٦ دسمبر! دستور کی پامالی کا دل آزار لمحہ

مفتی اعظم کے فتویٰ کی روشنی میں... مسجد کے شہید کر دینے سے اُس کی مسجدیت باطل نہیں ہو سکتی۔

    تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ مسلمان حکمرانوں نے کسی مندر یا معبد باطل کو ڈھا کر مسجد بنائی ہو۔ بابری مسجد کا ہی معاملہ لیجیے، یہ کہنا کہ اسے مندر کے مقام پر بنایا گیا غیر تحقیقی بات ہے، ٹھوس ثبوت اب تک پیش نہ ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ مسجد کسی مندر کی جگہ نہیں بنائی گئی۔ انگریز کی پالیسی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی تھی اور یہ کہ مسلمان کو نقصان پہنچایا جائے، صہیونی مزاج کی تاریخ گری ہے، بابری مسجد سے متعلق زہر اُگلا گیا کہ وہ مندر توڑ کر بنائی گئی، صنم کے پجاریوں نے مسلم دشمنی میں مفروضے کو تسلیم کر لیا، اور پھر بابری مسجد سے متعلق خواہ مخواہ تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ اس بابت ہمیں اپنے دین کا فیصلہ بھی دیکھ لینا چاہیے، اس لیے بھی کہ ایک مسلمان کے لیے اسلامی حکم فوقیت رکھتا ہے، اور مذہبی آزادی کا بھی یہی مطلب ہے کہ مذہبی احکام پر عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

    تقریباً ٨٠ برس قبل لاہور میں مسجد شہید گنج کا سانحہ پیش آیا، تشدّد پسندوں نے مسجد شہید کردی، (بابری مسجد کا سانحہ بھی ایسا ہی ہے) اس موقع پر مسلمانوں نے اسلامی حکم معلوم کرنے کے لیے بریلی کے مرکزی دارالافتاء سے رجوع کیا، مفتی اعظم ہند مولانا مفتی محمد مصطفیٰ رضا خان نوری بریلوی علیہ الرحمۃ نے فتویٰ دیا، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ: ’’لاہور کی مسجد شہید گنج ہو یا کہیں کی کوئی مسجد جو مسجد ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہے، اس کی مسجدیت کبھی کسی وقت نہیں جا سکتی، مسجد کے شہید کر دینے سے اس کی مسجدیت باطل نہیں ہو سکتی۔‘‘ (فتاویٰ مصطفویہ، ص۲۴۴، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

                                پھر آپ نے یہ بھی واضح کیا کہ مسجد اگرچہ زیادتی سے کفار اپنے قبضہ میں کر لیں تب بھی مسجد مسجد ہی رہے گی، مثال میں آپ نے خانۂ کعبہ کا ذکر کیا جہاں ایک عرصہ تک توحید کے دُشمنوں نے پوجا کی لیکن وہ اللہ کا گھر تھا، آقائے کائنات مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور اسے ان اصنامِ باطل سے پاک فرمایا، مفتی اعظم فرماتے ہیں:

’’وہ مسجد جیسے شہید ہونے سے پہلے مسجد تھی یوں ہی اب بھی مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی، عیاذاً باللہ کافروں کے قبضہ میں مسجد آجانے سے کسی کے نزدیک اس کی مسجدیت نہیں جاتی، کعبہ برسہا برس قبضۂ کفار میں رہا جس کے گرد اگرد مشرکوں نے ٣٦٠ بت رکھے، ہر دن ایک نئے بت کی پوجا کرتے اس قبضہ سے کعبہ غیر کعبہ نہیں ہو گیا، وہاں بتوں کے نصب کرنے اور پوجا ہونے سے قبلہ بت خانہ نہیں بن گیا۔‘‘(نفس مصدرص۲۴۴۔۲۴۵)

                                 اسی طرح بابری مسجد کا بھی معاملہ اہل نظر سمجھ سکتے ہیں- فرقہ پرستوں کے ذریعے مسجد شہید کر دینے سے اس کی مسجدیت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا- اب افسوس کا مقام یہ ہے کہ عدلیہ نے ملک کی اکثریت کا خیال رکھا- انصاف و دیانت کے لیے سوالیہ نشان قائم رہے گا! کیوں کہ شواہد مسجد کی مسجدیت پر دلالت کرتے ہیں...اس کی باقی ابھی عدالت ہے-

    دوسری بات یہ کہ١٩٩٢ء میں فرقہ پرستوں نے دن دہاڑے مسجد کو شہید کر کے سیکولرزم کو پامال کیا، اورجمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا، حالاں کہ مسلمانوں نے استقلال سے کام لے کر قانونی راستہ اختیار کیا، اس کے باوجود اب تک وہ جنونی آزاد گھوم رہے ہیں، انھیں قانون کے شکنجے میں کسا نہیں گیا، حالاں کہ مسجد شہید کرکے دنیا کی سب سے عظیم سمجھی جانے والی جمہوریت کا گلا انھوں نے گھونٹا تھا۔ اور پوری دنیا میں ملک کا وقار نشان زَد ہوا۔ اس شہادت کے بعد بھی اسلام کے نزدیک مفتی اعظم کے فتوے کی روشنی میں شہید ہونے والی مسجد ’’مسجد‘‘ ہی ہے، آپ لکھتے ہیں:

    ’’اسی طرح مسجد کا وہ بقعہ طاہرہ (مقدس حصہ) جو خالصاً للہ تعالیٰ برائے طاعت و قربت وقف کیا گیا وہ… ویسا ہی مسجد شہید ہوجانے کے بعد اب بھی ہے، اصل مسجد تو وہ موضع صلاۃ ہے، عمارت ہو یا نہ ہو جو جگہ مسجد ہو گئی مسجد ہی رہے گی…‘‘(نفس مصدر، ص۲۴۵)

    رہی یہ بات کہ مسلمان مسجد کے مقام کو ’’رام جنم بھومی‘‘ مان لیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ مسجد کی مسجدیت سے مسلمان انکار کر دیں، ظاہر سی بات ہے کہ ایسا تسلیم کرنا گویا مسجد کا انکار کرنا ہے اور یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کے مترادف، یہ عمل اسلام کے نزدیک مسجد کی توہین ہے، مسجد کی توہین دین کی توہین ہے، مفتی اعظم فرماتے ہیں:

                                ’’مساجد بیوت اللہ (اللہ کا گھر) ہیں اللہ کے دین کا عظیم شعار ہیں اور کسی شعارِ دین کی ادنیٰ سے ادنیٰ ہتک ہرگز مسلمان برداشت نہیں کر سکتے، بے شک بے شک شعارِ دین پر حملہ؛ دین پر حملہ ہے..... مسجد کی حفاظت و صیانت فرضِ مبین ہے۔‘‘ (نفس مصدرص۲۴۷)

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے ان پر قانونی شکنجہ کسا جاتا جنھوں نے مسجد کو دن کے اُجالے اور کُھلی فضا میں شہید کیا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا، اقلیتوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق یقیناً جمہوری اَقدار کی پامالی ہے۔ اس سلسلے میں حقائق کے پیشِ نظر کم از کم ہمیں اپنی تاریخ کے اُن لمحات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے؛ جن میں مسجد کو جبراً شہید کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ دیانت و انصاف کا چہرہ بھی لَہو لَہان ہو گیا:

اپنے کعبہ کی حفاظت تمھیں خود کرنی ہے

اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter