دھرم كی آستها كى آڑ میں دهر مستهلا میں حیوانیت کا ننگاناچ
کرناٹک ان دنوں ایک لرزہ خیز اور سنسنی خیز معاملے کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کی میڈیا ٹیمیں اور صحافیوں کی نظریں دھرمستھلا پر جمی ہوئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایس آئی ٹی ٹیم زمین کی کھدائی میں مصروف ہے۔ ایک طرف زمین کھودی جا رہی ہے تو دوسری طرف اس کھدائی کے پیچھے چھپے سیاسی چہرے اور مندر کے منتظمین پریشانی و حیرانی کا شکار ہیں۔ دھرمستھلا کے ایک سابق صفائی کرمچاری کے چونکا دینے والے انکشافات نے گویا دبے ہوئے سچ کو زبان دے دی ہے — اور وہ معصوم بچیاں، جن کے اجسام زمین کے نیچے گلی سڑی ہڈیوں میں بدل چکے ہیں، آج گویا خود بولنے لگی ہیں۔
دھرمستھلا ہندووں کے لیے پاکیزہ دھرتی ہے جہاں پاپی لوگ آکر اپنا پاپ دھلتے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں جس طرح گنگا ندی ہندووں کے لیے پوتر ہے اسی طرح نیتراوتی ندی بھی ان کے لئے مقدس اور پوتر ہے۔ لوگ بڑی امیدوں کے ساتھ دھرمستھلا منجوناتھ مندر آتے ہیں اور اپنے بالوں کو منڈواکر نیتراوتی دریا میں اپنے پاپ دھل کر واپس جاتے ہیں۔ انہیں مذکورہ کاموں کےلیے دھرمستھلا مشہور ومعروف بھی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا کہ پاپ جہاں دھلے جاتے ہیں اسی جگہ کو کچھ ناہنجاروں نے پاپ کا اڈہ بنادیا ہے۔اس مندر کے منتظمین میں جناب ویریندر جین ہگڈے اور ان کے بھائی ہریشیندر جین ہگڈے جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔ ویریندر ہگڈے راجیہ سبھا کے رکن بھی ہیں۔
ایک سابق صفائی کرمچاری کی پریس کانفرنس نے منتظمین سے لے کر اعلی حکام تک کو پریشان کردیا ۔ حالیہ دنوں میں تیرہ مختلف مقامات پر کھدائی کی گئی، جہاں سے انسانی باقیات، شناختی دستاویزات، اور دیگر شواہد برآمد ہوئے۔ یہ دریافتیں کسی خوفناک حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس کا پردہ فاش ہونا ابھی باقی ہے۔
صفائی کرمچاری کے مطابق، 1995ء سے 2014ء تک یعنی دو دہائیوں کے دوران مندر کے اعلیٰ حکام نے اسے بارہا لاشیں دفن کرنے کا حکم دیا۔ ان لاشوں میں اکثریت خواتین، نوعمر لڑکیوں اور لاچار بھکاریوں کی تھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ اکثر لاشیں نیم برہنہ حالت میں ہوتیں، جن پر تشدد اور بدسلوکی کے نشانات واضح ہوتے۔ کچھ کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا تھا، تو کچھ کے چہرے مسخ کیے گئے تھے۔ اور یہ لاشیں دفن کرنے کے احکامات مندر کے ہی اعلیٰ حکام دیا کرتے تھے۔اس کا دعویٰ مزید یہ ہے کہ یہ لاشیں ان لاجوں سے برآمد ہوتی تھیں جو مندر کے آس پاس واقع ہیں، جیسے راجتھڈری، گوداوری، ساکیت، نیتراوتی، گنگوتری اور نرمدا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ اتنے برسوں سے جاری تھا تو پولیس خاموش کیوں رہی؟ اور بیلتنگاڈی کے ایم ایل اے ہریش پونجا اور ضلع کے ایم پی کیپٹن بریجیش چوٹا نے کوئی بیان کیوں نہ دیا؟ اگر یہی واقعہ کسی اور مذہب یا طبقے سے جڑا ہوتا تو وہ تمام فرقہ پرست چہرے، جو معمولی بات پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، میدان میں آ چکے ہوتے۔اور ديکھتے ہی دیکھتے شرن پمپ ویل، پرامود متالک، بھرت کمٹیل ، پراباکر بٹا اور ہمارے مرکزی وزیر شوبھا کرند لاجے جیسے شر پسند عناصر برسات کے مینڈک کی طرح میدان میں کود پڑتے اور قیاس آرائیوں سے اشتعال انگیز بیانات دیتے نہیں تھکتے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا بیان دیتے۔ معاملہ دھرمستھلا کا ہے اس لیے ان کی زبانوں پر چپی لگی ہوئی ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
