۷۵ ویں یوم آزادی کا امرت مہوتسو اور ملک کے حالات
انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے۔آزادی چاہتا بھی ہے کیوں نہ ہو کہ آزادی ہر جاندار کا پیدائشی حق ہے ۔آزادی ہر ایک مخلوق کو اچھی لگتے ہیں۔ہر ایک آزادی کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔لیکن اس شخص کے لیے آزادی کی معنویت اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب اس نے غلامی کی زنجیریں اپنے پاؤں میں دیکھی ہو۔ غلامی اور اسیری ایسی چیز ہے کہ اس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے ،اسی لیےآزادی ملنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں،تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، کیونکہ آزادی اللہ عزوجل کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔
جب وطن عزیز ہندوستان کی آزادی کے بعد آتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے اور اس پر ہم اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں،کہ اللہ عزوجل نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے لیکن جب اس آزادی کے پیچھےاہلیان ہند کی بے شمار قربانیاں،محنت و جانفشانیاں یاد آتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اوردل خون کے آنسو روتا ہے ۔یہ آزادی جو بظاہر ہمیں بہت بھلی لگتی ہے ،اسے حاصل کرنے میں ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کا بیش بہا نذرانہ پیش کیا گیا ہے۔تب جا کر ہمیں یہ آزادی کی صبح میسر آئی۔اس ملک کی آزادی میں ہر مذہب و ملت کے قائدین اور اور عام شہریوں نے مل جل کر حصہ لیا اور وطن کی محبت سے سرشار سینوں میں آزادی کی للک لیے ہوئےفرنگیوں کے ایوان حکومت کو مسمار کردیا اور تقریبا دو سو سالہ فرنگی غلامی کا دور ختم ہوا۔
تن کے گورے ،من کے کالےفرنگی،سونے کی چڑیا کہے جانے والے عزیز وطن ہندوستان کو چھوڑ کر تو چلے گئے مگر عفریتی افکار و نظریات اور کالے کرتوتوں کے نمونے ہندوستانیوں کے ذہن و افکار میں چھوڑ گئے۔اب آزادی کے ۷۵سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن اس کے مظاہر آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آج ہمارا ملک آزادی کی۷۵ ویں سالگرہ بڑےہی جوش و خروش کے ساتھ منارہا ہے جسے‘‘آزادی کا امرت مہوتسو ’’ کا نام دیا گیا ہے۔آئیے جانتے ہیں کہ کیا ہے آزادی کا امرت مہوتسو۔
آزادی کا امرت مہوتسو ، بھارت کی آزادی کے ۷۵سال کا جشن منانے کے لیے حکومت ہندکی ایک پہل ہے ۔ آزادی کا امرت مہوتسو ،دنیا بھر میں منایاجارہاہے،جس میں سبھی وزارتیں،ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام علاقے، بزنس کارپوریٹ گھرانے،غیرسرکاری تنظیمیں این جی اوز ، طلبا،رضاکاراورسبھی طبقات کے افراد شرکت کررہے ہیں ۔ مرکزی وزارتیں اورریاستی سرکاریں ملک بھرمیں اب تک ۶۰؍ہزارپروگراموں کا انعقاد کرچکی ہیں ۔وزارت اوراس سےملحقہ تنظیمیں،بہت زیادہ جَن بھاگیداری کے ساتھ آزادی کا امرت مہوتسو منانے کی غرض سے مختلف تقریبات اورسرگرمیوں کا اہتمام کررہی ہیں۔آزادی کاامرت مہوتسو کے حصے کے طورپر تقریبات کی رہنمائی فراہم کرنے اورسرگرمیوں کی منصوبہ بندکرنے کی غرض سے پانچ موضوعات کو منتخب کیاگیاہے۔
یہ موضوعات ہیں :(۱)جدوجہد آزادی :تاریخ کے سنگ میلوں اورگمنام سورماؤں پرتوجہ مرکوز کرنا ۔(۲) آئیڈیاز:خیالات ونظریات کا جشن منانا اور وہ خیالات ونظریات جن سے بھارت کے خدوخال واضح ہوئے ہیں۔ (۳) حصولیابیاں:مختلف النوع شعبوں کے ارتقاء اورترقی کو اجاگرکرنا۔(۴) عزم:مخصوص اہداف اور نشانوں کےتئیں عہدبندگی کو تقویت بہم پہنچانا۔(۵)اقدامات:پالیسیوں کے نفاذ اورعہدبندگیوں کو حقیقت کی شکل دینے کی غرض سے کیے جانے والے اقدامات کو اجاگرکرنا، تقریبا ت کے دوران بڑی تعداد میں اسکولوں اورکالجوں کے طلباء سمیت نئی نسل کے نوجوان افراد کی شرکت پرخصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ان تقریبات کے دوران قومی سطح کی بہت سی مقابلہ جاتی تقریبات کا بھی اہتمام کیاگیا ہے ۔ثقافت ، سیاحت اورشمال مشرقی خطے کے محکمے کے مرکزی وزیرجناب جی کے ریڈی نے آج لوک سبھا میں یہ اطلاع فراہم کی ہے ۔(پی آئی بی دہلی کی ۸؍اگست ۲۰۲۲ء کی رپورٹ )
۱۲؍ مارچ ۲۰۲۱ء کو، ہندوستان کے وزیر اعظم مودی جی نے احمد آباد کے سابرمتی آشرم سے گجرات کے نوساری ضلع میں ڈانڈی تک ۲۴۱؍ میل کے سفر کو جھنڈی دکھا کر‘‘ آزادی کا امرت مہوتسو’’کے نام سے ایک پروگرام کا افتتاح کیا۔ یہ پروگرام ۷۵ہفتوں تک چلے گا جو ۱۲؍مارچ ۲۰۲۱ءسے ۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ءتک ہر ہفتے منایا جائے گا۔یہ جشن ۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء تک جائے گا۔۷۵ویں یوم آزادی کا تھیم‘‘ ملک سب سے پہلے’’ بنایا گیا ہے۔تاکہ ملک سب سے زیادہ ترقی کرے اور پوری دنیا میں اپنا اونچا مقام بنائے۔
آزادی کایہ جشن سب سے انوکھا اور یادگار منایا جائے گا۔جس میں آزادی کے جانثاروں کی بیش بہا قربانیاں یاد کی جائیں گی۔ملک بھر سے گم نام مجاہدین کی خدمات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا اور ان کی قربانیوں سے،ملک کی آزادی کے تئیں ان کے جوش جذبے کو محسوس کرنے اور اس کے مطابق کام کرنے کا عہد کیا جائے گا۔ ہم اپنے ملک کے لیے جان تو نہیں دے سکے لیکن ہم اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے اپنے ملک کو بام عروج تو لے جا سکتے ہیں،اس کے لیے ہمیں کمر بستہ ہونا ہے۔یہ جش ہمیں یہی سکھاتا ہے۔جناب وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ نسل کل کے رہنما ہوں گے لہٰذا ہمیں ان میں فرض اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے،جس سے ملک کے ویژن اور خواب کی تعبیر ہوسکے۔نوجوانوں میں ہمت ،جوش جذبہ ہوتا ہے،ان کے اندر طاقت ہوتی ہے، وہ چاہیں تو ملک کی تصویر بدل کررکھ دیں۔ہمیں بڑی جدوجہد کے بعد آزادی نصیب ہوئی ہے اس لیے آزادی کے ۷۵سال مکمل ہونے پر ارباب حکومت کی منشا کے مطابق پورے ملک بھر میں بلاتفریق مذہب وملت آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے۔حکومت اس یوم آزادی کویادگار بنانا چاہتی ہے کیوں کہ آج سے ٹھیک ۲۵برس بعد ۲۰۴۷ء میں آزادی کی صدی منانے کا پروگرام ہے ۔ جس کے لیے ملک کےشہریوں میں ابھی سے جوش و جذبہ پروان چڑھانا ہے تاکہ وہ ملک کی تصویر بدل سکیں اور ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔انھیں خاکوں کے ذریعے پورا ملک جشن میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘ہر گھر ترنگا’’اس کی ایک اہم کڑی کے طور پرسامنے آئی ،جس پر ہرایک شہری کو عمل کرنا ہے۔ترنگے کی شان کو بلند کرنی ہے۔اس کے تئیں حب الوطنی کے جذبے کو پیش کرنا ہے۔
اک سوال ذہن میں ابھر کر آتا ہے کہ دیکھا جائے تو پچھلے چوہتر سالوں میں بھی ترنگا لہرایا گیا ،اس کے ساتھ محبت کا ثبوت پیش کیا گیا،لیکن اس بار ہر کسی پر جبراً اس کا نفاذ کس بات کی علامت ہے اورحکومت اس پر تقریباً ۲۰۰ کروڑ سے زیادہ روپے صرف کر رہی ہے۔معیشت دم توڑرہی ہے،ملک کا شہری بھوک مری اور بےروزگاری کا شکار ہےاورکروڑوں روپے ایسے بہائے جارہے ہیں۔یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب ملک مختلف شعبہ جات میں پستی اور انحطاط کا شکار ہے جس کا بیان آسان نہیں۔اس ملک کی جمہوری اقدار اس قدر تنزلی کا شکار ہے کہ ماہرین اس کے ختم ہونے کی تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔تعلیمی اور معاشی طور پر یہ ملک رکی رکی سانسیں لے رہا ہے۔ملک سیاسی ،معاشی اور تعلیمی بحران سے گزر رہاہے اور اس وقت شہریوں کو ‘‘ہر گھر ترنگا،گھر گھر ترنگا ’’میں الجھایا جارہا ہے تاکہ اس جشن میں ناکامیوں پر اٹھنے والےسوالات چھپ جائیں۔صرف اسی کا چرچہ کیا جائے ۔کوئی قابل ذکرحصولیابی ہوتو بتائی جائے ورنہ یہ جشن تو لوگوں بہلانے کے لیے کافی ہے۔کچھ تلخ باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔سب کو ایک جبریہ رنگ میں رنگنےسے ملک ترقی نہیں کرتا۔ہمیں ترقی کے صحیح راستوں پر ،صحیح سمت چلنا ہوگا تب ترقی کر سکتے ہیں۔
ملک کےشہری مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں،کھانے پینے سے لے کر ہر طرح کی چیزوں پر جی ایس ٹی لگ گیا ہے،جو امیر ہے وہ امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور جو غریب ہے وہ غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں ۷۷؍فیصد دولت بس ۱؍فیصدلوگوں کے پاس ہے۔یہ ہے ہمارے ملک کی حالت، جس کی ارباب اقتدار کو پرواہ نہیں ہےاورظاہری نمائش اور آرائش وزیبائش سے ملک کی ترقی کو تعبیر کیا جائے گا۔
نفرت اور تعصب کی آگ اس حد تک جا پہنچی کہ کہا جانے لگا کہ ترنگا مسلمانوں سے نہ خریدا جائے۔بہت سی جگہوں پر تو مسلمانوں سے معاملات اور خریدوفروخت کا بائیکاٹ کیا جا چکا ہے۔اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا اور لوگوں سے اس کا عہد لیتے ہوئے ویڈیو وائرل کی گئیں،اب وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور حکومت کو باور کرایا جائے کہ ہم بھی اسی ملک کے شہری ہیں ۔ہمارا بھی یہی وطن ہے۔ہم سے کیوں دورخا سلوک کیا جاتا ہے؟بڑے بڑ وں سے لے کر ننھی ننھی جانوں کے اندر بھی مسلمانوں کے تئیں نفرتوں کا زہر بھر دیا گیا ہے اب ضرورت ہے اس کا تریاق تلاشا جائے ورنہ مسلمانوں کا وجود ساحل سمندر پرہونے کی مانندہے کب موجوں کے حوالے کر دیا جائے،اندازہ نہیں۔ مسلمانوں کے اندر ہر محاظ پر سرمہری اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سو رہے ہمیں اپنے وجود کی فکر نہیں ہے۔تعلیمی اور معاشی بیداری تو ازحد ضروری ہے۔تعلیم کےمیدان میں عدم توجہی یا متوسط درجےکی تعلیم پر اکتفا کیے جانے جیسے حالات تو بتاتے ہیں کہ اب تو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی فرض ہو چکی ہے۔اس لیے اپنے وجود کو بچانے کے لیے تعلیم واحد راستہ اور حل ہے جس کو اختیار کرکے ہم مخالفین کا منہ بند کر سکتے ہیں۔ملک ملت کے بہی خواہوں سے درخواست ہے کہ تعلیم ہر فرد کےلیے لازم قراردی جائے کیوں کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔
تعلیم ہی کے ذریعے بڑے بدلاؤلائے جا سکتے ہیں۔تعلیم ہی معاش کے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتی ہے۔اس لیے ہمیں ان دونوں اہم وجوہات پر عمل کرکے اپنی قوم کو ترقی کی منزلوں سے ہمکنار کرنا ہے۔کام کریں ،اس کا نتیجہ دوجہاں کے رب پر چھوڑ دیں،ساری کامیابیاں اسی کے در سے بٹتی ہیں۔
از : محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر: پیام برکات، علی گڑھ
رابطہ: 7860561136