استقبال ماہِ رمضان
رمضان المبارک کا مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ یعنی دنیائے انسانیت پر اللہ رب العالمین کی سب سے بڑی نعمت مکمل ہوئی۔ اس ماہ مبارک کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اس میں فرائض کا ثواب 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور نوافل کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ اسی ماہ مبارک میں وہ عظیم رات آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ یہ رات ایسی بابرکت ہے کہ قرآن مجید کی ایک مستقل سورۃ اس کے فضائل میں نازل ہوئی۔ یہ رات ایسی بابرکت رات ہے کہ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے اسی رات میں کیے جاتے ہیں۔ یہ ماہ مبارک ایسا مقدس ہے کہ اس میں سرکش شیاطین پابند سلاسل کر دیے جاتے ہیں تاکہ مومن بندوں کے لیے یکسوئی سے عبادت کرنا آسان ہو جائے۔ اس ماہ مبارک کی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ اس مہینے میں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ آسمان سے خیر و برکت کا نزول ہمہ وقت ہوتا رہے۔
بہت سے لوگ بلاؤں کو آسمان سے منسوب کرتے ہیں کہ آسمانی بلا نازل ہوئیں۔ لیکن مالک کائنات کے رسول اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے، جو سراپا رحمت ہیں، یہ بتایا ہے کہ جب آسمان کے دروازے کھلتے ہیں تواللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، زحمتیں نہیں۔
نزول رحمت اور خیر و برکت کا یہ مہینہ نہایت ہی با برکت اور خیر و صلاح کا مہینہ ہے۔ یہ ایسا مبارک مہینہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس مہینے میں یکسوئی سے عبادت کر کے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنا پائے توحدیث میں ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے۔
رمضان المبارک کا یہ با برکت مہینہ چند یوم کے بعد شروع ہونے والا ہے۔ اس مہینے کی برکت اور فضیلت ایسی عظیم الشان ہے جو اس ماہ مبارک کو مہینوں اور سالوں پر نہیں بلکہ صدیوں پر فوقیت دیتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں جنت کا حصول آسان ہو جاتا ہے، نیکیوں کی تو گویا اس ماہ مبارک میں بہارآ جاتی ہے۔
ایسا ماہ مبارک اب تمام انسانوں سے چند لمحوں کے فاصلے پر ہے۔ اگرچہ اس مقدس مہینہ کے استقبال کی تیاری پورے سال کرنی چاہیے۔ تاہم اس میں اگر چوک ہو جائے تو شعبان المعظم کا پورا مہینہ تو اس کے استقبال کی تیاری میں گزارناہی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ آپ ؑ شعبان کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ یوں تو آپ ؑ ہر مہینے میں روزے رکھتے تھے لیکن سب سے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے تھے۔ یہ بھی گویا ماہ رمضان کےاستقبال کی تیاری تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی معمول تھا کہ شعبان کے آخر میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزے نہ رکھا کرو، اسی طرح حدیث کی بعض کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ 15 شعبان کے بعد آپؐ روزے نہیں رکھا کرتے تھے۔ گویا رمضان سے پہلے روزے نہ رکھنا رمضان المبارک کا خصوصی اہتمام کرنے کے لیے ہے۔
ماہ رمضان المبارک کے استقبال کا تقاضا یہ ہے کہ اس ماہ مقدس کی آمد سے قبل ہی اس مہینے کو گزارنے کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مقدس مہینہ بڑی برکتوں کا ہے اور اس کی برکتیں اور نعمتیں پوری طرح تب حاصل ہوں گی جب اس کا اہتمام پہلے سے کیا جائے گا۔ اس لیے رمضان کی تیاری اگر پورے سال نہ کر سکیں تو کم از کم شعبان کے مہینے میں اس کی تیاری ضرور کر لینی چاہیے۔
رمضان المبارک کے استقبال کے حوالے سے چند اہم پہلو ہیں۔ ان کو سامنے رکھیں اور ان کے مطابق اگر اس ماہ مبارک کی تیاری کریں تو امید ہے کہ اس ماہ مقدس سے زیادہ مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔
ہم سب کی زندگی کو اگر غور سے دیکھا جائے تویہ ایک گھڑی کی طرح ہے۔ ہم نے اپنے دن کوبھی بالکل گھڑی کی طرح مقرر کر رکھا ہے۔ جس طرح گھڑی میں وقت بتانے کے لیے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہیں اسی طرح ہم لوگ بھی وقت کے ساتھ اپنے کاموں کو مقرر کر لیتے ہیں۔ یعنی صبح یہ کام کرنا ہے، دوپہر میں یہ کام اور شام کو یہ کام۔ پورا دن بلکہ پوراسال اور اس سے بھی بڑھ کر پوری زندگی اسی ایک پروگرام کے مطابق گزر جاتی ہے۔ کسی بھی نئے کام کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے۔یہ زندگی کا بہت اچھا استعمال نہیں ہے۔زندگی کا اچھا استعمال اس کی منصقوبہ بندی کرنا اوراس کو طریقے سے بسر کرنے میں ہے۔ماہ رمضان المبارک بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔
رمضان المبارک کے استقبال کی پہلی تیاری تو یہ ہے کہ اپنے وقت کو رمضان المبارک کے مطابق ڈھال لیں۔ سال کے بقیہ دنوں کے پروگرام کو معطل کر کے رمضان المبارک کے لیے ایک نیا نظام الاوقات بنائیں جس میں سب سے زیادہ اہمیت عبادت کو ہو۔ یعنی رمضان المبارک صرف عبادت کے لیے ہے۔ بقیہ تمام تقاضے ضرورت کے مطابق پورے کیے جائیں گے۔ آرام کی ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔ بشری تقاضے بھی پورے کیے جائیں گے۔ معاشی ضرورتوں اور ڈیوٹی وغیرہ کا بھی اہتمام ہوگا۔ لیکن صرف بقدر ضرورت اور عبادت ہوگی بقدر استطاعت۔اگر عبادت میں انہماک کی دولت مل گئی تو یہ سب سے بڑی دولت ہوگی۔اللہ کے نیک بندے وہ ہوتے ہیں جو اس کے سامنے سجدہ اور قیام میں راتیں بسر کرتے ہیں۔ پورے سال نہ سہی اس ماہ میں تو اس کا اہتما کیا جا سکتا ہے۔
استقبال ماہ رمضان کے حوالے سے ہم کودوسرا اہتمام یہ کرنا چاہیے ہم اس ماہ میں صدقہ و خیرات میں غیر معمولی اضافہ کریں۔ عام دنوں میں اللہ کی راہ میں ہم جو خرچ کرتے ہیں،رمضان میں اس سے زیادہ خرچ کریں۔ زکوٰۃ تو فرض ہے، اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ داد و دہش کرنی چاہیے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ کا خیر و خیرات کا معمول ایسا ہو جاتا تھا جیسے آندھی میں تیز ہوا۔ یعنی بہت زیادہ خرچ کیا کرتے تھے۔ ہم کو چاہیے کہ اس ماہ مبارک میں غریبوں اور ناداروں کو زیادہ سے زیادہ دیں اور اس پر شکر ادا کریں۔ کسی کی مددکرنا در اصل رب العالمین کی رحمت ہے جو وہ ہمارے ذریعے کرواتا ہے، اس لیے اگر کسی کو نیک کام کی اور کسی کی امداد کی توفیق ملے تو اس کو شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اس کو اپنی رحمت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
تیسرا کام یہ ہے کہ رمضان المبارک میں صلہ رحمی کا خصوصی معمول بنانا چاہیے ساتھ ہی رشتے داروں کے حقوق زیادہ سے زیادہ ادا کرنے چاہئیں۔ اگر کسی رشتہ دار سے ناچاقی ہے یا جھگڑا ہے تو رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اس سے اپنا جھگڑا ختم کر دیں۔ اس سے معافی مانگیں اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ صلہ رحمی کا معاملہ کریں۔
چوتھا کام یہ ہے کہ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کریں. کم از کم تین پارے روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔ تراویح میں جو قرآن سنا جائے اس کو تراویح سے پہلے پڑھ کر جائیں اورامام کی تلاوت کو بھی دھیان سے سنیں۔ اس کے علاوہ فجر کے بعد، ظہر کے بعد اور عصر کے بعد ضرور تلاوت کریں۔ جس کو عربی آتی ہو وہ تو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھے اور جس کو عربی نہیں آتی وہ عام تلاوت کے علاوہ اس کا بھی اہتمام کرے کہ روزانہ ایک پارہ یا سوا پارہ معنی کے ساتھ قرآن مجید کو سمجھے اور جو کچھ سمجھے اس پر عمل کرے۔
ان کاموں کے علاوہ نوافل کا اہتمام، دعا کا اہتمام اور مناجات کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رمضان المبارک گزارنے کی منصوبہ بندی کر لی جائے گی تو اس مبارک مہینہ سے بھرپور استفادے کا موقع ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مقدس کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