اختلافات کے پردے میں خواہشات کی تکمیل آخر کب تک؟

شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اِقبال نے بطورنصیحت اپنے بیٹے جاویدکے لیے ایک نظم کہی تھی اُسی نظم کا یہ شعر ہے کہ؎

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

لفظ خودی کے معانی خودغرضی،انانیت، غرور وتکبر، خودشناسی وغیرہ ہیں۔ لیکن اقبال کے نزدیک خودی سے مراد غرورو تکبر، انانیت وغیرہ نہیں بلکہ خودی سےمراد خودداری،لیاقت وصلاحیت، دیانت داری وغیرہ ہے،کیوں کہ اقبال جس ماحول میں پلے، بڑھے اورجوان ہوئے وہ انتہائی پست فکری اور ذہنی غلامی کازمانہ تھا،لوگ چندسکّوں کے بدلے اپنے ایمان و عقیدہ اوروطن عزیز کی آزادی کو بھی قربان کردیتے تھے،چناں چہ اِنھیں سب باتوںسے دل برداشتہ ہوکراِقبال نے اپنے بیٹے کےپردے میں اپنی قوم کے نام یہ پیغام دیاکہ اے لوگو! اپنی فطرت کو پہچانو، اپنی صلاحیت کو بروئےکار لاؤ، اور جس فرض منصبی کے لیےاللہ سبحانہ نے تمھیں بھیجاہے اُسےاداکرو،اور اُس کے لیے اگر تمھیں گھربار بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دو، اور تخت وتاج سےبھی کنارہ کش ہونا پڑےتوہوجاؤ،لیکن کبھی بھی اپنےملک وملت اور اِیمان وعقیدےکاسودا نہ کرو۔ اِس طرح اقبال نے فطرت سلیمہ پر قائم رہتے ہوئے شانِ ایمانی اوروطن دوستی کے ساتھ جینے کا نسخۂ کیمیا عطاکیا،اور یہی طرزِزندگی اشرف المخلوقات کا خاصہ ہے۔

لیکن آج کل معاملہ اِس کےبرعکس ہے،ہم لوگ اَنانیت،خودی،خودغرضی اورغروروتکبر کی زنجیروں میں اِس قدرجکڑگئے ہیں کہ نہ حق سننے کے لیے تیارہیں،نہ حق بولنے کے لیےتیار ہیں اورنہ ہی حق لکھنے کے لیےتیارہیں۔ بالخصوص ہمارےمذہبی قائدین اِس طرح کی بیماریوں میں کچھ زیادہ ہی گرفتار نظر آتےہیں۔(اِلاماشاء اللہ)اِس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ایک طرف علمی و نظریاتی اختلافات کو بنیاد بناکرہم آپسی رنجش اورذاتی دشمنی کوہوا دے رہے ہیں تو دوسری طرف اِن اختلافات کی وجہ سےعوام و خواص میں بھی عجیب سی بےچینی پائی جارہی ہےجب کہ یہ دونوں باتیں تحفظ دین اور بقائے اسلام کےلیے سخت نقصان دہ ہیں۔

یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگرکوئی شخص بنیادی عقائدمیں سےکسی ایک بھی عقیدے کاصریحاًانکارکرتا ہےتواُس بنیادپر اُسے دین سے خارج مانا جائے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہےکہ دین کےفروعی مسائل میں علمی ونظریاتی اختلافات کی بنیادپر اُسے دین سے خارج سمجھا جائے؟ جب کہ ہمارے اکابر نے علمی اختلافات کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اُسے قبول بھی کیاہے، اوریہ بھی کہا ہے کہ فروعات میں علمی اختلاف رحمت ہے (کنزالعمال، حدیث:۲۸۶۸۶)، پھر آج اِن اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے پرلعن وطعن کیوں؟

