دور جاہلیت کا سرسری جائزہ
رفیق احمد کولاری ہدوی
نائب پرنسپل شمس العلماء عربک کالج ۔ توڈار کرناٹک
سرور دوجہاں سیاح لامکاں خسروئے خوباں ارواحنا فداہ جناب محمد ﷺکی ولادت باسعادت سے پہلے ہرطرف کفر وشرک کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ۔ جہالت وبربریت کا دور دور تھا ۔ چارسو قتل وغارت گری کی حکومت قائم تھی ۔ ظلم وستم کا بازار گرم تھا ۔ نہ کوئی یتیم کا پرسان حال تھا ۔ نہ بیوہ کا یار ومددگار عورت کے وجود کو منحوس گردانا جاتا تھا ۔ غریبوں ولاچاروں کو زور وزبردستی کی چکی میں پیسا جاتا تھا۔
سوسائٹی میں سود خواری ،جوا بازاری ،شراب نوشی، حرام کاری ، اور عیاشی وفحاشی عام تھی ۔ گھر گھر پتھروں کی پرستش ہوتی تھی۔ ہر قبیلہ کیلئے اپنا ایک خاص بت ہوتا تھا جس کی وہ عبادت کرتے اور سفروں میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ کعبۃ اللہ جو توحید باری کا محور ومرکزتھابت برستشوں نے وثنیت وصنم پرستی کا اڈا بنادیا ۔ بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ کعبۃ اللہ کا وہ برہنہ طواف کیا کرتے تھے ۔ اس فحاشی کو وہ اپنی زندگی کا سب سے اہم ونمایاں عمل سمجھتے تھے ۔ جن کپڑوں میں وہ حرام وگناہ کرتے اسے نذرآتش کردیتے اور یہ تصور کرتے کہ کپڑے چلانے سے ہمارے پاپ بھی دھل گئے ۔
بت پرستی بام عروج پر تھی لوگ گوناگوں انداز میں اپنی مورتیوں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے ۔ اس زمانہ میں کعبۃ اللہ مکمل طور پر بت خانہ بن چکا تھا ۔ جس میں تین سو ساٹھ سے زیادۃ مختلف شکل وصورت کے بت رکھے ہوئے تھے ۔ ایام حج میں ہر قبيلے کے افراد اپنے اپنے بت کے سامنے کھڑے ہوکر عبادت وریاضت کرتے تھے ۔
بعثت نبوی ﷺسے قبل یہود ونصاری بھی جزیرۃ عرب میں سکونت پذیر تھے ۔ یہود اکثر وبیشتر شمالی عرب میں رہتے تھے ۔ مثلا یثرب ، وادی القری، تیما ، خیبر اور وادی فدک ان لوگوں کی رہائش گاہیں تھیں اور عیسائی عرب کے جنوبی علاقے یمن اور نجران میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ نجران نصاری کا مرکز عقیدت تھا ۔ یہود ونصاری بھی پیغمبروں کی تعلیمات کو یکسر فراموش کرچکے تھے ۔ ان میں اکثریت توحید پرستی کے بجائے تثلیث کے قائل ہوچکے تھے ۔ الغرض پوری دنیا پر ظلمت وجہالت کی حکومت قائم تھی ۔ انہیں حالات کے مدنظر رکھتے ہوئے موَرخین نے اس دور کو ‘ڈارک ایج،یعنی دور ظلمت کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فاَلف بین قلوبکم فاَصبحتم بنعمتہ اخواناوکنتم علی شفا حفرۃ من النار فاَنقذکم منها ، ترجمہ اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوذخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچادیا (آل عمران: 103 کنز الایمان)
جاہلی دور کے حالات بیان کرنےكے بعد حضرت علامہ محمد نور بخش توکلی علیہ الرحمہ کچھ یو ں رقم طرازہیں ‘یہ حالت صرف عرب کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام دنیا میں اسی طرح کی تاریکی چھائی ہوئی تھی چنانچہ اہل فارس آگ کے پوجنے اور ماؤں کے ساتھ وطی کرنے میں مشغول تھے ۔ ترک شب وروزبستیوں کے تباہ کرنے اور بندگان خدا کو اذیت دینے میں مصروف تھے،ان کا دین بتوں کی پوجا اور ان کی عادت مخلوقات پر ظلم کرناتھا ۔ ہندوستان کے لوگ بتوں کی پوجا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے اور نیوگ کو جائز سمجھتے تھے ۔ یہ عالمگیر ظلمت اس امر کی مقتضی تھی کہ حسب عادت الہی ملک عرب میں جہاں دنیا بھر کے ادیان باطلہ وعقائد قبیحہ واخلاق ردیہ موجود تھے ۔ ایک ہادی تمام دنیا کے لئے مبعوث ہو ، چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا ۔ (سیرت رسول عربیﷺص 79-80)