو سارے ملک سے مٹانے کی کامیاب کوششیں کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی پالیسی رہی کہ انہوں نے بھارتی تہذیب کے نام پر ہندو تہذیب کو پوری شدت کے ساتھ عوام کے سامنے لایا۔ اس سلسلے میں سرکاری محکمہ نشر و اشاعت کو ناجائز طور پر استعمال کرتے ہوئے ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کا خوب استحصال کیا۔ آزادی کے ان طویل برسوں میں صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کے لئے ان کے کاروباری ادارہ جات اور دوکانات کو نذر آتش کیا گیا اور دوسری جانب ملازمت کے لئے سرکاری محکمہ جات و ادارہ جات کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ آج یہ حالت ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کا سرکاری ملازمتوں میں تناسب گھٹتے گھٹتے صرف دو فیصد رہ گیا ہے جس میں صرف نچلے درجے کی جائیدادیں شامل ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی تعداد معدوم ہوگئی۔ مختصر یہ کہ آزادی اس وقت تک حقیقی خوشی و شادمانی کا پیغام پیش نہیں کر سکتی جب تک کہ یہاں کے رہنے بسنے والوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا جائے۔ لہٰذا! اس ملک پر جتنا حق کسی اور شہری کا ہے اتنا ہی ایک مسلمان کا بھی ہے جو کچھ فوائد کوئی اور شہری حاصل کر رہا ہے مساویانہ طور پر مسلمانوں کو بھی ملنے چاہیے۔ تب جاکر ہم اپنے عظیم بھارت میں یہ نعرہ لگانے میں حق بجانب ہوں گے کہ ’’سب کا ساتھ سب کا و کاس‘‘ ’’سب کا وشواس‘‘۔