کس بات کے لئے جشن آزادی منائیں ہم؟

آزادی کا پچھہترواں سال ہے ۔ ہم آزادی کا جشن کیوں مناتے ہیں؟ اسی لیے کہ ہم  انگریزوں کی غلامی، قید اور  انہیں کے بنائے گئے سخت اصولوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی پابند بنے رہنے سے آزاد ہوئے تھے۔ غلامی کے اس  دور میں نہ تو کسی کو ان کے خلاف کچھ کہنے اور بولنے کی آزادی تھی اور نہ ہی اپنی مرضی اور آزادی سے جینے کا کسی کو کوئی حق حاصل تھا۔ یہ دن ہم اس بات کی خوشی میں بھی مناتے ہیں کہ ہمیں ان کی بے جا سختیوں اور غلامی سے آزادی ملی۔ اس دن خاص طور پر ہم  آزادی کو پانے کے لیے ان جانبازوں کی کی گئی جدوجہد اور قربانی یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی اور حق کی جائز لڑائی لڑتے لڑتے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ ہم آزادی کا جشن اس لیے بھی مناتے ہیں  تاکہ ہم یاد کریں کہ یہ جو آزادی ہمیں نصیب ہوئی ہے وہ بڑی  ہی مشکلیں اور بڑی مصیبتیں جھیلنے کے بعد ملی ہے۔ تو ہم آزاد ہوگئے۔  لیکن غور کیجیے کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟؟؟ 

آزاد بھارت کے کچھ حقیقی واقعات تو ملاحظہ فرمائیے۔ اتر پردیش کے سہارنپور ضلع میں ایک دلت نوجوان کی مونچھیں زور و زبردستی سے اس لیے مونڈھ دی جاتی ہیں کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اسے کوئی حق اور آزادی  نہیں ہے مونچھیں رکھنے کا۔ ان جاہلوں کے حساب سے مونچھوں پر تاؤ دینے کی آزادی بس "اونچی ذات" اور نیچی سوچ رکھنے والوں کو ہے۔ اس واقعہ کی بلا خوف و خطر ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے اور انٹرنیٹ پر شئیر بھی کی جاتی ہے۔  یعنی اب آزاد بھارت میں ایک دلت کو مونچھیں تک رکھنے کی آزادی نہیں ۔  کوئی دلت اگر کسی براہمن سے شادی کرلے تو اسے دن دہاڑے جان سے مار دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسے آزادی نہیں کہ وہ کسی براہمن لڑکی سے محبت یا شادی کرے۔   آزاد بھارت میں اقلیتوں پر آئے دن ظلم و ستم ہوتے رہتے ہیں۔ اور بلا خوف و خطر باقاعدہ ویڈیوز بنا کر "بہادری" سے انٹرنیٹ پر شئیر کیا جاتا ہے۔ ایسے سماج دشمن عناصر کو پورا یقین ہوتا ہے کہ ان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔  سارے ثبوت ہونے کے باوجود کوئی سخت کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ انہیں سرپرستی اور پوری حمایت  حاصل  ہوتی ہے۔ ہاں ایسے سماج دشمنوں کو پوری طرح آزادی حاصل ہوتی ہے اقلیت کو پریشان کرنے کی۔ ان پربے جا ظلم کرنے کی۔ ایسے کتنے ہی افسوسناک واقعات کی ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی ہے۔ سماج میں نفرت پھیلانے والوں کو پوری آزادی ہے نفرت پھیلانے کی۔ ان کے جب جی  میں آتا ہے ایک طبقہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ کسی کو بھی پکڑ کر زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ صاحب کی ناک کے نیچے دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ جس سے انہیں خوب حوصلہ ملتا ہے ۔ نفرت پھیلانے کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ نہ ہی ان پر کوئی کاروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی  نفرت انگیزی پر کوئی  روک لگائی جاتی ہے۔   کیا اس طرح کی آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان کی قربانیاں دی تھیں؟ ایسے آزاد بھارت کا خواب دیکھا تھا انہوں نے ؟ اس طرح کے  ماحول بنائے رکھنے کے لیے انہوں نے ایک لمبی جدوجہد کی تھی؟ 

افسوس لڑکیاں ،بچیاں محفوظ نہیں آزاد بھارت میں۔ آئے دن ان کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے ۔انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا۔ جب اس پر احتجاج ہوتے ہیں تو بیان آتا ہے کہ لڑکیوں کو ضرورت ہی کیا ہے رات میں باہر نکلنے کی۔ آزاد بھارت کی لڑکیاں دن کے اجالوں میں بھی کب محفوظ ہیں۔  کیا دن کی روشنی میں ایسے خوفناک واقعات نہیں ہوتے ہیں؟ ان کی عزت تار تار نہیں کی جاتی ہے؟؟

اندھیر نگری کے چوپٹ راجہ کے جب جی میں آتا ہے ، وہ خود کے ہی  من کی گا کر چلا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہمیں اس بات کی آزادی اور حق حاصل ہے کہ  آپ یا ہم  بلا خوف کچھ کہہ سکیں یا  لکھ  سکیں؟  کیوں کہ آزاد بھارت میں سچ سے پردہ اٹھانے اور اپنی رائے دینے تک کی آزادی نہیں ہے۔  جہموریت کے چار اہم ستون  عدلیہ ،مقننہ، انتظامیہ اور صحافت کسی بھی جمہوری ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ستون اگر اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹا یا  اگر کمزور ہوا تو جمہوریت کی عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی ہے۔  کیا یہ  پوری آزادی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ چاروں ستون ہی لڑکھڑانے لگے ہیں۔ صحافت جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ لیکن آپ دیکھ ہی رہے میڈیا کا حشر۔ صحافت اب خود سچ سے آنکھیں چراتی ہے۔صحافت کا معیار گرتا ہی جا رہاہے۔ملک کے گنے چنے اخبار یا چینل اگر سچ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو  انہیں  ہراساں کیا جاتا ہے۔ عوام کو حقیقت سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن بھلا ہو سوشل نیٹورکنگ سائٹس کا کہ بہت سی حقیقت ہمیں انہیں کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ کتنی ہی نفرت پھیلانے والی جھوٹی خبروں کی اصلیت انہیں پلیٹ فارم کے سہارے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اب ان پر بھی نکیل کسنے کی تیاریوں میں لوگ جی جان سے جٹ گئے ہیں۔ افسوس صد افسوس ایسے ماحول میں بھلا کس طرح کوئی اپنے ہم وطنوں کو آزادی کی مبارکباد دے۔

آزادی تو مبارک ہو انہیں جوبنا روک ٹوک کے سماج میں نفرت انگیزی پھیلاتے ہیں۔ مبارک ہو آزادی انہیں جو ایک مذہب کے خلاف جب چاہتے ہیں زہر اگلتے ہیں ۔آزادی مبارک ہو انہیں جو اقلیت پر پوری آزادی کے ساتھ  اور بلا خوف ظلم کرتے ہیں۔ مبارک ہو آزادی انہیں جن کے ظلم و ستم کرنے پر کوئی سوال جواب نہیں ہوتے۔ مبارک ہو آزادی سماج کے ان درندوں کو جو لڑکیوں کی عزت سے کھیلنے کے بعد بھی پوری آزادی کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں۔ خوب مبارک ہو آزادی انہیں جو  دلتوں کو ذلیل و خوار کرنا اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ مبارک ہو جشن آزادی بہت مبارک ہو۔ 

_حمنہ کبیر، وارانسی 
(بشکریہ روزنامہ انقلاب)

Related Posts

Leave A Comment

1 Comments

Voting Poll

Get Newsletter