صفائی کرمچاری کا بیان تو یہ ہے کہ وہاں 20سالوں سے نوعمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال ہورہا ہے اور، اعلی حکام اس میں ملوث ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی لاش وہ دفن کرتا تھا۔ اس بیان کے باوجود کوئی ایکشن نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر معمولی سی پوسٹ پر تو کارروائی کی جاتی ہے، مگر اتنے سنگین دعوؤں کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر اعلیٰ حکام اور مندر انتظامیہ کو ان سب واقعات کا علم کیسے نہیں ہوا؟ اگر ہوا تھا تو خاموش کیوں رہے؟ اور اگر نہیں ہوا تو یہ غفلت کس قدر سنگین ہے؟
کھدائی سے برآمد ہونے والی باقیات اور انسانی اعضا، یہ چیخ چیخ کر ایک خفیہ بھیانک سازش کی کہانی سنا رہے ہیں۔ اس ظلم کے پیچھے جو سیاہ چہرے ہیں، وہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی بے نقاب ہوں گے۔ اسی دوران یہ بھی خبر ہے کہ مرکزی حکومت ایس آئی ٹی کے سینئر آئی پی ایس افسر پرنپ موہنتی کو مرکزی ڈیوٹی پر تعینات کرنے جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خالص ریاستی معاملے میں مرکز کی اتنی مداخلت کیوں؟ اور ایس آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کرنے کے پیچھے کون سا خفیہ ایجنڈا چھپا ہے؟
ہم تمام لوگ یس آئی ٹی کے تحقیقاتی رپورٹ کے انتظار میں ہیں۔ اس درمیان کچھ خفیہ سازشیں بھی رچی جارہی ہیں۔ کنڑا گودی میڈیا دھرمستھلا کے اس معاملے کو رخ موڑنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ کچھ نیوز آینکر تو یہاں تک دعوی کررہے ہیں کہ پورا دھرمستھلا کھود ڈالو کچھ ملنے والا نہیں۔ لیکن ان فرقہ پرست آینکروں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ جو باقیات ملے اس کا کیا۔؟ یہ انسانی ہڈیاں کیسے دھرمستھلا اور نیتراوتی دریا کے کنارے پہنچیں۔
ہم منجوناتھ مندر کے سربراہ اعلی جناب ویریندر جین ہگڈے سے بھی یہی امید کرتے ہیں کہ وہ یس آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد اس بہیمانہ جرم میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں لائیں گے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی عہدے یا اثر و رسوخ سے ہو۔ اور انہیں ایسی سزا دلوائیں کہ دوسرے مجرم اس سے سبق حاصل کریں اور سب کچھ سامنے آنے کے بعد بھی سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی تو مندر اور اس کے منتظمین پر عوام الناس کا جو بھروسہ تھا وہ اڑ جائے گا، اور عوام یہ سمجھے گی کہ اس بہیمانہ تشدد اور گھناؤنے جرم میں مندر کے سربراہ اور دیگر منتظمین بھی شامل ہیں اس سے مندر اور مذہب کا تقدس پامال ہوگا۔ نوجوان شاعر شکیب جلالی کا ایک شعر اس موقع پر بہت معنی خیز لگتا ہے:
"خموشی بول اُٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے، کہرام ہو جائے"
دھرمستھلا ایک مقدس مقام ہے، جہاں ملک بھر سے لوگ اپنی دعائیں، امیدیں اور عقیدت لے کر آتے ہیں۔ اگر ایسے مقام پر بھی بیٹیوں کی عصمت محفوظ نہیں تو پھر مذہب اور عقیدت کا تقدس شدید خطرے میں ہے۔ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ مندر انتظامیہ کو چاہیے کہ ان لاجوں پر کڑی نظر رکھے اور مندر میں آنے والوں کی مکمل جانچ کرے۔ مشتبہ افراد کی اطلاع فوراً پولیس کو دی جائے۔تبھی جا کر دھرمستھلا میں امن و سکون بحال ہوگا اور مندر کی روحانی فضا برقرار رہ سکے گی۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب لوگ خوف اور بداعتمادی کے باعث یہاں آنا بند کر دیں گے۔ مذہب اور مقدسات کو اپنی درندگی کی ڈھال بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ دعا ہے کہ ان معصوم بچیوں اور مظلوم لاشوں کو انصاف ملے، اور مجرموں کا چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب ہو۔