اس کے علاوہ ہمارے چاروں امام مثلاً: امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم بھی اپنی اپنی تحقیق کی بنیادپر فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں، پھر بھی وہ ہمارےلیے محترم ہیں اور اَہل سنت و جماعت کے امام ہیں،اُن کے مقلدین بھی بہت سے علمی اختلافات رکھتےہیں وہ بھی سنی صحیح العقیدہ ہیں، لیکن آج ہم سب جب کہ ایک ہی مذہب کےمقلد ہیں اِس کے باوجود محض فروعی مسائل میں اختلافات رکھنے کی بنیادپر ایک دوسرے کو اَہل سنت و جماعت کے دائرےسے خارج کرنےپرتُلے رہتےہیں!!! پھرجب اَسلاف کرام نے فروعی مسائل میں اختلافات رکھتے ہوئےایک دوسرے کوسنیت سے خارج نہیں کیا توآج اُن کے مقلدین و معتقدین محض فروعات میں اختلافات کی بنیادپر ایک دوسرے کوسنیت سے خارج کیوں کررَہے ہیں؟اور پھریہ کہ ان چاروں امام کے اختلافات صرف سنن و مستحبات ہی تک محدودنہیں ہیں بلکہ وہ واجبات وفرائض میں بھی اختلافات رکھتے ہیں، یہاں تک کہ تکفیرجیسے اہم مسائل میں بھی ایک دوسرے کےمخالف نظریات کے حامل ہیں، مثلاً یزیدبن معاویہ کو اِمام احمد بن حنبل کافر کہتے ہیں، امام ابوحنیفہ اِس معاملے میں سکوت اختیارکرتے ہیں اور اِمام محمد غزالی اُسے بدترین فاسق وفاجر سمجھتے ہیں، البتہ! کافر نہیں سمجھتے۔کیایہ قاعدہ کلیہ کہ’’ان میں سےہر ایک صواب پر ہے اِمکانِ خطا کے ساتھ اور خطا پر ہےاِمکانِ صواب کے ساتھ‘‘ صرف اُنھیں ائمہ کرام کے لیے مختص تھا، یاقیامت تک آنےوالے علما و محققین بھی اِس قاعدۂ کلیہ کے ذیل میں آتے ہیں؟لہٰذا فروعی مسئلے میں اختلافات رکھنے کی بنیادپر کافر، فاسق، گمراہ یادین سے خارج کہنے والوں سے ہم پوچھنا چاہتےہیں کہ یہ چاروں امام اپنے اپنے اختلافات کی بنیادپر ایک دوسرے کے نزدیک کس خانے میں ہیں،اور وہ خودبھی اُن ائمہ کرام کے بارے میں کیا حکم رکھتے ہیں؟کافر،فاسق،گمراہ ،یا دین سے خارج ؟بلاشبہ ان تمام فروعی اختلافات کے باوجود یہ چاروں امام برحق، عادل، قابل اِعتماد اَورسچےوپکے مومن تھےبلکہ آج کے حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مومنوں سے کہیں اعلیٰ درجے کے مومن تھے۔

مزیدفروعی اختلافات کی باتیں کریں تو صحابۂ کرام،تابعین،تبع تابعین ضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر اِس عہد تک سیکڑوں فروعی اختلافات ہوئے ہیں،لیکن اُن اختلافات کی بنیادپرایک دو سرے کو گمراہ،فاسق،کافر،یادین سے خارج سمجھا جائے، یہ نہ صحابۂ کرام کا عمل رہا،نہ تابعین کا ،نہ تبع تابعین کا اور نہ ہی ماضی قریب میں کسی اہم علماومشائخ کا۔اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھاکہ جاؤ، اوریہ اعلان کردو کہ جس کسی نے بھی کلمۂ طیبہ پڑھ لیا وہ جنتی ہوگیا۔ لیکن جب حضرت عمررضی اللہ عنہ سے اُن کاسامنا ہوا،اَوراُنھوں نے یہ سناتونہ صرف منع کردیابلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوپکڑ کربارگاہِ نبوی میں لے بھی گئے،اورعرض کیاکہ یارسول اللہ! یہ اعلان سن کر لوگ واجبات وفرائض اداکرنا ترک کردیں گے،تواِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا۔

اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی،تو یہ اعتراض کرنے والےکے ذہن کا فتورہی ہوسکتاہے، کیوں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حسن نیت یہ تھی کہ مسلمان واجبات و فرائض میں کوتاہ وسست نہ ہوجائیں اور دین کا اصل چہرہ مسخ نہ ہو جائے۔تو کیا آج کے عہد میں یہ ممکن نہیں کہ بظاہر فروعات میں اکابر سے اختلاف کرنے والا شخص حقیقت میں اپنے حسن نیت کی بناپر اکابر سے اختلاف رکھنے والاہی قرارنہ پائےبلکہ جس جہت سے وہ مسئلے پر غور کررَہا ہے،ممکن ہے کہ وہ اکابر کے نظریات کی تائید کے لیےمعاون ومددگار ثابت ہو۔ 

خود اَعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا یہ عمل رہا ہے کہ اُنھوں نےنہ صرف فروعی مسائل شرعیہ میں اکابر سے مختلف حکم نافذ کیا ہے بلکہ تکفیر جیسے اہم مسائل میں بھی (علامہ فضل حق خیرآبادی سے)اختلاف کیاہے، اور شیخ ابن عربی قدس سرہٗ جنھیں ملاعلی قاری نےکافروں کے زمرے میں شمار کیا ہے، فتاویٰ رضویہ میں جگہ جگہ اُن کو القابات خیرسے یادکیاگیا ہے، پھرصدرالافاضل اور صدرالشریعہ علیہما الرحمہ نے بعض مسائل میں اعلی حضرت سے اختلاف کیاہے، پھر اُن کےمریدوشاگردمولانا برہان الحق جبل پوری نے بھی عورتوں کے مزارات پر جانے کے مسئلے میں اختلاف کیاہے، اورمزے کی بات یہ ہے کہ اعلی حضرت نےاُس کتاب کی تصحیح بھی کی اورتصدیق بھی،البتہ! اپنا یہ نظریہ بھی واضح کردیا کہ ’’مگر بحال زمانہ میں اِسے ناجائز وحرام سمجھتا ہوں۔‘‘

چناںچہ اِن تمام حقیقتوں کو جان لینے کے بعد بھی ہم اَنانیت، خودغرضی اور مفادپرستی سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیارنہیں،تو یہ جان لیں کہ ہم اہلسنت وجماعت کا دائرہ پھیلانے کی بجائےاُسے تنگ کررَہےہیں،اس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ ہماری نئی نسلیں اہل سنت و جماعت میں آناچاہتی ہیں لیکن وہ کس اہل سنت وجماعت میں داخل ہوں،یہ فیصلہ نہیں کرپارہی ہیں، کیوں کہ آج کل تو اَہل سنت و جماعت کا ہربڑاعالم کفر، گمراہیت اور اِرتداد کے نرغے میں ہے۔آخرچاروناچار ہماری نئی نسلیں ایسی راہ چننے پر مجبور ہیں جو اُن کے لیے کسی بھی جہت سے مناسب نہیں ،اور حدتو یہ ہے کہ جس گھر میں کبھی میلاد شریف اور یادِبزرگاں کے نغمے گونجا کرتے تھےاب اُنھیں گھروں میں اِن جیسے تمام مباح اور جائز اَعمال پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔بلکہ اکثروہ اعمال حسنہ جوایک مومن کےلیے اللہ و رسول اورصالحین سے قریب ہونےکاذریعہ سمجھےجاتےہیں اُنھیں بھی شرک وبدعات سمجھ کر ترک کیا جارہا ہے۔ آخر اِن سب کےذمے دار کون ہیں؟ہماری نئی نسلیںیا ہم جواَنانیت کےخول سے باہرنکلناہی نہیں چاہ رہے ہیں ؟

مزید حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس کا بھرپور اِحساس ہے کہ انجانے میں ہی سہی ہم سے کچھ غلطی ہوگئی ہے، لہٰذا بہتر بات تو یہ تھی کہ ہم سچے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف واقرار کرلیتے بات ختم ہوجاتی، مگرایسانہیں کرتے اورسارا زُور اِس بات پر لگانے کے لیے بیٹھ جاتےہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوہی نہیں سکتی یا ہوئی، توآخر کس کی وجہ سے؟یعنی تمام تر اِلزامات فردِ مخالف کے سرمنڈ دیتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ آدمیت تو نہیں ہے!!بلکہ آدمیت تو یہ ہےکہ خطانہ ہوپھربھی حضرت آدم کے انداز میں یہ کہےکہ’’اے ہمارے رب! ہم نے ہی اپنے اُوپرظلم کیاہے ، اگر تو ہمیں معاف نہیں فرمائےگا اور ہم پر رحم نہیں کھائےگاتو ہم ضرور نقصان اُٹھانے والوں میں ہوجائیں گے(اعراف:۲۳) اوریوسف علیہ السلام کے انداز میں یوں کہے کہ’’میں اپنے نفس کوبےقصور نہیں مانتا ہوں، بےشک نفس بُرائی کا بہت ہی حکم دینے والاہے،اس کے سوا جس پر اللہ رحم فرمادے، بےشک میرا رب بخشنےوالابڑامہربان ہے(یوسف:۵۳)۔ اب کوئی شخص یہ بتادے کہ حضرت آدم نے کیا غلطی تھی اور حضرت یوسف سے کیا خطا سرزد ہوئی تھی ؟ اِس کے باوجودآپ دونوں اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرتے نہیں تھکتےاور ایک ہم ہیں کہ اپنی غلطی کا احساس ہونے پر بھی نادم وشرمندہ ہونے کی بجائےاُس کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے میں لگے ہوئےہیں۔   

  چناں چہ جب تک ہمارے اپنے دل ودماغ پر فطرت سلیمہ(آدمیت)کا غلبہ نہیں ہوگااوررَبَّنَا ظَلَمْنَااوروَ مَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ جیسی آیات سےہم عبرت حاصل نہیں کریں گے،اُس وقت تک اَنانیت وخودی کے چنگل سےنکلناہم سب کے لیےبڑا مشکل ہے ،اورجب تک ہم خودی، اَنانیت ،اوربدگمانی کے خول سے باہر نہیں نکلیں گےاور اَسلاف کرام کی طرح ایک دوسرے کے لیے خیر کا سچاجذبہ اپنےدلوں میں نہیں پیداکریں گےاُس وقت تک ہمیں نہ خوش عقیدگی راس آئےگی اور نہ ہم خوش عقیدگی کے نور کوعالم میں پھیلاپائیں گے۔ 

ایک اور غلط فہمی جوعام طورسے ہمارے درمیان پھیل گئی ہے ،وہ یہ کہ اب ایسی کوئی ہستی نہیں آنے والی جو اِنسانی دل ودماغ میں انقلابی صور پھونک سکے، کیا ہمارا کسی اَیسی ہستی کے بھیجنے سے عاجز ہے؟(معاذاللہ)جب کہ قرآن کریم بارباریہ اعلان کررہا ہے کہ’’جب کبھی کوئی آیت(نشانی) منسوخ ہوتی ہے یا کوئی آیت(نشانی) ختم ہوتی ہے توہم اُس سے بہتر یااُسی کی طرح کوئی دوسری آیت نازل کردیتے ہیں ،کیا تجھےعلم نہیں کہ اللہ سبحانہ ہر چیز پر قادر ہے(بقرہ:۱۰۶)۔ یقیناًصالحین کی ایک جماعت قیامت تک آتی رہے گی اور لوگوں کو خوش عقیدگی اور خوش گمانی کا درس دیتی رہےگی۔

غرض کہ ہم یاتو اپنی خودی(انانیت اورکبرونخوت) سےتوبہ کریںیاپھراِقبال کے تصورِخودی(معرفت نفس)پرمضبوطی سے جم جائیں اور فتنہ وفساد کاذریعہ نہ بنیں اور اِختلافات کے پردے میںاپنی خواہشات نفس کا شکار ہرگزنہ بنیں،ورنہ ذلت ورُسوائی کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔ 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter