بی جے پی کا ایجنڈا کانگریس مکت بھارت یا اپوزیشن مکت حکومت 

۲۰۱۴ میں برسر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی حکومت نے سابقہ حکومت اور ۲۰۱۴ سے پہلے تک قومی ہیرو کے طور پر پہچان رکھنے والے آنجہانی رہنماوں کی کمیاں اور غلطیوں کی لمبی فہرست گناتے ہوئے ایک نعرہ دیا تھا کہ ملک کو کانگریس مکت بھارت بنانا ہے۔ اس نعرے کو عملی جامع پہنانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ سازشیں، انتخابات میں دھاندلیاں ، مخالف پارٹیوں میں اپنے آلہ کار بنانا جنہوں نے کانگریس کو نقصان پہچانے کے کوشش میں راست طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچایا اور حکومت میں حصہ داری کا خواب سجائے کچھ علاقائی پارٹیوں نے بھی بی جے پی کی ہمنوائی کی۔ مگر دھیرے دھیرے بی جے پی اپنے اصل مشن کی طرف بڑھنے لگی اور جن صوبوں میں کانگریس کمزور ہوگئی وہاں علاقائی پارٹیوں کے خلاف سازشیں بنی گئیں۔

 چندرا بابو نائیڈو جو کانگریس پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی جی جان سے کوششیں کررہے تھے ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی گئی اور تلگو دیشم پارٹی کو ختم کرنے کے لئے وائی ایس آر کانگریس کا سہارا لیا گیااور اس میں کامیاب رہے ۔یہی کچھ مغربی بنگال میں کرنے کی کوشش کی گئی ترنمول کانگریس کو توڑنے کے لئے ترنمول کے بڑے بڑے لیڈران کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ ہر طرح سے حراساں کرنے کے لئے پوری طاقت لگادی مگر تعریف کے قابل ہیں وہاں کے عوام جنہوں نے ترنمول کانگریس پر اپنا اعتماد برقرار رکھا اور تمام سازشوں کو ناکام کردیا۔ کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے تعاون سے بنی جے ڈی ایس حکومت کو گرانے کے لئے ان کے ارکان اسمبلی کو توڑا گیا۔ بہار میں تو جس جنتا دل یونائیٹیڈ کے سہارے بی جے پی نے حکومت سازی کی سازشیں کرکے اسی جے ڈی یو کو کہیں کا نہ رہنے دیا اوراب جے ڈی یو بغیر بی جے پی کے کچھ بھی نہیں رہ گئی ۔

کشمیر میں پہلے پی ڈی پی سےاتحاد کرکے حکومت سازی کی گئی بعد میں ایجنڈے کے تحت وہاں صدر راج نافذ کرکے پورے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام لادیا گیا ۔اتر پردیش میں چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا پہلے ان کو ساتھ لیا گیا اور بعد میں ان کے خلاف سازشیں کرکے ان کا قد گھٹا کر انہیں بے وزن کردیا گیا۔ اب یہی سب کچھ ملک کی اقتصادی لحاظ سے سب سے اہم ریاست مہاراشٹرا میں کیا جارہا ہے کانگریس کو ختم کرنے کے نعرے کے ساتھ شیوسینا کے ساتھ نظریاتی بنیاد پرمفاہمت کی گئی مگر جب شیوسینا نے اپنی اہمیت اور رسوخ برقرار رکھنے کے لئے اقتدار میں حصہ داری چاہی تو شیوسینا کے پر کاٹنے اور اس کے رسوخ کو کم یا ختم کرنے کا خواب سجانے والی بی جے پی نےانکار کردیا ۔جس کے بعد این سی پی کے قومی رہنما شرد پوار جو شائد بی جے پی کے اپوزیشن مکت حکومت کے ایجنڈے کو سمجھ چکے ہیں ان کی ایما پر شیوسینا نے کانگریس این سی پی و دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور شیوسینا کے بانی کے فرزند کو وزیر اعلی بنا کر پوری ریاست میں شیوسینا کو زبردست عزت دی گئی اور بی جے پی کو انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا۔

بی جے پی اس عوامی فیصلہ کو قبول نہیں کرپارہی ہے اور سازشیں ، لالچ ، دھمکیوں ، کو ہتھیار بنا کر اس حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کی جا رہی ہے ملک کے بعض جگہوں پرمحض چند سیٹیں حاصل کرکے توڑ جوڑ لالچ، دھمکی ، سازش کا سہارا لے کر اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی کو مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود اقتدار سے محرومی کی ذلت برداشت نہیں اور اس ذلت کو ختم کرنے کی کوشش برسراقتدار شیو سینا کے ایک تہائی سے زائداراکین اسمبلی کے ذریعہ جاری ہے ۔ملک کی اب تک کی تاریخ میں برسراقتدار پارٹی کے اتنی بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی کی بغاوت کبھی نہیں ہوئی ہندو تو نظریات سے انحراف کا الزام لگاتے ہوئے بغاوت کرنے والے یہ وہی شیوسینک اراکین اسمبلی ہیں جو مہا وکاس اگھاڑی بننے پر خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے۔ کیا اس وقت یہ لوگ کانگریس این سی پی کے نظریات سے واقف نہیں تھے ؟کیا اس بغاوت کے بعد ان کی حیثیت و عزت وہ رہ جائے گی جو بطور شیوسینک لیڈر ان کی ہوا کرتی تھی ؟انتخابات میں ان کی بظاہرسخت ہندو تو اور نرم ہندو تو کے درمیان پھنسی مہاراشٹرا حکومت کی سب سے بڑی علاقائی پارٹی شیو سینا اپنے قیام کے بعد سب سے بدترین دور سے گذر رہی ہے۔ رانے ، بھجبل ، اور اس کے بعد ٹھاکرے خاندان کے ہی فرزند راج ٹھاکرے جیسے لوگوں کی بغاوت کے طوفان کو جھیل جانی والی پارٹی کے بانی کے خاندان کو سب کچھ ہاتھ سے پھسلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔یہ شائد پہلی مرتبہ ہے کہ ٹھاکرے خاندان کے کسی فرد کو اپنے قدم پیچھے لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ دوسری علاقائی پارٹیوں اور ان کا آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی کے ساتھ سبق بھی ہے کہ اگراب بھی انہوں نے بی جے پی کے اصل مشن اپوزیشن مکت حکومت کے ایجنڈے سے چشم پوشی کی تو اگلا نمبر ان کا ہی ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter