حراء جبل النور
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حراء ایک غارکا نام ہے لیکن دراصل حراء اس پہاڑ کا نام ہے جس پر یہ غار واقع ہے۔ بظاہر دنیا کی نظر میں اگرچہ یہ ایک معمولی سا پہاڑ ہو، دیگر پہاڑوں اور چٹانوں سے قدرے مختلف نہ ہو لیکن اس کے باوجود اس میں وہ روحانیت کی بستی آباد ہے جو اس کو باقی خطۂ ارض سے مختلف بناتی ہے۔ اس کی ایک قابل ِ قبول وجہ یہ ہے کہ اس مقام سے حضور پر نور تاجدارِ مدینہ ﷺ کی کئی یادیں وابستہ ہیں۔ لیکن کیا یہ فیوض و برکات کا سلسلہ یہیں ختم ہو جا تا ہے؟ نہیں بلکہ اسکے باوجود کہ ان ایام کو بیتے کئی صدیاں گزر گئیں یہاں ہر صدی میں فیوض و برکات کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔
یہ پہاڑ بعد میں جبل ِ نور کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک روایت میں جب طور ِ سیناء پر رب تعالی کی تجلی ہوئی اور مکمل وادی سیناء تجلی بے انتہا کو برداشت نہ کر سکا اور ٹکڑوں میں بٹا تو چند ٹکرے یہاں بھی آ گرے۔ گویا رب تعالی نے پہلے ہی اپنے حبیب کے لئے اس جگہ کو موزوں بنایا جہاں اس کے محبوب و محب کا وصال ہونے والا تھا۔ رب تعالی نے انہیں پتھروں کو کلامِ پاک کے نزول کے لئے بھی انتخاب فرمایا جو پہلے بھی موسی علیہ السلام کو پروردگارسے ہمکلام ہوتے سن چکے تھے اور اس کے جلووں کی جھلکیاں دیکھ چکے تھے۔
بظاہر ان چٹانوں میں نہ تو وہ آبشار چشمے ہیں، نہ مرمریں پتھر، نہ پر کشش ہریالی اور سر سبز باغات لیکن حقیقت بین نگاہیں اس بات کا ادراک بڑ ی آسانی سے کر سکتی ہیں کے ان چٹانوں میں اب بھی وہی تجلی الہی کا نزول ہو رہا جو کبھی نگاہِ موسوی نے طور پر دیکھا تھا۔ ساتویں صدی کے بڑے مشہور فقیہ اور صوفی ہیں امام عبدا للہ بن محمد القرشی مرجانی رحمتہ اللہ علیہ انہوں نے جب غار ِ حرا ء کی زیارت کی تو ایک نہایت ہی پر کشش نظم لکھی۔ جس کے ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں ”راہِ کوہِ حراء کے روئے زیبا کے جمال پر غور کرو، کتنے ہی لوگ اس کے حسن و جمال پر فدا ہو گئے۔“ امام ِ مرجانی کو جو خوبصورتی ان سنگلاخ چٹانوں میں دکھائی دیتی تھی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگرچہ عوام الناس کے نزدیک ان چٹانوں کی کو ئی قیمت نہ ہو لیکن اس کے باوجود یہاں ہر دور میں نور وفضل کی بارش ہوتی رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غار ِ حرا ء کی طرف رخ کرنے والے جب اس پر چڑھائی شروع کرتے ہیں تو تمام دنیاوی فکر اور رنج و غم زائل ہو جاتے ہیں۔ امام ِ مرجانی علیہ الرحمہ آگے لکھتے ہیں۔
فمما حوی من جاء لعلباہ زائرا - یفرج عنہ الہم فی حال مرقاہ
مطلب جن فضائل پر یہ پہاڑ حاوی ہے ان میں سے ایک یہ کہ جو شخص ان کی زیارت کرنے آئے اس کے تمام رنج و غم چڑھائی کے دوران زائل ہو جائیں گے۔
اسی طرح ایک اور بزرگ و صوفی علامہ سید عبد العزیز دباغ علیہ الرحمہ جنہوں نے اگرچے کتابوں اور اساتذہ کو ذریعہ علم بنایا لیکن اس کے با وجود علم ِ لدنی اس قدر تھا کہ اس دور کے اکابر علماء بھی ان کی علمی جاہ و جلال کا لوہا مانتے تھے۔ ان کی ایک کتاب ”ابریز“ کافی مشہور ہے۔”ابریز“امام دباغ علیہ الرحمہ کے جمع کردہ ارشادات پر مشتمل ہے اور اس میں علامہ سلجمانی چوتھے باب میں لکھتے ہیں ”حضرت نے فرمایا کہ صالحین کا دربار اسی غار ِ حرا میں لگتا ہے جہاں حضور ﷺ قبل ِ بعثت عبادت کیا کرتے تھے۔اسی غار میں غوث مدینے کا رخ کر کے بیٹھتا ہے اور اس کے دائیں اور بائیں چار قطب بیٹھتے ہیں اور ان کے علاوہ مجلس میں وکیل بھی ہوتا ہے۔ اور بھی کئی جن و انس کے صالحین اور دیگر کاملین بھی آیا کرتے ہیں۔۔۔۔کبھی کبھی اس مجلس میں سرور ِ کونین بھی تشریف لاتے ہیں اورجب سرکار آتے ہیں تو انوار و برکات کا یہ عالم ہوتا ہے کے جن کی تاب کئی کاملین کے لئے بھی ناقابل ِ برداشت ہوتی ہے۔اس مجلس کا وقت وہی ہوتا ہے جس وقت رسول اللہ ﷺ کی پیدائش ہوئی۔“