جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب: قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی

  ١٦٠٠ء میں انگریز تاجر کی حیثیت سے ہندُستان آئے۔ تجارتی کوٹھیاں قائم کیں۔ اس وقت مغل سلطنت کے منصفانہ نظامِ حکومت سے ملک کی فضا خوش گوار تھی، رعایا خوش حال تھی، مدارس و دانش گاہوں میں علم و فن کے جام لٹائے جا رہے تھے، خانقاہیں آباد تھیں، دل کی دنیا شاد تھی، انصاف ودیانت کا بول بالا تھا۔ جس سے ملک میں بسنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی امن و شانتی کی فضا میں سُکھ و چَین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہندُستان کا یہ پر امن ماحول اور خوش حالی انگریز جیسی فتنہ پرور قوم سے دیکھی نہ گئی اور اس نے سازشوں کے جال بننے شروع کیے۔ اس نے مغل سلطنت کو کم زور کیا۔ غدار تیار کیے۔ مسلمانوں میں تفرقے کے بیج بوئے۔

    انگریز کی یہ چالیں ایک طرف ملک کے لیے خطرناک تھیں اور دوسری طرف مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو بھی خطرہ تھا۔ حالات کی ستم ظریفی کہ انگریز کو ایسے افراد مل گئے جن کی مدد سے اس نے ملک کو پے در پے نقصانات سے دوچار کیا اور کم زور کر کے رکھ دیا۔ مغل سلطنت روز بروز زوال پذیر ہوتی گئی۔ علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی (وصال در انڈمان۲۰؍اگست ١٨٦١ء) نے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جرأت و ہمت سے کام لیا۔ ان کی مسلّم شخصیت اور اثر و رسوخ نے پہلے ہی دلوں میں جگہ بنا لی تھی۔ حالات کے تئیں ایک فتویٔ جہاد مرتب کیا اور علماے دہلی کی تصدیقات کے ساتھ دہلی کی جامع مسجد میں وہ فتویٰ جاری کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ انگریز کے خلاف جذبۂ حریت بیدار ہوا۔ ذہن و فکر کو راہ ملی کہ انگریز ملک کے ہی نہیں ایمان و عقیدے کے بھی دشمن ہیں، ان کی یہی چال رہی کہ مسلمانوں کو اس قابل نہ رکھا جائے کہ وہ دوبارہ حکومت حاصل کر سکیں، اسی لیے ان کا خاص نشانہ و ہدف مسلمان اور عام نشانہ ہندُستانی رہے۔ علامہ خیرآبادی کے فتویٰ اور تحریک کے نتیجے میں صرف دہلی میں ٩٠٠٠٠؍سپاہ جمع ہو گئی۔ اور انگریز کے خلاف جذبۂ حریت بیدار ہوا۔

    آج ٢٠٢٣ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے وصال کو ١٦٢؍سال پورے ہوئے۔ ہند کی آزادی کی اولین جدوجہد ١٨٥٧ء کے اس جیالے مجاہد کی شہادت کو طویل مدت گزر گئی- ان کی یادوں کی روشنی پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے- ان کی خدمات کے چراغ فصیلِ ہند پر روشن ہیں- ان کا تذکرہ اور ان کا تعارف پیش کرنا وقت کی ضرورت ہے- اس سے جہاں ہندُستانی مسلمانوں کی نسل نو کو اپنی زریں تاریخ سے آگہی و واقفیت حاصل ہو گی وہیں اسلام کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت کا تعارف بھی ابھر کرسامنے آئے گا۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں، ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنی روشن و تابندہ تاریخ رکھتے ہیں، ماضی کی شان دار قربانیاں ہماری تاریخ کا لازمہ رہی ہیں اور وطن عزیز کے لیے مَر مٹنے کی جو روایت قوم مسلم نے قائم کی ہے اس کی نمایاں مثال ہیں قائد انقلاب علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے قائد و رہنما علامہ فضل حق خیرآبادی کی دینی و علمی، سیاسی و اعتقادی خدمات پر مختلف انداز میں کام انجام دے کر اپنے قابل فخر ورثے کا تحفظ کریں۔ آزادی کی نکہتیں بھی اسلاف کی قربانیوں کی رہین منت ہیں اس لیے ان کا ذکرِ جمیل زندہ قوم کی علامت ہے-

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter