جانِ ایمان صلى الله عليه وسلم کے نقشِ قدم پر چلیے

حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسان کو زمین سے اُٹھایا اور ہم دوشِ ثریا کر دیا… ساری انسانیت کو آغوشِ کرم میں لیا، جس کی قسمت میں سعادت تھی وہ سعید ہوا؛ اور جس کی قسمت میں شقاوت تھی وہ شقی ہوا… دُنیا کی ہر آسمانی کتاب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکرِ جمیل ہے… سب نے آپ کا ذکر کیا ہے… آپ نے کائنات میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا… آرزوؤں کا ڈھنگ بتایا… تمناؤں کا سلیقہ سکھایا… امنگوں کو ایک نیا رنگ و روپ دیا… فرش پر جمی ہوئی نگاہوں کو عرش پر لگا دیا … مُرجھائے ہوئے چہروں کو تاب ناک بنا دیا… مُردہ جسموں میں جان ڈال دی… بے کیف روحوں کو کیف و سرور بخشا… مظلوموں اور بے کسوں کو سہارا دیا… زندہ درگور ہونے والی عورت کو مسندِ عزت پر بٹھایا… قاتلوں کو جان و تن کا محافظ بنایا… ظالموں کو مظلوموں کا پاسدار بنایا… غلاموں کو آزادی کا مُژدہ سنایا اور ایسا سرفراز کیا کہ آزادوں کا آقا بنا دیا… رہزنوں کو قائد و رہبر بنایا… اللہ اللہ! وہ اتنا عظیم انقلاب لایا کہ جس معاشرے میں اُٹھا اس کو یکسر بدل کر رکھ دیا… وہ باہر سے انقلاب نہیں لایا، وہ باہر سے کوئی لشکر نہیں لایا… اندر ہی اندر اس نے کچھ ایسا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مُردے زندہ ہونے لگے…

وہ ستانے کے لیے نہیں آیاتھا وہ تو سارے عالم کو آرام پہنچانے آیا تھا… کوئی ایسا شفیق و مہربان لا کر تو دکھائے… اس نے تکلیفیں سہہ کر اور مصیبتیں برداشت کر کے سب کو آرام پہنچایا… دُنیا میں کوئی ایسا رحیم و کریم تو دکھائے… اس کے رحم و کرم کو دیکھ کر سینوں سے دل نکل پڑے اور جسموں سے جانیں نکل پڑیں… آج مظلوموں اور غریبوں کا کوئی داد رس نہیں… نفس کے بندے اپنے اپنے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں… وہ دلداری اور دل سوزی کہاں!… وہ ہمدردی و غمخواری کہاں!

اللہ اللہ! آج داد رسی اور عدل گستری مصلحتوں کا شکار ہو گئی… جس دورِ جاہلیت سے نکل کر ہم آئے تھے، پھر وہیں آگئے… رنگ برنگے انسانوں میں یک رنگی قائم رکھنا ہنسی کھیل نہیں… یہ صرف اور صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہی سینہ تھا جس میں سب کی سمائی تھی… ایسا وسیع سینہ کسی کا نہ دیکھا… یہ وسعت و پہنائی کسی کو میسر نہیں… محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رنگ لوگوں نے نہ دیکھا، اگر آج وہ رنگ دکھا دیا جائے تو سارا عالم دوڑ پڑے… اس عظمت والے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی کے لیے ساری گردنیں جھک جائیں… ساری زبانیں اس کے گُن گانے لگیں… ہاں! سب نام لیتے ہیں مگر اپنے اپنے پیٹ پالتے ہیں، اس کا جلوہ نہیں دکھاتے کہ ایک صف میں کھڑا ہونا کسی کو اچھا نہیں لگتا… دوسروں کے لیے گھر کو لُٹانا اچھا نہیں لگتا… دوسروں کی زیادتیوں پر غصے کو پینا اچھا نہیں لگتا…

یہ کیا ہے کہ ہم اس عظمت والے آقا کا نام لیتے ہیں مگر ہماری زندگی، ہماری صورتیں… ہمارا اُٹھنا بیٹھنا… ہمارا سونا جاگنا… ہمارا کھانا پینا… ہمارا لینا دینا… ہمارے رسم و رواج… ہماری چال ڈھال… سب کچھ اس عظیم آقا کے دُشمنوں کی سی ہیں… اللہ اللہ عجائباتِ عالم میں یہ ایک بڑا اعجوبہ ہے… ہم کب تک غافل رہیں گے؟… کب تک سوتے رہیں گے؟… جاگنے کا وقت آ گیا ہے… سارا عالم جاگ رہا ہے … ہم سو رہے ہیں… ہم ایک دوسرے کا خون پی رہے ہیں… ہم ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں… یہ کیا ہے کہ عالم اسلام انتشار کا شکار ہے… سازشوں کا شکار ہے… فساد و خلفشار کا شکار ہے… ہر اک نے اس کے خرمن کو تاکا ہے… ہر ایک نے اس کی دولت کو لُوٹا ہے… ہماری عقلیں کہاں گئیں؟… ہمارے ہوش کدھر گئے؟… ہمارے حواس کیا ہوئے؟… کیا ہم اپنی عقل سے نہیں سوچ سکتے؟… صد حیف! کہ کام لینے والے کام نہیں لیتے کہ وہ خود سے بے خبر ہیں… ان کو نہیں معلوم کہ غربت و مسکینی کے باوجود وہ امیروں کے امیر ہیں… انھوں نے سب کو دیا ہے اور سب کو دے سکتے ہیں… ہمارے ہاتھ میں دامنِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے…

آیے!خود کو جھنجھوڑیے، خود کو جگایے… احساس کی لو تیز کیجیے… غیرت کی شمع جلایے… نہیں نہیں یہ سونے کا وقت نہیں، بہت سو چکے، صدیاں بیت گئیں… اب جاگنا ہے اور دوسروں کو جگانا ہے…اللہ اللہ! جس کو اللہ نے سماوات، حیوانات، جمادات، نباتات اور عناصر اربعہ (پانی، ہوا، آگ، مٹی) پر اختیار دیا اور ان کو خادم بنایا… اور تو اور اپنا خلیفہ اور نائب بنایا… اس کا یہ حال کہ اپنے مقام سے بے خبر ایک ایک کے پیچھے دوڑ رہا ہے… غفلت کے دَلدل میں ایسا پھنسا ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لیتا… اور جن کو اوپر چڑھنے کا دعویٰ ہے، بلندیاں ان کے لیے پستیاں بن گئیں…جتنے اوپر جاتے ہیں، اتنے ہی نیچے چلے جا رہے ہیں…عجائباتِ عالم میں دورِ جدید کا یہ ایک اعجوبہ ہے۔

میرے بزرگو!میرے جوانو!… اس جانِ ایمان (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے نقشِ قدم پر چلیے… آفتاب و ماہ تاب کی روشنی میں بڑھتے چلیے… آئینۂ مصطفیٰ کو سامنے رکھیے اور خود کو سنوارتے جایے… سب آئینے توڑ دیجیے… یہی ایک آئینہ رکھیے… یہی آئینہ، آئینہ ساز نے ہمارے سامنے رکھا ہے… بن سنور کے دُنیا کے سامنے آیے، اور انقلاب برپا کیجیے… آپ تو انقلابوں کے امین ہیں… انقلاب باہر سے نہیں، اندر سے آتا ہے… دل سے اُٹھتا ہے، روح سے پھوٹتا ہے اور پھر رَگ رَگ میں سما جاتا ہے… کچھ پاس نہیں، نہ سہی… ایمان ایک عظیم قوت ہے، عشق ایک عظیم دولت ہے… اسی سے اَفراد زندہ ہوتے ہیں… اسی سے قومیں زندہ ہوتی ہیں… ہاں! زندگی پکار رہی ہے… ذرا کان تو لگایے… سنیے تو سہی، کیا کہہ رہی ہے   ؎

کس کا منھ تکیے، کہاں جایے، کس سے کہیے         
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا (رضاؔ)
٭٭٭
(ماخوذ: سیرت رسول اور ہماری زندگی، مطبوعہ، از مسعود ملت، نوری مشن مالیگاؤں)
ترسیل : نوری مشن مالیگاؤں

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter